اسرائیلی وزیر اعظم کا بھونڈا بیان 

اسرائیلی وزیر اعظم کا بھونڈا بیان 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نائب وزیرِاعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست بنانے کے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم کے  بیان کو اشتعال انگیز، غیر سنجیدہ اور ناقابل قبول قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور آزاد ریاست کے جائز حق کی حمایت کرتا ہے۔ نائب وزیر اعظم نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کو بے گھر کرنے کی تجویز انتہائی پریشان کن اور غیر منصفانہ  ہے،فلسطینی سر زمین فلسطینی عوام کی ہے، اقوام متحدہ ،سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل اور منصفانہ آپشن ہے، پاکستان خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھے گا، ایک ایسی فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ اْنہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے، سعودی عرب کے فلسطین سے متعلق غیر متزلزل موقف اور عزم کو غلط رنگ دینا افسوسناک ہے۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام کا 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق آزاد ریاست کا حق مسلمہ ہے، القدس الشریف فلسطین کا دارالحکومت ہے اور رہے گا، فلسطینیوں کی بے دخلی کی کوئی بھی تجویز عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، فلسطین سے متعلق اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ناقابل قبول ہے۔ دوسری جانب ترجمان وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا،  عالمی برادری اسرائیل کو اَمن عمل کو نقصان پہنچانے کی مسلسل کوششوں پر جوابدہ ٹھہرائے۔ ترجمان وزارت خارجہ کے مطابق وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا مصر،ترکیہ اور ایران کے ہم منصبوں کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا جس میں غزہ کی صورتحال اور انسانی بحران پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان فلسطین کے عوام کے حق میں اور مصرکے ساتھ نہ صرف مکمل یکجہتی کا اظہارکرتا ہے بلکہ پاکستان اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ کونسل کے غیرمعمولی اجلاس کے انعقاد کی بھی حمایت کرتا ہے۔ مصری اور ترک وزرائے خارجہ نے اسحاق ڈار نے اتفاق کیا کہ آنے والے دنوں میں اِس مسئلے پر ہونے والی کسی بھی قسم کی پیش رفت پر قریبی رابطہ برقرار رکھا جائے گا۔ 

واضح رہے گزشتہ روز اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، سعودی عرب فلسطینی ریاست اپنے ملک میں بناسکتے ہیں، سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے اس بیان پر مسلم ممالک کی طرف سے شدید رد عمل دیکھنے میں آیا،سعودی عرب نے اِس بیان کو سختی سے مسترد کر دیا۔ مصر نے اِسے سعودی عرب کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ سعودی عرب کی سلامتی مصر کی ریڈ لائن ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کو اشتعال انگیز قرار دیا۔ اماراتی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ نیتن یاہو کے بیان کو مسترد کرتے ہیں، یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، علاقائی استحکام صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اِسی تناظر میں غزہ کی صورتحال پر مصر کی میزبانی میں 27 فروری کو ہنگامی عرب سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اِس اجلاس کا فیصلہ عرب ممالک بشمول فلسطین سے اعلی سطح پر ہونے والی مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔

 دوسری طرف اسرائیل فوج کے ترجمان نے مغربی کنارے میں فوجی کارروائی میں توسیع کا اعلان کر دیا، اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے علاقے میں فوجی آپریشن کو نور شمس تک پھیلا دیا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق فوج، پولیس اور انٹیلی جنس سروسز نے جنین میں انسدادِ دہشت گردی آپریشن شروع کیا جسے حکام نے وسیع پیمانے پر اور اہم فوجی کارروائی قرار دیا۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اِس کارروائی میں 12 فلسطینیوں کو شہید جبکہ متعدد کو حراست میں لے لیا گیا۔ شام کی سرحد سے متصل مشرقی لبنان کے پہاڑی سلسلے کے مضافات میں بھی اسرائیل نے حملہ کیا جس میں چھ افراد جاں بحق اور دو زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی حملوں پر ردِ عمل دیتے ہوئے حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی کی عدم تعمیل نے اِسے تباہ ہونے کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ پہلے مرحلے پر اسرائیل کی طرف سے عمل درآمد میں تاخیر اور عزم کی کمی یقینی طور پر معاہدے کو خطرے میں ڈال رہی ہے، یہ رْک یا ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ اْنہوں نے زور دیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ دوبارہ جنگ نہیں چاہتی،وہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں شرکت کے لیے اب بھی تیار ہے لیکن اسرائیل اِن مذاکرات کو شروع کرنے میں تاخیر کر رہا ہے۔

