مالی و خوراک امداد، ٹائیگر فورس اور مستحق افراد
کرونا وائرس کی وبا تقریباً دو ماہ سے پاکستان کے کئی علاقوں میں پھیلنے سے لوگوں کے لئے جسمانی صحت کی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ اس بیماری کا تاحال، کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہوا، اس لئے ڈاکٹر صاحبان متعلقہ مریضوں کو مہلک اثرات سے محفوظ رہنے کی خاطر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے مشورے اور تاکید کر رہے ہیں، تاکہ یہ ایک مریض سے دیگر افراد کو چھونے یا پھیلنے سے اپنی لپیٹ میں لے کر بیمار نہ کر سکے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ گزشتہ دو سے تین ماہ کے دوران، وبامذکور دنیا بھر کے 200سے زائد ممالک میں سرعت سے پھیل کر وہاں لاکھوں لوگوں کو اپنی گرفت میں لے کر خوفزدہ اور تکلیف دہ کیفیت سے دوچار کر رہی ہے۔ حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک امریکہ، برطانیہ، فرانس، سویڈن، ناروے، ڈنمارک، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ،سنگاپور، ملائیشیا اور کئی بیشتر ممالک کی حکومتیں اور لوگ بھی، لاکھوں کی تعداد میں، اس آفت میں مبتلا ہو گئے۔ اب تک ان ممالک میں ہزاروں افراد، شہید یا جاں بحق ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی بہترین کاوشوں کے مطابق لوگوں کو اس وبا کے مہلک اثرات سے بچانے کے ممکنہ اقدامات اختیار کر رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور صوبائی وزرائے اعلیٰ، مختلف مواقع اور اوقات پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کے اندر رہیں، اپنے ہاتھوں کو صابن سے کم از کم 20سیکنڈ کے لئے کچھ وقفوں سے دھوتے رہیں۔ باہر سڑکوں، بازاروں اور گلیوں میں نہ نکلیں۔ کھانسی، نزلہ، زکام سے محفوظ رہنے کی احتیاطی تدابیر خصوصی توجہ سے اپنانے میں کوئی کوتاہی اور تساہل نہ کیا جائے۔ وطن عزیز میں بھی آج تک ہزاروں افراد اس وبا سے متاثر ہونے کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں، جس پر یہاں کے ہسپتالوں میں ڈاکٹر صاحبان، پیرا میڈیکل سٹاف اور نرسز اپنی دیگر مصروفیات کو ملتوی کرکے کرونا مریضوں کی دیکھ بھال اور صحت یابی پر اپنی بھرپور قابل تحسین ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کے مالی وسائل اور مخیر حضرات کی فراخدلانہ امداد سے اب تک ضروری ساز و سامان اور طبی آلات کی فراہمی کی قابل ذکر تعداد دستیاب ہونے سے عوام کو قدرے آسانی محسوس ہونے لگی ہے۔ اس ضمن میں دوست ممالک کی مالی اور طبی امداد بھی خاصی سودمند ہوگی، جس سے مرض پر قابو پانے میں خاطر خواہ حد تک مددملے گی۔نیز بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں کی بروقت مالی امداد سے بھی یہاں کے محدود وسائل کے ہسپتالوں میں طبی سامان کی سہولتوں کی فراہمی میں کچھ اضافہ ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے چند روز قبل یہاں غریب افراد اور روزانہ مزدوری کرنے والے لوگوں کے گھروں میں رہنے سے فاقہ کشی والوں کی مالی امداد اور خوراک کی ضروریات گھر پر فراہم کرنے کے لئے نئی تشکیل کردہ ٹائیگر فورس کواستعمال کرنے کا اعلان کیا ہے،جس کی تعداد ان کے تازہ بیان کے مطابق چھ لاکھ ہو گئی ہے۔ یہ تنظیم، تحریک انصاف کے زیادہ تر حامی کارکنوں اور بعض دیگر لوگوں پر مشتمل ہوگی۔ لیکن اس ٹائیگر فورس کے ارکان کو عام غریب افراد اور دیہاڑی دار مزدوروں کو مالی امداد اور خوراک کی اشیاء فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپنا، کوئی معقول اور منصفانہ فیصلہ معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ اس سے اس امر کے قومی خدشات اور امکان ہیں کہ سرکاری رقوم اور خوراک کے تھیلوں کی تقسیم کی یہ ذمہ داری درست انداز اور دیانتداری سے انجام دینے میں ضروری احتیاط، توجہ اور محنت بروئے کار لانے میں سیاسی مخالفت ذاتی عداوت، رنجش اور اقرباپروری، کافی حد تک حائل ہو کر فراہمی امداد کے بنیادی مقصد کی نفی کر سکتی ہیں۔ انسان چونکہ حرص و ہوس،لالچ اور خود غرضی کے مفادات کا اکثر اوقات شکار ہو جاتا ہے۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ کئی علاقوں، محلوں، گلیوں اور مقامات پر مذکورہ بالا انسانی کمزوریوں، ترجیحات اور ذاتی مفادات کی بناء پرمتعدد مستحق افراد، مالی امداد اور خوراک کے تھیلے حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں۔ وفاقی حکومت کا محکمہ این ڈی ایم اے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر دیگر متعلقہ محکموں کی معاونت اور شراکت سے مذکورہ بالا ذمہ داری ادا کرنے پر متعین کیوں نہیں کیا جاتا؟ آج مورخہ 5اپریل 2020ء پی ڈی ایم اے حکومت پنجاب کی جانب سے ایک قومی اخبار میں اسی کارخیر کے لئے ایک چوتھائی صفحہ کے سائز کا بڑا اشتہار شائع ہوا ہے، جس میں مخیر اور صاحبِ ثروت حضرات سے مستحق افراد میں امداد تقسیم کرنے کے لئے ادارہ بالا کی خدمات، بلاکسی معاوضہ پیش کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں باہمی شدید معاشی منافرت اور مخالفت بیشتر مقامات پر پائی جاتی ہے۔ اس بناء پر سیاسی رہنما اور کارکن ایک دوسرے پر طنزیہ جملے اور اشتعال انگیز تنقید کرتے رہے ہیں، لہٰذا وزیراعظم عمران خان اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرکے اسے درست کریں۔