نور کا شہر
ڈاکٹر اشفاق حسین قریشی بتایا کرتے تھے کہ سوویت یونین سے ایک صاحب پاکستان کے نظام کی سٹڈی کرنے کے لئے آئے۔وہ کمیونسٹ تھے اور دہریہ بھی۔ اللہ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔مگر پاکستان میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وہ اللہ پر ایمان لے آئے کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ عقلی اعتبار سے کوئی نظام ٹھیک نہیں تھا مگر ملک پھر بھی چل رہا تھا۔
بحرانوں اور سازشوں کو دیکھ کر لارنس زائرنگ اور سٹیفن کوہن جیسے بے شمار امریکی دانشور پاکستان کی تباہی کی خبریں دیتے رہے ہیں۔ مگر جب ان خیال آرائیوں نے پورا ہونے سے انکار کر دیاتو بتایا گیا کہ پاکستان کے عوام میں قوت مزاحمت ہے اور اس کے چھوٹے قصبو ں اور دیہات میں رہنے والے زندہ رہنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں، اس لئے پاکستان تباہی سے بچ جاتا ہے، ایک کمیونسٹ دانشور جو پاکستان میں کمیونسٹ انقلاب کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے تھے، وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستان میں کوئی بھوکا نہیں مرسکتاکیونکہ یہاں داتاگنج بخشؒ کا لنگر چلتا ہے۔ بلکہ پورے ملک میں صوفیاء کے ایسے بے شمار مزارات ہیں جہاں لنگر جاری رہتا ہے اور کسی غریب کے بھوک سے مرنے کے امکانات نہیں ہیں۔ اس کمیونسٹ دانشور کا خیال تھا کہ درباروں کے یہ لنگر غریبوں کے پیٹ بھر کر کمیونسٹ انقلاب کے راستے میں سب سے بڑی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل بھارتی دانشور جاوید اختر سے یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان میں 40فیصد سے زیادہ افراط زر ہو گیا ہے۔ وہاں لوگ سڑکوں پر مر رہے ہوں گے؟ اس پر جاوید اختر نے قدرے حیرانی سے بتایا کہ انہیں پاکستان کی سڑکوں پر بھوک کے مناظر دکھائی نہیں دیئے، انہوں نے رائے ظاہر کی کہ شاید پاکستان میں غریبوں کو خاص علاقوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ ”کیری آن جٹا“ سے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کرنے والے بھارتی اداکار گپی گریوال نے بھی پاکستان کے دورے کے بعد بتایا کہ وہ ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے وہ پاکستان میں نہیں بلکہ کینیڈامیں ہیں۔
یہ پاکستان کیا چیز ہے؟ اسے ڈیفالٹ کا خطرہ ہوتا ہے مگر سڑکوں پر رش کم نہیں ہوتااور اس کے ریستورانوں میں بے شمار لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔اہل لاہور 1965ء کی جنگ میں چھتوں پر کھڑے ہو کر بھارتی جہازوں کو اتنا دیکھتے تھے کہ دنیا حیران ہو جاتی تھی۔ اسی طرح سیاسی بحران، انتظامی نااہلی اور معاشی بدحالی جیسے بحرانوں کے باوجود پاکستان میں لوگ خوش ہونے سے باز نہیں آتے۔کے آر ایل میں ایک سائنسدان نے بتایاکہ پاکستان میں ہر ادارہ اچھا نہیں ہے مگر بہت سے ادارے سینٹرآف ایکسیلینس ہیں اور وہ مغربی اداروں سے کسی اعتبار سے کم نہیں ہیں،اسی طرح یہاں ایسے افراد بھی ہیں جودرد دل رکھتے ہیں اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا شوق بھی۔ ایسے ہی ایک پاکستانی امجد وٹو سے ملاقات ہوئی تو پاکستان کے روشن مستقبل کے متعلق امیدوں کے چراغ پوری طرح جگمگا اٹھے۔
نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو امجد وٹو پہلی نظر میں رومانٹک فلموں کے سٹائلش ہیرو دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی مگر پھر علم کی جستجو انہیں برطانیہ لے گئی۔ وہاں انہوں نے تعلیم ہی حاصل نہیں کی بلکہ فلاحی اداروں کو کام کرتے ہوئے دیکھا۔ ایسے اداروں کو دیکھا جو ہمہ وقت خدمت خلق کے لئے بے چین رہتے ہیں۔امجد وٹو کے خاندان نے عروج و زوال دیکھا اور اس کے نقوش ان کی شخصیت میں نظر آتے ہیں۔ جوش و جذبے کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وہ گہری سوچوں میں کھو جاتے ہیں،ان کی آنکھوں میں امید کے دیئے روشن رہتے ہیں۔
ملتان روڈپر ای ایم ای سوسائٹی امیروں کی بستی ہے،اس کے پہلو میں ایک منبع نور ہے۔ نور پراجیکٹ۔ یہ غریبوں، یتیموں اور بے سہاراافراد کے لئے نئی امیدیں لے کر آ رہا ہے۔ نور پراجیکٹ ایک حیران کن کام کر رہاہے، اس کے تحت ایک بڑا کثیرمنزلہ جدید ہسپتال زیرتعمیر ہے اس کے پہلو میں ایک جدید سکول ہے اس کی سربراہ لاہور گرائمر سکول کی پرنسپل ہیں۔ اس سکول کی عمارت انتہائی شاندار ہے۔ اس میں تمام جدید سہولتیں موجود ہیں اور تعلیم کا معیار حیران کن ہے۔ ای ایم ای سوسائٹی سے ملحق اس سکول کو ای ایم ای کے باسی رشک سے دیکھتے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ اس سکول میں اپنے بچوں کو داخل کرانا چاہتے ہیں۔بھاری فیس ادا کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ مگر ان کے لائق بچے کسی بھی میرٹ پر یہاں داخلہ نہیں لے سکتے کیونکہ یہاں داخلے کے لئے غریب،بے سہاارا، یتیم ہونا شرط ہے۔جدید سکول ان بچوں کے لئے ہے جو سرکاری سکول میں داخلے کو بھی خواب سمجھتے تھے۔ یہ سکول مکمل فری ہے۔ تعلیم، کتابیں اور کپڑے ہی نہیں کھانا بھی فری ملتا ہے۔ نور پراجیکٹ اس سکول کے بچوں کوہی فری کھانا فراہم نہیں کرتا بلکہ اس کے لنگر خانے سب کے لئے کھلے ہیں۔ صاف ستھری وردیوں میں ملبوس باورچی بڑی محنت اور صفائی سے کھانا پکاتے ہیں۔جدید ہوٹلوں کی طرح سب سروں کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں کہ بال کھانے کا حصہ نہ بن جائیں۔ یہاں بچیوں کو سلائی کڑھائی، بیوٹیشن کا کورس اور دوسرے ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں اور یہ سب TEVTA سے منظور شدہ ہیں۔ نور پراجیکٹ کی داستان حیران کن ہے۔ اس پراجیکٹ کو دیکھنے کا موقعہ ہمیں اپنے ہونہار شاگرد صابر بخاری کی وجہ سے ملا جو درددل کے جذبے سے اس پراجیکٹ کا حصہ ہیں۔ہمارے خیال کے مطابق استادبننے کا حق صرف اسے حاصل ہوتا ہے جس کے دل سے دعا نکلے کہ اس کے شاگرد اس سے آگے جائیں اور صابر بخاری کے متعلق تو ہمیں یقین ہے کہ وہ کامیابی کے آسمان کوچھونے میں ضرور کامیاب ہو گا۔
امجد وٹو بتا رہے تھے کہ وہ اس دن کو نہیں بھول سکتے جب ان کی نورپراجیکٹ کے بانی خالد شیخ سے ملاقات ہوئی۔ ان کا تعلق امریکہ سے تھا اور وہ رائے ونڈ روڈ پر ایک چھوٹا فلاحی ادارہ چلا رہے تھے۔وہ خالد شیخ صاحب کے اخلاص اور خدمت خلق کے جذبے سے کچھ ایسے متاثر ہوئے کہ وہ نورپراجیکٹ کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ دس سال تک دونوں دوست اس پراجیکٹ کو اپنے وسائل سے چلاتے رہے۔ گزشتہ چند سال سے دوسرے دوست بھی قافلے کا حصہ بنتے گئے اور یوں یہ نور پراجیکٹ اب پاکستان کی تقدیر تبدیل کرنے کے مشن پر ہے۔نورپراجیکٹ کے کارنامے الف لیلیٰ کی داستان محسوس ہوتے ہیں۔ مگر یہ سب عملی ہیں۔اگر آپ کو کبھی ملتان روڈ سے گزرنے کا موقعہ ملے تو ای ایم ای سے ملحقہ نور پراجیکٹ کو دیکھنے کے لئے کچھ وقت ضرور نکالیں۔آپ کا پاکستان کے روشن مستقبل کے متعلق یقین پختہ ہو جائے گا۔