ادبی انجمنوں کی ضرورت

فرانس پر جب نازیوں کا قبضہ ہوا تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ادیبوں اور اہل ِ قلم کی زبانوں پر تالے پڑگئے۔ ایک شخص درولا روشیل نامی نازیوں کی طرف سے تبصرہ کرتا تھا اور اس میں ان ادیبوں کی تذلیل کرتا تھا جو زباں بندی کے اسیر تھے ، جو سن تو سکتے تھے ،مگر جواب نہیں دے سکتے تھے۔ کئی روزتک یہ سلسلہ جاری رہا ،لیکن جلد ہی اس کی تحریروں میں بے اطمینانی اور بے قراری جھلکنے لگی ، پھر اس نے لکھنا بند کر دیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا خطاب ان لوگوں سے تھا جو پلٹ کر جواب نہیں دے سکتے تھے، اس سے اختلاف نہیں کر سکتے تھے اور کوئی صحرا میں بیٹھ کر کیا ادب تخلیق کر سکتا ہے؟ یہی رویہ آج کل کی نئی نسل کا ہے ۔ جب لکھنے والوں کو یہ احساس ہونے لگے کہ کسی نے اس کی بات سے اختلاف نہیں کیا اور شاید کسی نے اس کی بات کو پڑھا ہی نہیں، سمجھا ہی نہیں تو وہ آخر کب تک لکھتارہے گا؟
چونکہ ہماری نئی نسل نے کتاب سے دوری اختیار کر لی ہے ، وہ نسل جو اپنے ادیبوں ، شاعروں، دانشوروں کی تحریریں پڑھنے کی بجائے سوشل میڈیا پر وقت گزاری کو نصب العین بنا لے، اسے ادب کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرنا دیوانے کے خواب سے زیادہ اہم نہیں۔اچانک عمران اسلم نے دخل اندازی کی کہ ایک تو یہ سوچ کہ نئی نسل کتاب دوست نہیں،سو فیصد درست نہیں۔ زندہ سماج میں ہر طبقہ فکر کا ہونا لازم ہے ، ہماری نئی نسل کی اچھی خاصی تعداد شعر و ادب سے دلچسپی رکھتی ہے اور پھر اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ہمارے نوجوان ادب دوست نہیں رہے تو یہی بات حقیقی معنوں میں لمحہ فکریہ ہے ؟ اس صورت حال میں ہی تو ادب دوستی کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے اور پھر یونیورسٹیوں میں ادبی انجمنیں یا سوسائٹیاں فعال نہ رہیں تو ”بے ادبی‘ کھلے عام پنپنے لگتی ہے۔ ہمیں جامعات یا دانش گاہوں میں ادبی سوسائٹیوں اور ادبی تحریکوں کی ضرورت ہے تاکہ تخلیقی بانجھ پن کا شکار ہوتی ہوئی نسل کو روحِ عصر سے آگاہ کیا جاسکے ۔
انگریزی ادب کے ذہین اور فعال استاد نے تجویز کیا کہ یونیورسٹی آف گجرات جو اپنے علم دوست شیخ الجامعہ ڈاکٹر نظام الدین کی وژنری قیادت میں دانش گاہ بنتی جار ہی ہے وہاں طلباءو طالبات کے سینوں میں ادب و شعر کی جوت جگانا عصری تقاضا ہے۔ امریکی ادیب و شاعر R.W Emerson نے کہا تھا کہ.... There is creative reading as well as creative writings. ....ڈاکٹر امجد علی بھٹی اور عمران اسلم کی باتیں سن کر مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ ادب و شعر ہی وہ وسیلہ ہے، جس کے ذریعے معاشرہ اپنی حقیقی روح دریافت کرتا ہے ۔ ادب زندگی کا اظہار اور معاشرے کے ظاہر و باطن کا آئینہ ہوتا ہے ۔ شعر و ادب کے ذریعے ہی آگے بڑھتی ہوئی زندگی کے معنی سمجھ آنے لگتے ہیں۔ ادب کا کام زیست کے سفر کو آگے بڑھانا ہے اور یہی ادب اور معاشرے کا گہرا بنیادی رشتہ ہے ۔ اسی تعلق سے حب الوطنی کا جذبہ جنم لیتا ہے اور قومی زندگی کا سبب بنتا ہے ادیب کی آواز ہی آخر کار معاشرے کے ضمیر کی آواز بن جاتی ہے :
خوش ہیں دیوانگی میر سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ
