تھوڑی کو زیادہ جانیئے

   تھوڑی کو زیادہ جانیئے
   تھوڑی کو زیادہ جانیئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 بیمار ہونا کوئی عیب نہیں۔ اس سے گناہ جھڑجاتے ہیں، توبہ جلد قبول ہو جاتی ہے۔ جن سے لڑائی ہو ان سے صلح ہوجاتی ہے۔ بیمار کو دیکھ کر بعض اوقات تو دشمن کا دل ایسا پسیجتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کر گذرتا ہے، جس کے لئے ساری زندگی پچھتاتا ہے۔ یعنی معاف کردیتا ہے۔ پچھتانے کی وجہ بیمار کا مرنے کی بجائے صحت مند ہونا اور اپنی طرف سے دی جانے والی معافی ہے۔ جسے سوچ سوچ کے معاف کرنے والا بعد میں خود بیمار ہوجاتا ہے۔ 

یوں تو بیمار کئی طرح کے ہوتے ہیں لیکن مجھے دل کے بیمار زیادہ اچھے لگتے ہیں، وہ دل لگی کی عادت کو عارضہ قلب بتائیں یا عارضہ قلب کو دل لگی کی وجہ۔ دونوں صورتوں میں بعض اوقات وجہ محبوب بنتا ہے۔ محبوب ہی ہے جو دل میں سماتا ہے، کہ گردوں اور پھیپڑوں میں سمانے سے تو رہا، محبوب چونکہ دل میں رہتا ہے اور بندے کا دل اور نیت خراب ہونے میں بھی زیادہ تر اسی کا عمل دخل ہوتا ہے، سو دل کی بیماری سر آنکھوں پر، یہ نیت کی خرابی پر پردہ ڈال کر بات کرنے والو، خراب ہونے پہ ڈال دیتی ہے۔  

عموماً ہمارے ہاں لوگوں کو ایک دو بیماریوں سے تسلی نہیں ہوتی۔ سچ پوچھیئے تو ایک بیماری والے کوکوئی بیمار مانتا بھی نہیں، ذیابیطس ہی کو لے لیجیے یہ اتنی عام ہے کہ اس کو سیریئس لیا ہی نہیں جاتا، خود بیمار بھی سیریئس نہیں لیتا۔ کوئی بتائے ذیابیطس ہے تو دوسرا ضرور پوچھتا بی پی کا مسئلہ بھی ہے؟ بیماروں کو سیریئس نہ لینے کی روائیت سرکاری ڈاکٹروں سے شروع ہوتی ہے، جو او پی ڈی میں آنے والے بیماروں پر بالکل توجہ نہیں دیتے، اس لئے اکثر بیماری ثابت کرنے کے کے لئے مریض کو جان دینی پڑتی ہے۔ ورنہ ڈاکٹری اور عوامی اصول کے مطابق اسے بیمار تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جب تک مریض زندہ ہو عموماً تب تک ڈاکٹروں کو سمجھ نہیں آتی کہ اسے بیماری کیا ہے۔ ایک بی بی گذشتہ دس سال سے ہسپتال کے چکر کاٹ رہی تھیں، ڈاکٹروں کو ان کی بیماری کی سمجھ ہی نہیں آتی تھی، یہاں تک کہ ڈاکٹر انھیں کہتے بی بی تمھیں بیمار ہونے کا وہم ہے۔ وہ تڑپ اٹھیں، ڈاکٹر صاحب کیا پاگل ہوں جو روز ہسپتالوں میں خوار ہوتی ہوں، اس پر ڈاکٹر نے تاریخی جواب دیا۔ بی بی اگر تمھیں کوئی ایسی ویسی بیماری ہوتی تو تم اب تک فوت ہو چکی ہوتی۔ پچھلے دس سالوں سے تم ادھر آرہی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ تم ٹھیک ہو. آخر اس بی بی کو ڈاکٹر کا کہا غلط ثابت کرنے کے لئے بیماری سے مرنا پڑا۔ 

ویسے تو بذریعہ علاج زندگی دی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں علاج کے ذریعہ کئی دفعہ موت بھی بانٹی جاتی ہے اگر موت نہ بھی آئے توکئی ڈاکٹروں کی جانب سے اس کے واقع ہونے کی پوری کوشش کی جاتی ہے، ایسے ہی ایک صاحب جنھیں ٹی بی کا مرض تھا، دوران علاج وہ پہلے سے زیادہ کمزور ہوتے گئے، اور منہ سے خون تھوکنے لگے۔ قریب المرگ تھے کہ ایک نیم سیانے ڈاکٹر کو وجہ سمجھ آگئی۔ فرمانے لگے ٹی بی کی دوائی زیادہ کھانے سے انھیں کینسر ہو گیا ہے، آپ چند دنوں تک انتظار کریں، گھر والوں نے پوچھا کیا چند دنوں تک یہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے نہائیت اطمینان سے جواب دیا، جی نہیں یہ فوت ہو جائیں گے۔ اکثر ہمارے ہاں علاج کے لئے مرض کی تشخیص ضروری نہیں سمجھی جاتی، جن لوگوں کا تشخیص کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے وہ سیاسی لوگ ہوتے ہیں۔ سیاسی لوگوں میں اکثر اس وقت بیماری حملہ آور ہوتی ہے جب وہ گرفتار ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی وجہ شہرت بھی جرم سے زیادہ بیماری بنتی ہے۔ سیاسی قیدیوں میں ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں ایسے حملہ آور ہوتی ہیں جیسے مکھیاں آموں پر، سیاسی قیدی طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، دوران اسیری ان سے چلنا پھرنا بھی دوبھر ہوجاتا ہے اور عدالت آنے کے لئے وہیل چیئر کی ضرورت پڑجاتی ہے، سیاسی بیماروں کے معالج انھیں خاص احتیاط بتاتے ہیں کہ تھوڑی بیماری کوزیادہ جانیئے اور زیادہ کو بہت زیادہ بتائیے۔ تاکہ گرفتاری سے جلدی جان بخشی ہو سکے۔ بیماری کی طوالت مقدمہ کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے اگر مقدمات معمولی نوعیت کے ہوں تو کمر درد، ذیابیطس، بلڈ پریشر جیسے امراض میں مبتلا ہو کر ہسپتال مں بذریعہ شہد بھی علاج کروالیا جاتا ہے۔ لیکن اگر مقدمات سنگین نوعیت کے ہوں تو پھر قیدی کا علاج ملک کے کسی بھی سرکاری و غیر سرکاری ہسپتال میں ممکن نہیں ہوتا،اس کے لئے بیرون ملک علاج تجویز کیا جاتا ہے لیکن اس سارے مرحلے میں مرض کا کم اور ڈاکٹر کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، جو بیرون ملک علاج کروانے کے لئے مرض دریافت کرتا ہے۔ میرا بھی مستقبل میں بہتر علاج کے لئے سیاست میں جانے کا ارادہ ہے۔ یہاں بہتر علاج کی سہولت سیاسی قیدیوں ہی کو میسر ہوتی ہے، ورنہ عام آدمی کے لئے بہتر طبی سہولیات دیوانے کا خواب ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -