صحافت کا آخری درویش
برادر محترم سلمان غنی صاحب بتا رہے تھے کہ ایک مرتبہ وہ قدرت اللہ چوہدری کے ساتھ میاں نوازشریف سے ملنے کے لئے گئے۔ میاں نواز شریف اس وقت وزیراعظم پاکستان تھے۔ تعارف ہوا تو میاں نوازشریف نے کہا ”چوہدری صاحب! آپ وہ واحد صحافی ہیں جن سے ملنے کی مجھے بے پناہ خواہش تھی۔“ قدرت اللہ چوہدری ایسے ہی تھے۔ بہت سے حکمران ان کی عزت کرتے تھے۔ محبت کرتے تھے اور ان سے ملنے کے خواہاں رہتے تھے۔ مگر چوہدری صاحب عجیب آدمی تھے۔ وہ کسی پر اپنے تعلقات کا رعب نہیں ڈالتے تھے اور تعلقات کیش کرانے کے فن سے واقف ہی نہیں تھے۔ وہ تاریخ کے اہم ترین واقعات کے گواہ تھے۔ لوگ ان پر اعتماد کرتے تھے اور وہ کسی کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتے تھے۔ وہ اتنے عظیم تھے کہ کسی کو اپنی عظمت کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے اور کسی کو اپنی عظمت سے متاثر کرنے سے تو وہ شاید باقاعدہ نفرت کرتے تھے۔ روزنامہ ”پاکستان“ میں میرا کالم برسوں سے شائع ہو رہا ہے۔ مواد کے متعلق کوئی ابہام ہوتا تو ڈسکس کرتے اور ہمیشہ ایسی تبدیلی تجویز کرتے کہ مزہ آ جاتا۔ تحریر بہتر ہو جاتی۔
چوہدری صاحب اپنی وضع کے آدمی تھے۔ زبان و بیان پر ان جیسا عبور مجھے کسی دوسرے میں نظر نہیں آیا۔ وہ غیرمعمولی ایڈیٹر تھے۔ ان سے ملاقات کم ہوتی مگر اکثر طویل ملاقات ہوتی۔ انہیں خوب علم تھا کہ صحافی دوست لوگوں کو کیسے بلیک میل کرتے ہیں۔وہ بڑے مزاحیہ انداز میں اس کا تذکرہ کرتے اور کھل کر قہقہے لگاتے۔ چوہدری قدرت اللہ میں وہ تمام خوبیاں تھیں جن پر فخر کیا جا سکتا ہے مگر ان کے راستے پر چلنا آسان نہیں ہے۔ ایک مغربی دانشور کے مطابق اگر آپ کے اردگرد نالائق لوگ ترقی کر رہے ہوں، کرپٹ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ رہے ہوں تو پھر آپ نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے پر کیسے آمادہ کر سکتے ہیں۔ قدرت اللہ چوہدری صحافت کی یونیورسٹی تھے مگر مجھے شبہ ہے کہ ان کے بیٹوں کو بھی ان سے کچھ وہی شکایت ہو گی جیسی ہمارے ایک دوست کو اپنے والد صاحب سے رہی۔ وہ اپنے والد صاحب کو زور و شور سے خود غرض قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے خیال کے مطابق ان کے والد صاحب کو اپنی آخرت کی خود غرضی کی حد تک فکر رہتی ہے۔ وہ بڑے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے مگر ہمیشہ اپنی آخرت کی فکر میں اپنے بیٹوں کی دنیا خراب کرتے رہے۔
قدرت اللہ چوہدری سے میری پہلی ملاقات 1983ء میں قومی ڈائجسٹ میں ہوئی۔ وہ میرے محترم دوست اختر کاشمیری کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ اختر کاشمیری غیرمعمولی انسان ہیں دوسروں سے متاثر ہونا نہیں بلکہ وہ دوسروں کو متاثر کرنا جانتے ہیں۔ مگر چوہدری قدرت اللہ سے وہ باقاعدہ متاثر ہونے کا اعلان کرتے تھے۔ ان کی ادارتی صلاحیتوں کی دل کھول کر تعریف کرتے تھے۔ ان کی انسان دوستی کے مداح تھے۔ چوہدری صاحب ان دنوں ایک قومی اخبار کو چھوڑ کر کارکنوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس دور میں بھی ان کے مزاج میں تلخی کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔تلخ حقیقت کو قدرے مزاحیہ انداز میں سادگی سے کہنا ان پر ختم تھا۔ ان کے حکومت کے حلقوں میں وسیع تعلقات تھے۔ ان کے پاس خبر ہوتی تھی۔
وہ تاریخی واقعات بھی بیان کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے بتایا کہ بے نظیربھٹو حکمران تھی۔ اردو اور انگریزی کے قومی اخبار میں خبر شائع ہوگئی کہ ان کی حکومت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ محترمہ بے نظیربھٹو نے صدر غلام اسحق خان سے اس خبر کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے اسے غلط قریار دیا۔ محترمہ بے نظیربھٹو نے ایوان وزیراعظم میں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں انہوں نے صحافت کی غیرذمہ داری کو موضوع بنایا۔ وہ صحافیوں کو بتا رہی تھیں کہ کس طرح ایک اخبار نے غیرذمہ داری کی انتہا کر دی ہے۔ اتنے میں ٹیلی ویژن پر خبرآئی کہ ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ بے نظیربھٹو نے خبرسنی تو صحافیوں سے کہا کہ چلو حکومت تو چلی گئی آیئے چائے پیتے ہیں۔ جب وہ صحافیوں کے ساتھ چائے پینے کے لئے ڈائننگ روم میں آئیں تو پتہ چلا کہ وزیراعظم ہاؤس کا عملہ چائے کا سامان لے کر غائب ہو چکا ہے۔ چوہدری صاحب یہ واقعہ سناتے ہوئے کہتے تھے کہ ہمارے ایوان اقتدار کے ملازم بھی روایتی وضعداری سے محروم ہو چکے ہیں۔
قدرت اللہ چوہدری غیر معمولی صلاحیتوں کے انسان تھے۔ لوگ گلہ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے وہ ترقی نہیں کی جو وہ کر سکتے تھے۔ مادی اور عملی طور پر اس سے شاید کچھ لوگ اتفاق کریں۔ مگر چوہدری صاحب سے ملنے والے لوگ جانتے ہیں کہ وہ کتنے مطمئن اور عالم آدمی تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بیٹھ کر آپ کو اطمینان ملتا ہے۔ علم ملتا ہے۔ اردو کے الفاظ سے وہ اس طرح واقف تھے جیسے یہ زندہ شخصیات ہوں۔ کوئی پنجابی لفظ اپنی تحریر میں کب اور کس بڑی شخصیت نے پہلی مرتبہ استعمال کیا ہے۔ انہیں اس کا بھی علم ہوتا تھا۔
قدرت اللہ چوہدری بڑے منفرد انسان تھے اور انہوں نے اپنی انفرادیت کو آخری وقت تک برقرار رکھا۔ ان کی وفات پر بہت سے لوگوں نے انہیں درویش صحافی قرار دیا۔ چوہدری صاحب تو تصوف اور روحانیت پر گفتگو نہیں کرتے تھے مگر ان کا ہر عمل درویشوں جیسا ہوتا تھا۔ وہ حقیقی درویش تھے اور ان کی صورت میں صحافت کا آخری درویش رخصت ہو گیا ہے۔ موت نے کتنے بڑے بڑے آسمان زمین کے حوالے کئے ہیں۔