’چائے والا جی، چائے پیسٹری جی‘ (4) 

     ’چائے والا جی، چائے پیسٹری جی‘ (4) 
     ’چائے والا جی، چائے پیسٹری جی‘ (4) 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 جن دنوں کی کہانی چھیڑ رکھی ہے تب اردو اور پشتو کے پروگرام آرگنائزر ڈیوڈ پیج سمیت چالیس غیر ملکی زبانوں میں سے ہر سیکشن کا نگران کوئی نہ کوئی انگریز ہی تھا۔ آئندہ برسوں میں رجحان تبدیل ہوا۔ پھر بھی بی بی سی لندن سے وابستگی کے آغاز پر سمندر پار سروسز کے ساتھیوں میں سے صرف نامور ہندی براڈ کاسٹر کیلاش بدھوار، فارسی کے باقر معین اور تامل سیکشن میں شنکر کرشنا مورتی اِس امتیازی سلوک سے مستثنی دکھائی دیے۔ نجی طور پر شمالی ہند کے کٹر مخالف شنکر کرشنا مورتی وہ اسکالر ہیں جنہوں نے ولیم شیکسپئیر کے ڈرامے ’ہیملٹ‘ کا ترجمہ تامل زبان میں کیا۔ خود ڈیوڈ کی اردو بول چال واجبی سی تھی لیکن ڈاکٹریٹ سے پہلے ایڈورڈز کالج پشاور میں تدریس کی بدولت دوسروں کی گفتگو ایک حد تک سمجھ جاتے۔ اِس لیے لسانی تفاوت کبھی مسئلہ نہ بنا۔

 شخصی ہم آہنگی کا اندازہ یوں لگائیے کہ ’سیربین‘ سے فارغ ہو کر جب کبھی لوئر گراؤنڈ فلور پر واقع بی بی سی کلب کا رُخ کیا تو بلا لحاظِ رنگ و مذہب و ملت اکثر ہمکار ایک ہی میز کے گرد پائے گئے۔ بلا ناغہ مِلنے والوں میں ہندی کے شوتو پاوا سرِ فہرست ہیں جو ’ناقابلِ فراموش‘ کے مصنف دیوان سنگھ مفتون کے دوست ڈاکٹر متھرا داس کے صاحبزادے تھے۔ پاوا صاحب نے اگست  1947ء میں بیرسٹری کر کے وطن تک بحری سفر میں پورٹ سعید ہی سے برطانیہ واپسی کا ٹکٹ کٹا لیا تھا، یہ سوچ کر کہ اب اگر لاہور میں رہ نہیں سکتے تو دہلی کی جگہ آئندہ زندگی لندن میں بہتر رہے گی۔ پاوا صاحب نے، جنہیں مَیں ہیومن فروٹ کیک کہتا، بی بی سی ہندی کا سربراہ بننے سے بھی اِس بنا پر انکار کیا کہ میرے تو سبھی دوست ہیں، افسر بن گیا تو کیا پتا دوستی رہے یا نہ رہے۔ 

 اِس کے برعکس چوتھائی صدی سے اردو کے واحد سینئر پروڈیوسر سید اطہر علی نے بعدازاں بتایا تھا کہ انہوں نے اردو کی سربراہی کے لیے چوبیس مرتبہ درخواست دی جو بالآخر ریٹائرمنٹ سے دو سال پہلے منظور ہوئی۔ اِس لحاظ سے میرے ابتدائی ایام میں ڈیوڈ پیج کو اردو سیکشن میں قائدِ ایوانِ اور اطہر علی صاحب کو اپوزیشن لیڈر ہونا چاہیے تھا۔ پر مجال ہے کہ دفتری کام یا میل جول میں یہ دونوں یا کوئی اور کارکن ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہو۔ میری کلب میں دوسری، تیسری شام ہوگی کہ دیکھا کہ ڈیوڈ اور اطہر علی ساتھ ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ دونوں کی مسکراہٹ خیرمقدمی تھی۔ مَیں ہلکی پھلکی گفتگو میں شریک ہو گیا اور اپنی باری آنے پر حسبِ روایت سب کے لیے راؤنڈ خریدا۔ ڈیوڈ کی طرف سے میڈیم ڈرائی کی فرمائش پر یہ اندازہ بھی ہوا کہ پسندیدہ مشروب کا تعلق عمر اور پیشہ ورانہ حیثیت ہی سے نہیں، آپ کے سماجی اور اخلاقی پس منظر سے بھی ہوتا ہے۔ خیر، بتانا کچھ اور چاہ رہا ہوں۔ 

