ملتانی مخدوم کو واپسی مبارک

   ملتانی مخدوم کو واپسی مبارک
   ملتانی مخدوم کو واپسی مبارک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملتان مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کے حکم پر آدھا عمل ہوا تو واقفانِ حال نے اس میں سے بھی کسی حکمت عملی کی خبر ڈھونڈلی۔بعض نے کہا چیئرمین سینٹ کو منصب پر واپس آنے کا محفوظ راستہ دیا گیا ہے۔ اب سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے ایک سخت بیان داغ کر معاملے کو خاصا گرم کر دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے پروڈکشن آرڈر پر عمل نہ کرنے والے افسروں کو برطرف کیا جائے۔ پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد کرنے میں ناکامی پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ ویسے تو آج کل پارلیمنٹ کو کمزور کرنے والا جملہ بھی بہت مزا دیتا ہے۔ ایسی باتوں پر ببوبرال اور امان اللہ یاد آ جاتے ہیں۔ اُدھر تحریک انصاف کے اندر گرفتار ہونے والے سینیٹر عون عباس بپی کے بارے میں بھی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ موصوف خاصے متنازعہ ہو چکے ہیں وہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے بڑے عہدیدار ہیں، مگر ان کا کردار بقول کارکنوں کے خاصا مشکوک رہا ہے۔ وہ تحریک انصاف کی طرف سے دی گئی احتجاج کی کالوں پر صرف وڈیو بنا کر سوشل میڈیاپر ڈالتے رہے ہیں۔ 26نومبر کو اسلام آباد دھرنے کی جو کال دی گئی تھی، اس میں وہ کہیں نظر نہیں آئے تھے۔ انہوں نے دوسرے لیڈروں کی طرح فرمائشی گرفتاری دینے تک کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ کسی ویران راستے پر دوچار کارکنوں بلکہ ساتھیوں کے ہمراہ اسلام آباد جانے کا شو آف ضرور کیا تھا۔ اب ایک طرف تو ملتان میں یہ افواہیں ہیں کہ عون عباس بپی کی اچانک گرفتاری ان کی سیاسی ساکھ بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ایسی کئی اور گرفتاریاں بھی ماضی قریب میں ہو چکی ہیں اور موقع گزرنے کے بعد رہائی بھی عمل میں آ چکی ہے۔ عون عباس بپی کی گرفتاری سے ملتانی مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کو بھی اپنی قسم توڑنے کا موقع ملا ہے، جو انہوں نے سینیٹر اعجاز چودھری کو پروڈکشن آرڈر پر پیش نہ کئے  جانے کی وجہ سے سینیٹ کی صدارت نہ کرنے کے ضمن میں کھائی تھی۔ وہ ایک مرتبہ پھر اس اجلاس کے لئے اکیلے اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے تو ظاہر ہے عملدرآمد نہیں ہونا تھا۔ اس لئے عون عباس بپی کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کئے گئے اور سید یوسف رضا گیلانی بڑے فخریہ انداز میں سینٹ کے اجلاس کی صدارت کرنے پہنچ گئے۔ خبروں کے مطابق وہ عون عباس بپی کی آمد پر تو خوش ہوئے مگر انہیں اعجاز چودھری کی آمد کا مسلسل انتظار کرنا پڑا۔ اب حیرت انگیز طور پر انہوں نے اپنے رویے میں ایک لچک پیدا کی۔ انہوں نے پہلے والی غلطی نہیں دہرائی، جذباتی نہیں ہوئے، کسی جلال یا خوش فہمی کا شکار ہوئے بغیر انہوں نے یہ معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے۔ اب رضا ربانی درمیان میں آ گئے ہیں کہ استحقاق کمیٹی ان افسروں کے خلاف سخت فیصلہ کرے جنہوں نے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہیں کیا۔ چلو اس سارے کھیل میں ہمارے ملتانی مخدوم تو بری الذمہ ہو گئے۔کافی دنوں سے وہ ملتان میں بیٹھ کر کبھی افطاریوں، کبھی جہازوں اور کبھی ریستورانوں کی افتتاحی تقاریب میں شامل ہو کر اپنا کڑا وقت گزار رہے تھے۔ بلا سوچے سمجھے، حالات کو پیشِ نظر رکھے بغیر ایک غلطی کر بیٹھے تھے، اس سے عون عباس بپی کو سینیٹ میں پیش کراکے نکل گئے۔

