عام شہری کو بھی معلومات تک رسائی کا حق مل گیا

معلومات تک رسائی کے قانون کی کافی عرصہ سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ بل کے تین حصے ہیں جن میں عوامی مفاد کا تحفظ کیا گیا ہے۔
10 دن میں معلومات دینا ہوں گی۔ معلومات روکنے کی صورت میں دو سال سزا اور جرمانہ ہے۔ متعلقہ حکام کو معلومات فراہم نہ کرنے کی وجوہات تین دن کے اندردینی ہوں گی۔ معلومات روکنے کی صورت میں 2 سال سزا اور جرمانہ ہو گا۔ معلومات کی فراہمی کے حوالے سے درجہ بندی بھی کی گئی ہے۔ جن معلومات کا اجرا قومی مفاد میں نہیں ان کو ایسی کیٹگری میں رکھا گیا ہے، جس تک رسائی ممکن نہیں ہو گی۔ اس قانون سے قبل ادارے ایسی معلومات کی فراہمی سے بھی گریز کرتے تھے جن کا تعلق قومی سلامتی اور سیکیورٹی سے دور دور تک بھی نہیں ہوتا تھا۔ اہلکار اپنی صوابدید پر فیصلہ کرتے اور اپنے تعلقات ہی کو معلومات کی فراہمی کا قانون سمجھتے تھے۔ بینکوں، کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے ایسے اکاؤنٹس ضرور اخفا میں رکھے جائیں گے جن کے افشا ہونے سے اداروں کی سیکیورٹی متاثر ہو سکتی ہے۔ بعض این جی اوز اور میڈیا کے اداروں کو اپنی رپورٹوں کی تیاری کے لئے بینک اکاؤنٹس کی معلومات ضروری ہوتی ہیں۔
ان کو اکاؤنٹ ہولڈرز نے بھی کانفیڈنشل نہیں رکھا ہوتا۔ ایسی معلومات پر یکسر پابندی بھی مناسب نہیں۔
ہر ایک پبلک باڈی 30 دنوں کے اندر ایک افسر کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرے گی جو 19 گریڈ سے کم نہیں ہوگا۔ وہ افسر لوگوں کو معلومات کی فراہمی کی ذمہ داری نبھائے گا۔ بل کے تحت ہر ادارے کا سربراہ معلومات تک رسائی کا حق دینے کو یقینی بنائے گا۔ وہ اس بل کے تحت تمام تر ذمہ داریوں کی نگرانی بھی کرے گا۔ بل کے تحت اگر کوئی شہری یا درخواست گزار فراہم کردہ معلومات سے مطمئن نہیں ہوگا تو وہ 30 دنوں کے اندر معلومات بارے تشکیل شدہ کمیشن کو اپیل کرے گا۔اپیل دائر کرنے کی کوئی فیس نہیں ہوگی، کمیشن اس اپیل کو 60 دنوں کے اندر نمٹانے کا پابند ہوگا۔6 ماہ کے اندر وزیراعظم معلومات تک رسائی کے حوالے سے ’’انفارمیشن کمیشن،، تشکیل دیں گے۔ یہ کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہوگا۔ تین کمشنر بھی مقرر کئے جائیں گے جو ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت رکھتے ہوں گے۔
کمشنر وزیراعظم نامزد کریں گے جن کی عمریں 65 سال تک ہوں گی۔ بل کے تحت وزیراعظم ایک چیف انفارمیشن کمشنر بھی مقرر کریں گے جو ان تین کمشنرز میں سے ہی ہوگا۔ کمیشن کے ارکان/ کمشنرز انفارمیشن کمیشن میں تعینات ہونے کے بعد اور ذمہ داریاں نبھانے کے دوران کوئی بھی دوسرا عہدہ نہیں رکھ سکیں گے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں گے۔