 پہلے یہ کہ سیکنڈ ہینڈ کار وں کے بارے میں مجھ سے یہ سُن کر کہ صبح کسی کو پچاس پاؤنڈ بیعانہ تھما آیا ہوں، ڈیوڈ نے پُرانی گاڑی خریدنے کے لیے مفید مشورہ دیا۔ ”کار برٹش میک کی ہے یا جرمن؟“ ”جاپانی۔“ ”فرش چیک کیا تھا؟“ ”نہیں۔“ ”پرانی کار کا فرش ضرور دیکھنا چاہیے، یہاں بارشوں سے زنگ لگ جاتا ہے۔“ ہم تو اپنے ملک میں انجن چلا کر دیکھتے تھے اور یہ کہ زخموں کو چھپانے کے لیے کہِیں باڈی کی کاسمیٹک سرجری تو نہیں ہوئی۔ کلب میں ڈیوڈ کا مشورہ تھا کہ پچاس پاؤنڈ جانے دو، پر ٹوٹے ہوئے فرش والی کار نہ لینا۔ اطہر صاحب بحث سے لاتعلق رہے، اِس لیے کہ انہوں نے ذاتی کار رکھنے کا جنجال پالا ہی نہ تھا۔ دن میں ٹیوب اور رات کو ٹیکسی پر سفر کرتے۔۔۔ سمجھا کریں۔ البتہ مَیں اُٹھنے لگا تو بولے ”یار، ایک ایک اَور ہو جائے۔“ ڈیوڈ نے مداخلت کی ”اطہر، یہ فیملی مین ہے، اِسے مت روکو۔“ اِس پر اطہر صاحب نے مجھے آنکھ ماری ”ٹھیک ہے، شاہ جی جائیے۔ پروفیشنلزم بہت دیر میں پیدا ہوتا ہے۔“

شخصی خاکوں کی کتاب ’یار سرائے‘ میں اپنے والد کو ناول کا یک صفتی کردار فرض کر کے مَیں نے اُن کے لیے ’صاف آدمی‘ کی اصطلاح استعمال تھی۔ ڈیوڈ پیج کو ای ایم فورسٹر کی زمرہ بندی کے تحت کسی واحد جذبے یا نظریے پر مبنی فلیٹ کیریکٹر سمجھنا قرینِ حقیقت نہیں ہوگا۔ خوشی کے وقت خو ش ہوتے، المیہ کا سُن کر غم زدہ، تشویش کا معاملہ ہوا تو پریشان۔ انسانی پہلو یہ تھا کہ روایتی منتظمین کے برعکس، یہ کیفیات ڈیوڈ کے شفاف چہرے پر باقاعدہ رنگ بدلتی نظر آتیں۔ مجھے چند ہفتے ہوئے تھے کہ پہلی بار نیلے لِٹمس کو سُرخ نہیں بلکہ سفید، پیلا اور لال ہوتے دیکھا۔ ہر نوزائیدہ کارکن کی طرح اُس دن یہ کالم نگار ’سیربین‘ میں وقار احمد کے ’چھوٹے‘ کا پارٹ کر رہا تھا۔

 وقار بھائی اپنی علمیت اور تدریسی میلان کے ہوتے ہوئے بس متن کے آدمی تھے۔ 1970 ء اور 1980ء کے عشروں میں اُنہوں نے ’سیربین‘ کے کئی معرکتہ الآرا ایڈیشن پیش کیے۔ لیکن لائیو پروگرام کے دورانیے کو سنبھالنا، یہ اور طرح کا حساب ہے جو وقار صاحب کا شعبہ تھا ہی نہیں۔ چنانچہ شاید ہی کوئی پروگرام ایسا کیا ہو جس کے دو تین آئٹم نشر ہونے سے رہ نہ گئے ہوں جبکہ اطہر علی، راشد اشرف اور رضا علی عابدی کی قیادت میں کبھی ایسا نہ ہوا۔ عابدی صاحب نے سمجھا دیا تھا کہ وقت کی اکائی کے مطابق مواد کی مقدار کا محتاط اندازہ ہونا چاہیے۔ پھر یہ کہ مسودے میں پیشگی آپشنل کٹ لگا لیے جائیں تا کہ بشرطِ ضرورت پورا آئٹم ڈراپ کرنے کی بجائے نشان زدہ پیرا گراف یا لائنیں حذف کی جا سکیں۔ 