ایک طرف اسرائیلی وزیر اعظم یہ بیان دے رہے ہیں اور دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برملا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ  غزہ کو خریدنے اور اِس کی ملکیت کے بیان پر قائم ہیں، وہ فلسطینیوں کا خیال رکھیں گے، اْن کا زندگیاں بچائیں گے،اِس کے ساتھ ساتھ وہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کو بھی وہاں زمین کے کچھ حصے دینے پر غور کر سکتے ہیں تاکہ وہاں دوبارہ تعمیر کے عمل میں مدد لی جاسکے۔ اْن کا یہ دعویٰ ہے کہ جب وہ بات کریں گے تو مشرق وسطیٰ کے ممالک فلسطینیوں کو اپنے ہاں بسانے پر تیار ہوجائیں گے، وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور مصر کے صدر سیسی سے بات چیت کریں گے، وہ غزہ کو مستقبل کی ترقی کے لیے ایک اچھا مقام بنائیں گے۔ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ غزہ سے متعلق امریکی صدر کے دعوے اپنی جگہ لیکن امریکیوں کی اکثریت اِس سے متفق نہیں ہے۔ امریکی میڈیا کے ایک سروے کے مطابق امریکیوں کی اکثریت کے نزدیک  ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کا منصوبہ خاصا برا ہے، 47 فیصد امریکیوں نے اِس کے خلاف جبکہ صرف 13 فیصد نے اِس کے حق میں ووٹ دیا۔ ایسی ہی صورتحال تب بھی تھی جب اسرائیلی جارحیت کے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک میں ملین مارچ ہو رہے تھے، امریکی یونیوسٹیوں میں طلباء  سراپا احتجاج تھے لیکن بائیڈن انتظامیہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔صدر ٹرمپ نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے طلباکو امریکہ سے بے دخل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کا ساتھ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادیں ویٹو کیں، اسرائیل کو اربوں ڈالر کی امداد اور اسلحہ فراہم کیا۔ اور اب صدر جو بائیڈن کی جماعت کو ہرا کر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ تو دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں، وہ صرف اسرائیل کے حمایتی ہی نہیں بلکہ  غزہ کی ملکیت کے دعویدار بھی بن گئے ہیں۔ امریکی صدر نے فلسطین سے ملحقہ ممالک میں فلسطینیوں کو بسانے کی بات کی تو اسرائیلی وزیراعظم کو شہہ مل گئی، اْنہوں نے تو سعودی عرب کو ہی للکار دیا کہ وہ اس کے پاس بہت جگہ ہے، وہ وہاں فلسطین بنا لے۔اسرائیلی وزیر اعظم کا بیان اور صدرٹرمپ کا منصوبہ دونوں ہی سمجھ سے بالاتر ہیں، یہ دونوں رہنما اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں، اِن کے نزدیک وہ جب چاہے جو چاہے کر سکتے ہیں، عجیب و غریب خواہشات پالتے ہیں اور زور و شور سے اِس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔اسرائیل ایک طرف دعویٰ کرتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ اس کے تعلقات جلد استوار ہو جائیں گے اور پھر اس کو یہ بھونڈا پیغام بھی دے رہا ہے۔سعودی عرب تو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو مسئلہ فلسطین کے  حل کے ساتھ مشروط کر چکا ہے۔اسرائیل کو چاہئے ہوش کے ناخن لے، مزید آگ بھڑکانے کی کوشش نہ کرے، ایسے بے تکے بیانات سے گریز کرے۔فلسطینی اپنے فیصلے خود لے سکتے ہیں، اُن سے یہ حق چھیننے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -