نوازشریف کی بغاوت اور جمہوریت پر منڈلاتے سائے

نوازشریف کی بغاوت اور جمہوریت پر منڈلاتے سائے
نوازشریف کی بغاوت اور جمہوریت پر منڈلاتے سائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مخدوم جاوید ہاشمی نے جب ’’ہاں مَیں باغی ہوں‘‘ لکھی تھی، یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان سے بڑا باغی کوئی نہیں۔۔۔ بغاوت کی پاداش میں انہیں جیل بھی جانا پڑا تھا اور اس قید کو وہ ہنس کھیل کر گزار گئے تھے۔

آج ان کی بغاوت کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا، کیونکہ نوازشریف نے سب سے بڑے باغی کی جگہ لے لی ہے۔ جب انہیں نااہل کیا گیا تھا، اس وقت سے بہاولپور کے جلسے تک اگر ان کا بیانیہ دیکھیں تو صاف لگتا ہے، وہ آگے بڑھتے چلے گئے ہیں۔

اب انہوں نے کھل کر بغاوت کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ستر سالہ ظلم کے خلاف اب اٹھنا ہوگا، برداشت کی حد ہو گئی ہے، مزید ظلم برداشت کرنے کی اب سکت نہیں۔

وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ان ستر برسوں میں کم از کم تیس برسوں سے ان کا سکہ بھی چل رہا ہے۔ وہ اسی نظام کے تحت حکومتیں کرتے رہے ہیں۔ ان ستر برسوں میں جنرل ضیاء الحق کے 11برس بھی شامل ہیں۔

جو نوازشریف کے روحانی رہبر رہے ہیں اور جن کی وجہ سے ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔ ضیاء الحق کے جنازے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ’’ضیاء الحق کے مشن کو آگے بڑھایا جائے گا‘‘۔۔۔اس لئے ان ستر برسوں میں ایک طویل عرصہ تو وہ خود نظام کا حصہ رہے یا اسے چلاتے اور حکمرانی کرتے رہے۔

تاریخ کے تناظر کو بھول کر نوازشریف اب اپنی جو نئی راہ نکالے ہوئے ہیں، وہ کس حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے، اس کا تو علم نہیں، البتہ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ میاں صاحب اب بھی اپنی جماعت کے ذریعے ملک پر حکمرانی کررہے ہیں، وزیراعظم ان کی چشم و ابرو کے اشارے پر چلتے ہیں، سب کچھ ان کی دسترس میں ہے، مگر پھر بھی وہ اس نظام کے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔

بغاوت کرنے کے لئے پہلی شرط تو یہی ہے کہ آپ جو ’’اسٹیٹس کو ‘‘ ہے، اسے توڑیں، اقتدار میں ہیں تو اقتدار چھوڑیں، یہ کیسی بغاوت ہے کہ آپ نظام کے گاڈ فادر بھی ہیں اور اس کے خلاف علم بغاوت بھی بلند کررہے ہیں؟


ایک عام خیال یہ ہے کہ دو اڑھائی ماہ بعد جب یہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے ختم ہو جائیں گی اور نوازشریف کے پاس حکومتی وسائل اور اختیارات نہیں ہوں گے تو ان کے لئے جلسے کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس وقت ان کی مقبولیت کا صحیح اندازہ ہوگا۔

شاید اسی لئے نوازشریف چاہتے ہیں کہ اس عرصے میں زیادہ سے زیادہ جلسے کئے جائیں اور اتنا ٹیمپو بنا دیا جائے کہ جب انتخابی مہم اپنے وسائل سے شروع کرنا پڑے تو اس میں زیادہ زور نہ لگاناپڑے۔

بادی النظر میں تو یہ ایک اچھی حکمت عملی ہے، لیکن ان جلسوں میں جس شدت کے ساتھ نوازشریف اور مریم نواز عدلیہ پر کھلی تنقید کررہے ہیں، حتیٰ کہ نااہلی کا فیصلہ کرنے والے ججوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں، وہ ایک ایسی بات ہے، جسے ملک کے سنجیدہ فکر طبقوں کی سپورٹ حاصل نہیں ہو پا رہی۔