 وقار بھائی تو ہر روز وقت کم پڑ جانے پر گلے پہ چھُری چلا کر شیشے کے پار اسٹوڈیو منیجر کو پروگرام کی اختتامی سِگنیچر ٹیون کا ٹنے کا اشارہ دے رہے ہوتے۔ پھر آدھ پون منٹ بچانے کی خاطر اپنے ’چھوٹے‘ یعنی اناؤنسر کی طرف دیکھے بغیر خود ہی اگلے پروگرام کا اعلان کر دیتے۔ دل رکھنے کے لیے البتہ یہ بھی کہتے ”میاں، تمہارا پِیس بہت اچھا تھا، ’شب نامہ‘ میں استعمال ہو جائے گا۔“ ڈیوڈ سے میری جھڑپ وقار احمد کے اِس حکم کے نتیجے میں ہوئی کہ ”شاہد، تمہاری ساڑھے تین منٹ کی ’ٹاک‘ میں انگریزی کے چار کلِپس ہیں۔ تم نے چونکہ اُن کا پورا ترجمہ بھی پڑھنا ہے، اِس لیے ہر کلِپ کی انگلش آواز پانچ چھ منٹ کی جگہ ڈھائی ڈھائی سیکنڈ پر کٹو ا کے اردو شروع کر دینا۔“ پروگرام ختم ہونے کی دیر تھی کہ ڈیوڈ نے مجھ پر دھاوہ بول دیا ”اِسے دیکھو، اِتنی محنت سے نکالے گئے میرے کلِپس کا قتلِ عام کر دیا ہے۔“ مَیں نے بھی بلند آواز میں کہا ”ڈیوڈ، مَیں نے وہی کِیا ہے جو مجھے کرنے کو کہا گیا تھا۔“ وقار بھائی چُپ تھے، چُپ ہی رہے۔

 اگلا یاد گار مکالمہ ہمیر سمتھ ہاسپٹل میں فرزندِ ارجمند کی پیدائش کے دس گھنٹے بعد کی بات ہے۔ پری مچیور ’بے بی ملک‘ کو انکیوبیٹر کے سپرد کر کے بیگم صاحبہ سے رخصت لی تو سورج نکلنے والا تھا۔ بی بی سی ڈیوٹی کے لیے کوئی مقررہ رپورٹنگ ٹائم نہ ہوتے ہوئے بھی نو بجے بُش ہاؤس پہنچا، اور ضابطے کے مطابق، آبادی میں اضافے کی اطلاع دی۔ پرسونل آفیسر این ڈینٹ نے خوشی سے ہاتھ مِلایا ”ولادت کے لیے اِس سے بہتر تاریخ کیا ہوگی؟ میری اپنی پیدائش 4 جولائی کی ہے۔“    اب جو سیکشن کا رُخ کیا تو ڈیوڈ ٹکر گئے”مبارک ہو، مگر آفس کی جگہ تمہیں بیوی کے پاس اسپتال ہونا چاہیے۔“ ”آج ریکارڈنگ ہے۔“ ”پروگرام اتوار کے لیے ہے، پرسوں ریکارڈ کر لینا۔ اب جاؤ“ پھر بولے ”سنا ہے بچہ پری مچیور ہے اور انکیوبیٹر میں ہے۔“ ”ہاں ڈیوڈ، کہتے ہیں مَیں بھی وقت سے پہلے پیدا ہو ا تھا۔“ ”کِتنے ہفتے پہلے؟“ ”سو سال“۔ ڈیوڈ کے چہرے پر حیرت کی سفیدی پھیلی، پھر مسکراہٹ کی سُرخی ”سمجھ گیا ہوں“۔ مَیں دو طرفہ قہقہوں کی گونج میں رخصت ہوا۔

 (جاری ہے)   

مزید :

رائے -کالم -