جہاں تک عون عباس بپی کا تعلق ہے گھاٹے میں وہ بھی نہیں رہے ان کے ماتھے پر بھی گرفتاری کا تحفہ سج گیا ہے ان کے پروڈکشن آرڈر پر فوری عمل بھی ہوا اور انہیں راتوں رات بہاولپور سے اسلام آباد بھی پہنچا دیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد کسی بند کمرے میں وڈیو بھی نہیں بنی، بلکہ وہ فاتحانہ انداز میں سینیٹ کے اندر آتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کی شان میں تعریفی جملے کہے انہیں جمہوریت اور پارلیمنٹ کا کسٹوڈین قرار دیا، یہ بھی کہا کہ ملتانی مخدوم سید یوسف رضا گیلانی نے جو سٹینڈ لیا ہے وہ اس سے بہت متاثر ہیں۔ پھر انہوں نے سینٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی گرفتاری کی داستان سنائی اور یہ بھی کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ تھے، ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے۔ اپنا سکرپٹ مکمل کرکے جو وہ لابی میں آئے تو اخبار نویسوں نے انہیں گھیر لیا۔ان سے پوچھا ان کے پروڈکشن آرڈر پر کیسے عمل ہوگیا، اعجاز چودھری کے آرڈر پر تو نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا مجھے اس کا علم یہاں آکر ہوا ہے، اس لئے انہوں نے چیئرمین سینٹ سے درخواست کی ہے کہ ان کا پروڈکشن آرڈر منسوخ کیا جائے ان کا ضمیر گوارا  نہیں کرتا وہ پروڈکشن آرڈر پر پارلیمنٹ لاجز میں رہیں اور اعجاز چودھری کوٹ لکھپت میں جیل کاٹیں، لو جی اللہ اللہ خیر سلا۔ اسے کہتے ہیں باغباں بھی خوش رہے اور خوش رہے صیاد بھی۔ اب چند دنوں میں عون عباس بپی کی ضمانت ہو جائے گی کیونکہ کیس بہت معمولی ہے اس کے بعد وہ ڈھول ڈھمکے کے ساتھ باہر آئیں گے، پھر وہی جمہوریت اور عمران خان کے لئے شعلہ بیانی کریں گے اور اجازت ملی تو عمران خان سے ملنے اڈیالہ جیل بھی جائیں گے اور بتائیں گے حضور میں کتنی بڑی قربانی دے کر آیا ہوں۔ اُدھر ملتانی مخدوم سرخرو ہو کر سینٹ کی چیئرمینی کا بار دوبارہ اٹھا چکے ہیں۔ رات گئی بات گئی کے مصداق پروڈکشن آرڈر جاری کرکے جو  بَلا انہوں نے خود اپنے گلے میں ڈالی تھی۔ وہ قصہء پارینہ بن جائے گی۔

ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور فیصلے ان تقاضوں کو سامنے رکھ کر کرنے پڑتے ہیں۔ خوامخواہ ہیرو بننے کی خواہش بعض اوقات انسان کو ملتانی مخدوم جیسی صورت حال سے دوچار کر دیتی ہے۔ عرفان صدیقی سینیٹر تو ہیں لیکن سید یوسف رضا گیلانی غالباً ان سے مشورہ نہیں لیتے۔ مشورہ لیتے تو وہ انہیں سمجھاتے آبیل مجھے مار والی صورت حال سے بچیں۔مثلاً حال ہی میں ان سے پوچھا گیا کہ پرویز خٹک کابینہ میں کیسے شامل ہو گئے۔ یہی سوال رانا ثناء اللہ سے پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا انہیں ہم نے نامزد نہیں کیا، لیکن سینیٹر عرفان صدیقی نے کیا خوبصورت تاویل پیش کی کہ سیاست کچھ ایسے معاملات ہوتے ہیں، جن میں سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں جو اس رمز کوپا گیا وہ سمجھو چھا گیا، جس نے غفلت کی، من مانی سے کام لیا تو وہ اپنے فیصلے کو لے کر رسوا ہوا۔ مخدوم صاحب خود ہی سوچیں کہ انہیں ایک بے دھیانی میں کئے گئے آرڈر کا کتنا کشت بھگتنا پڑا۔ اگر ریسکیو 1122کی طرز پر ان کے لئے آپریشن نہ کیا جاتا تو انہوں نے آج بھی ملتان کے گیلانی ہاؤس میں بیٹھے کسی ایسے معجزے کا انتظار کرناتھا جو ان کے پروڈکشن آرڈر پر عمل کرا دے۔

مزید :

رائے -کالم -