ادب نئے معنی حیات کی تلاش کا نام ہے ،شاید اسی لئے اہل علم و دانش ادب و شعر کو زندگی کے شعور کا نام دیتے ہیں۔ یہی شعور ہمیں تبدیل کرتا اور اسی سے ہمارے اندر قوت عمل پیدا ہوتی ہے ۔ اسی فہم اور تناظر میں رئیس الجامعہ ڈاکٹر نظام الدین کی سرپرستی اور عمران اسلم کی نگرانی میں ”حیاتین لٹریری سوسائٹی‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مجھے بھی اس کی معاونت کی ذمہ داری تفویض ہوئی ۔ شعبہ نفسیات کی شاعرہ ثنا مبین اس کی پہلی صدر، انگریزی ادب کی سنجیدہ فکر طالبہ آصفہ فرحت نائب صدر، ابلاغیات کی خوش گفتار ادیبہ ردا بٹ جنرل سیکرٹری، جبکہ بزنس مینجمنٹ کے ہونہار طالبعلم عثمان اقبال فنانس سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ پھر ادب دوستی کے علمبرداروں کی منتخب کابینہ کی حلف برداری کے لئے سندھ یونیورسٹی جامشورو کے سابق پرو وائس چانسلر سابق ڈین آف آرٹس سینئر پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بھگیو بطور مہمان خصوصی تقریب میں شریک ہوئے۔ انہوں نے وائس چانسلر ڈاکٹر نظام الدین کے ہمراہ عہدیداران سے حلف لیا اور طلباءو طالبات کے ادب کے فروغ کے لئے سعی کرنے کے عزم کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ دنیا بھر میں زبان و ادب کے فروغ میں یونیورسٹیاں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔
ہماری معاشرتی و فکری پسماندگی کی بڑی وجہ شعر و ادب سے دوری ہے ۔ ہم نے سوچنا ترک کر دیا ہے ادھار کے خیال و فکر پر ہی ہماری حیات کا انحصار ہے ۔ جب تک ہم نے خود سوچنا، اپنی زبان میں سوچنا اور اپنے ذہن سے لکھنا شروع نہیں کیا ہماری ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ اس موقع پر حیاتین لٹریری سوسائٹی جامعہ گجرات کے طالبعلموں نے فکر انگیز اور خیال افروز سوالات اٹھائے جس سے حلف برداری کی تقریب فہم و ادراک کے چراغ جلنے سے تنقیدی نشست کا روپ اختیار کر گئی ۔ میں ادب دوستوں کی گفتگو سے نہ صرف محظوظ ہوا بلکہ اپنے نوجوان طالبعلموں کی ادب دوستی سے متاثر بھی ہوا،میری مایوسی امید میں بدلنے لگی۔ اس نے مجھے تقویت دی اور میں سوچنے لگا کہ واقعتا ادب کا کام زندگی میں معنی تلاش کرنا اور ان کا رشتہ ماضی سے قائم کر کے مستقبل سے جوڑ دینا ہے ۔ ادب دوست طالب علموں کی باتوں سے مترشع تھا کہ ادب انسانی تجربے کے مکمل علم اور آگاہی کا نام ہے ۔ یہ تنقیدِ حیات اور زندگی کے گہرے پانیوں میں ڈوب کر سراغِ زندگی پاجانے کا نام ہے ۔ ادب کا کام عمل و ادراک کی غیر معمولی قوتوں کے ذریعے ہماری عام ہستی کو بیدار کر کے شعور کی ایسی سطح پر لانا ہے جو اس کے بغیر خفتہ رہتی ہے۔ ادب کے حوالے سے ہماری مایوسی ادب کی ماہیئت اور نوعیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ ایلیٹ نے کہا تھا کہ ادب کا معاملہ براہ راست زبان سے ہوتا ہے تاکہ یہ اسے محفوظ رکھے اور وسعت بھی دے ،مگر ہمارے ہاں زبانوں کا مسئلہ اتنا گھمبیر ہے کہ ان کو حل کئے بغیرعلم و ادب کے مطلع پر چھائی مایوسی کے بادل چھٹنا محال ہے ۔ ایلیٹ نے ہی کہیں لکھا ہے کہ اگر مجھے یہ بتایا جائے کہ نارویجن زبان میں شاعری کی تخلیق رک گئی ہے تو مجھے فیاضانہ ہمدردی کی بجائے یہ خطرہ محسوس ہو گا کہ لوگوں کی قوت اظہار اور احساس رک گیا ہے ۔ جی ہاں! جب ادبی تہذیب صحت مند ہوتی ہے تو لکھنے والوں کے پاس اپنے ہم وطنوں کے لیے تعلیم و ثقافت کی ہر سطح پر کہنے اور دینے کے لیے بھی کچھ ضرور ہوتا ہے ۔ اگر ادب نہ ہوتا تو سعدی، میر ، غالب، اقبال ، حافظ، شیکسپیئر، گوئٹے، دانتے و دیگر نہ ہوتے تو انسان آج بھی معصوم بچے کی طرح ہوتا ۔ ادب کے ذریعے ہی ہم بلوغت کے دریچے تک پہنچے ہیں۔ اور ادب شناسی کی کمزور روایت کے باوجود ہماری نئی نسل بالغ نظر اور بالغ فکر ہو گئی ہے ہمیں ایسی لٹریری سوسائٹیوں کی اشد ضرورت ہے ....بنجمن فرینکلن نے کہا تھا : ....Reading makes a full man, meditation a profound man, ....discourse a clear man.