شاید نوازشریف عدلیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں۔ وہ بات تو ستر سال کی کرتے ہیں، لیکن فوج کا نام نہیں لیتے، یوں لگتا ہے جیسے انہیں کسی نے منع کر دیا ہے کہ وہ فوج پر تنقید نہیں کریں گے اور سارے تیر عدلیہ کے خلاف چلائیں گے، حالانکہ ستر برسوں میں آمریت اور جمہوریت کے درمیان جو آنکھ مچولی کھیلی جاتی رہی ہے، وہ فوج اور سول حکمرانوں کے درمیان رہی ہے، عدلیہ نے تو درمیان میں صرف نظریہ ء ضرورت کا کندھا فراہم کیا ہے۔ حیران کن طور پر نوازشریف فوج کا نام نہیں لے رہے اور سارا غصہ عدلیہ کے ججوں پر نکال رہے ہیں۔

انہیں پی سی او جج کہہ کر تنقید کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ فوجی آمروں کی تابعداری کی اور جمہوری حکمرانوں کے خلاف فیصلے دیئے۔

کیا نوازشریف کو اس وقت اس کا علم نہیں تھا جب وہ جنرل پرویز مشرف دور میں افتخار محمد چودھری کو بحال کرانے کے لئے سڑکوں پر آئے۔ اس وقت بھی تو یہی جج تھے، اگر اس وقت پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کی خطا معاف ہو گئی تھی، تو اب اس کا ذکر کیوں کیا جا رہا ہے؟

حیرت ہے کہ جمہوریت کے تحت تین بار وزیراعظم بننے والے نوازشریف غیر آئینی طریقے سے بغاوت کے ذریعے سب کچھ بدلنا چاہتے ہیں۔

وہ اپنے ذاتی کیسوں کو بنیاد بنا کر پورے جمہوری نظام پر خطِ تنسیخ پھیر دینا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقتدار کے بغیر سیاست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، حالانکہ وہ ایک مدبر سیاستدان کے طور پر پاکستانی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہوٹر بجاتی گاڑیوں اور بڑے بڑے پروٹوکول والے قافلوں سے نکل کر اگر وہ عوامی سیاست کے حقیقی روپ کو اپنا لیں تو زیادہ احترام پائیں۔

مگر لگتا یہی ہے کہ میاں صاحب ایک اَن دیکھے خوف میں مبتلا ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ان کے خلاف جو ریفرنسز چل رہے ہیں، ان میں سزائیں سنائی جائیں گی۔ جائیدادیں ضبط ہونے کے امکانات بھی ان کی نظر میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار کہتے ہیں کہ جج ان کے خلاف بھرے پڑے ہیں۔

ان کا دل نہیں بھر رہا۔ مجھے سزا دے کر ابھی مزید فیصلے بھی میرے خلاف آئیں گے۔ اب کیا اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ آپ بغاوت کر دیں، بغاوت بھی زبانی، کوئی ایسا عملی قدم نہ اٹھائیں ،جس سے لگے کہ آپ واقعی بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔ صرف عوام کو بغاوت کی لال جھنڈی دکھا کر انہیں اپنے پیچھے لگائیں اور کہیں کہ بغاوت میں میرا ساتھ دو۔

اس بات کے پس پردہ جو خوفناک صورت حال چھپی ہے، اس کا احساس نہ کریں۔ صرف جلسوں میں بغاوت کا ماحول پیدا کرکے ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالیں۔

عوام کو کیا پتہ کہ انہوں نے بغاوت کس کے خلاف کرنی ہے؟ فی الوقت تو انہیں میاں صاحب کی باتوں سے یہی سمجھ آتی ہے کہ وہ ججوں کے خلاف انہیں اکسا رہے ہیں۔

پانچ ججوں کی بات کرکے یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہی ان کے خلاف ہیں، باقی تو پورا ملک ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ سیاسی وابستگی میں عوام اندھے ہو جاتے ہیں اور اپنے لیڈر کے اشارے پر چلتے ہیں۔

