معلمین اور ہمارا معاشرتی نظام

 معلمین اور ہمارا معاشرتی نظام
 معلمین اور ہمارا معاشرتی نظام
کیپشن: File Photo

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سکندر اعظم ایک مرتبہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہا تھا۔ راستے میں ایک بہت بڑا بر ساتی نالہ بارش کی وجہ سے طغیانی پر آیا ہوا تھا۔ استاد اور شاگرد کے درمیان اس خطر ناک نالے کو پہلے عبور کرنے کے سلسلے میں بحث ہوئی۔ سکندر نالہ پہلے عبور کرنے پر بضد تھا۔ آخر کار ارسطو نے اسکی بات مان لی ۔ پہلے سکندر نے نالہ عبور کیا پھر ارسطو نالے کے پار ہو کر اپنے شاگر د سے پوچھا کہ کیا تم نے آگے چل کر میری توہین نہیں کی ؟ سکندر نے جواب دیا نہیں استاد محترم ! میں نے اپنا فرض پورا کیا ہے۔

 ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو جائیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکے گا۔ اساتذہ کرام قوم کے رہبر ہیں۔ نئی نسل کی ذہنی آبیاری ان کا فرض ہے۔ اساتذہ ہی کسی قوم کے مستقبل کو بلندیوں تک پہنچاتے ہیں۔جتنی طاقت اساتذہ میں ہے، اتنی طاقت کسی اور شعبے میں کسی کوحاصل نہیں۔ طالبعلم اپنے معلم کی بات ایسے مانتے ہیں جیسے ان کی اپنی کسی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہو رہی ہو۔ اساتذہ کے کردار کی جھلک علاقے کے طالبعلموں میں واضح نظر آتی ہے۔ جس طرح دوست دوست کا عکس ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی علاقے کے نوجوان اپنے اساتذہ کا عکس ہوتے ہیں۔

 بلاشبہ بچوں اور نوجوانوں کی پسندیدہ شخصیات میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے شامل ہوتے ہیں لیکن ان بچوں اور نوجوانوں کے اندر جھانکنا ہو تو وہاں کے اساتذہ کرام سے ملاقات کر لیں۔ کوئی شک نہیں اساتذہ کرام معمار قوم ہوتے ہیں اور ان کا رتبہ بلند ہوتا ہے لیکن اس رتبہ کی عزت و احساس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی بھاری ہوتی ہے کہ صرف اچھے اور بے باک کردار والے ہی اس کو سنبھال پاتے ہیں۔ معیشت کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہےلیکن اس معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایسے مضبوط اعصاب و باکردار معماران قوم کی ضرورت ہے جو قابل معیشت دان پیدا کر سکیں۔

ملک کے زوال کے بڑے اسباب میں سے ایک بڑا سبب وہ لوگ ہیں جو تعلیمی شعبہ میں شامل ہو کر بھی  معلم نہیں بنتے۔  تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، اس سے قطع نظر تعلیم صحیح معنوں میں نئے اذہان تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ بچوں کو تعلیم و تربیت کے لیے وقت نہ دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔ قوم کی ترقی کے لیے طوطوں کی ضرورت نہیں بلکہ ان کی ضرورت ہے جو تخیل اور سوچ کی طاقت سے ایسے اقدامات کریں کہ نئی دنیا  تخلیق ہو سکے۔ بطلیموس استاد کی شان میں کہتا ہے کہ ”استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے بہتر ہے۔“

ہمارا ملک پاکستان تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے۔کسی میدان میں کوئی ایسا ماہر نہیں جو کچھ جدت لا سکے۔کچھ ایجاد کر سکے۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک عزیز میں قحط الرجال کی کیفیت ہے۔  ہر شخص اپنے ذاتی ،جزوقتی مفاد کے لیے ملکی اور کل وقتی مفاد کو ترک کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں ہم ایسی نسل پروان چڑھا رہے ہیں جو صراط مستقیم سے نابلد ہے۔ اگر ہم بات کریں ان ممالک کی جہاں اساتذہ کرام کی بے پناہ قدر کی جاتی ہے تو یہ بھی دیکھیں کہ وہاں اساتذہ کرام کس طرح نئی نسل کی بہترین تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں ہیں۔

اگر ہم کچھ سال پہلے کی بات کریں تو ایسے اساتذہ موجود تھے جو طالبعلموں کی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔ اور اپنے شاگردوں کو اپنے بیٹے تسلیم کرتے تھے۔ وقت ضائع کرنا تو ان کی نظر میں ایک بہت بڑا جرم تھا جس کو آج کے کچھ نام نہاد اساتذہ تازہ دم ہونے کے نام پر سود سمیت خرچ کرتے ہیں۔ یہ بات واضح کر دوں کہ  ایسے بےشمار اساتذہ  ہیں جو معاشرے کے لیے درد رکھتے ہیں، طالبعلموں کے بہترین مستقبل کے لیے جان توڑ کوشش کرتے ہیں اور اپنے معاشرے کو سیدھے رستے پر چلانے کے لیے انتھک محنت کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری سکولوں میں داخل طالبعلموں کے والدین لاپروا ثابت ہوئے ہیں۔ اور اساتذہ کے کندھوں پر مکمل ذمہ داری ڈال دی ہے۔

وہ تمام اساتذہ کرام قابل رشک ہیں جو اکیلے اس ذمہ داری کو بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہےکہ معلمین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے ۔ حکومت وقت  ان کی معاشی ضروریات کا خیال رکھے تاکہ وہ اپنی کارکردگی میں مزید رنگ بھر سکیں۔ معلمین قابل صد احترام ہیں لیکن وہ چند لوگ جو معلمین کا نام استعمال کر کے ،علمی شعبہ کی ساکھ کو سبوتاژ کرنےکی کوشش کر رہے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ کیونکہ معلمین کا شعبہ پیغمبرانہ شعبہ ہے۔ معلمین ہر معاشرے میں وہ لوگ ہیں جو عوام کی رہنمائی بہترین انداز میں کر سکتے ہیں۔

اساتذہ کرام کا کام صرف سکولوں اور مدارس میں پڑھائی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ سماجی شعبوں میں بھی قابل قدر خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ روزمرہ کے مسائل میں درست اور غلط میں فرق کو واضح کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان اساتذہ کرام  سے عوامی اداروں میں احسن انداز سے سلوک نہیں کیا جاتا۔ معلم کے رتبے سے انکار کسی کو نہیں لیکن عملی میدان میں اقرار بھی نظر نہیں آتا۔ معلمین کے معاشی مسائل کے پیش نظر جو حکومتیں مثبت اقدامات کرتی ہیں وہ اپنے بلند معیار کو پہنچتی ہیں۔ دنیا کے ممالک پر نظر ڈال کر دیکھ لیں۔

تمام ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کی بے انتہا قدر کی جاتی ہے اور  درست اقدامات لیے جاتے ہیں۔ بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ واضح ہے کہ معلمین معاشی و معاشرتی مسائل سے دوچار ہونے کے باوجود تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ان تمام معلمین کو سلام جو مشکل وقت میں بھی طالبعلموں کی بہترین رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے کر اپنے حصہ کی شمع جلاتے ہیں۔آج بھی اگر روش کو بدلا جائے اور معلمین کی عزت کی جائے جس کے وہ حقدار ہیں تو یقینا" طالبعلم جابر بن حیان بھی بنیں گے اور بو علی سینا بھی۔ اور ایسی قوم تیار ہوگی جہاں نہ انصاف پامال ہو گا اور نہ ادارے مفلوج ہوں گے۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔
 

مزید :

بلاگ -