میاں صاحب اگر ان کی تربیت کرنے کی بجائے انہیں جلسوں میں اپنی بغاوت تھیوری کے لئے تیار کرتے ہیں تو یہ ملک میں ایک بڑے انتشار کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔

ابھی چند برس پہلے تک میاں صاحب کا بیانیہ یہ تھا کہ ملک میں جمہوریت چلتی رہے تو دوچار انتخابات کے بعد خودبخود سب سازشیں ختم ہو جائیں گی اور جمہوریت مستحکم ہو جائے گی۔ 2013ء کے انتخابات میں تو انہوں نے ایسی کسی بغاوت کی بات نہیں کی، حالانکہ حالات تب بھی یہی تھے۔

اس بار فرق صرف یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف بننے والے مقدمے میں اپنا دفاع نہیں کر سکے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت نے انہیں نااہل کر دیا ہے، اس پر انہیں بغاوت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پیش آ گئی، حالانکہ انہیں جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، کیونکہ یہی ان کا تھیسز ہے کہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہونی چاہیے۔ بغاوت کے ذریعے تو جمہوریت کی چولیں ہل سکتی ہیں۔ پھر کوئی طالع آزما آ سکتا ہے، اس صورت میں شاید نوازشریف اپنی باغیانہ تحریک بھی نہ چلا سکیں۔

ایک بڑے سیاسی لیڈر کے طور پر میاں نوازشریف کا بنیادی ہدف تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر قیمت پر جمہوریت کو قائم رکھنے کی جدوجہد کریں۔ دوسرا وہ آنے والے انتخابات میں اپنی پارٹی کے لئے بھرپور کامیابی کی راہ ہموار کریں، تاکہ دو تہائی اکثریت لے کر ایسے قوانین بنوا سکیں جو ملک میں جمہوریت کی مزید مضبوطی کا باعث بنیں۔

وہ اس امر کو نہ بھولیں کہ جن لوگوں کو وہ بغاوت کا درس دے رہے ہیں، ان کی سوچ انتہائی محدود ہے۔

وہ بغاوت کو بس بغاوت سمجھتے ہیں۔ وہ بغاوت کرکے اقتدار سنبھالنے والے کسی فوجی آمر کے لئے بھی اتنی ہی تالیاں بجاتے ہیں، جتنی آج ان کے جلسوں میں بجا رہے ہیں۔ مٹھائیاں بٹتے تو ہم نے بار بار دیکھا ہے۔

نوازشریف چاہتے ہیں، کچھ ایسا ہو جائے کہ انہیں فوری ریلیف مل جائے، ان کی نااہلی کا فیصلہ واپس لے لیا جائے اور آئندہ سے عدلیہ آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائے اور کسی حکمران کے خلاف کوئی کیس نہ سنے۔

وہ دن میں ایسے خواب دیکھ رہے ہیں، حالانکہ ایسے خوابوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی بغاوت سے تبدیل ہونے والا نہیں۔ نہ ہی کوئی ایسا باغی پیدا ہونے کی امید ہے جو سب کچھ تہس نہس کر سکے۔

یہ بات میاں نوازشریف کو پتہ ہے، مگر اس کے باوجود اگر وہ بغاوت کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں تو اس کا مقصد سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ صورتِ حال کو سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں، وہ اس نامعلوم بغاوت سے عوام کے دلوں میں اپنے لئے ہمدردی پیدا کرنا چاہتے ہیں، جس طرح ہر دوائی کے کچھ سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوتے ہیں، اسی طرح نوازشریف کی اس بغاوت کے بھی منفی اثرات ہماری جمہوریت کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔

عدلیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے اگر کوئی بغاوت کی جاتی ہے تو کیا اس کے بعد جمہوریت قائم رہ سکے گی؟۔۔۔ یہ بہت بنیادی سوال ہے، جس پر نوازشریف کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے، مگر شاید آج کل ان کے دل و دماغ میں آتشِ بغاوت جل رہی ہے اور وہ اس کی تپش سے شعلہء جوالا بنے ہوئے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -