خطرناک اسرائیلی عزائم
اسرائیل دنیا کو تیزی سے ایک خطرناک کشیدگی کی طرف لے جا رہا ہے۔ وہ ایران کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ اس پر حملہ کر دے گا۔ اپنے ان ارادوں کو خطرناک ثابت کرنے کے لئے اس نے بحیرہ روم پر ایک فوجی مشق بھی کی ہے جس میں ایف 15، ایف 16، ایف 17 فائٹر طیاروں کے علاوہ بوئنگ طیاروں نے بھی شرکت کی اور ان مشقوں کا انداز ایسا تھا جیسے یہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کی جا رہی ہیں۔ کیونکہ ان میں فضا میں طیاروں کو تیل بھرنے کی مشقیں بھی شامل ہیں۔
ان اسرائیلی مشقوں کا سب سے خطرناک پہلو یہ تھا کہ ان کو دیکھنے والوں میں ایک امریکی اعلیٰ اہلکار بھی شامل تھا۔ امریکہ ویانا میں ایران کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے جس کا مقصد کوئی ایسا معاہدہ کرنا ہے جس کے ذریعے ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکا جا سکے۔ امریکی ذرائع کے مطابق چند ماہ پہلے تک ایران60 فیصد افزودگی کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے اور اگر یہ صلاحیت 90فی صد سے زائد ہوتی ہے تو ایران کے پاس ایٹم بم ہو گا۔امریکی عہدیدار اصرار کر رہے ہیں کہ ایران چند ہفتوں میں یہ صلاحیت حاصل کر لے گااور اس کے بعد کوئی بھی معاہدہ بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ اس لئے جو کچھ بھی کرنا ہے جلد از جلد کرنا ہے۔
اسرائیلی امریکہ سے بھی زیادہ ایران کے خلاف نظر آتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ ایرانی ایٹم بم سے اس کے عوام غیرمحفوظ ہو جائیں گے۔ اس نے 1.6 بلین ڈالر ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے مختص کر رکھے ہیں۔ اس کے ذریعے وہ انٹیلی جنس آپریشن کر رہا ہے۔ تخریبی کارروائیاں کر رہا ہے اور پراپیگنڈے کے طوفان اٹھا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کھل کر کہا ہے کہ وہ ایران کے ایٹم بم کو برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ، چین اور روس کے ساتھ مسائل کا شکار ہے اور اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ دنیا کا واحد پولیس مین ہے۔ یعنی اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر کے دنیا کو اسی طرح حیران و پریشان کرنے کے لئے بے چین ہے جیسا اس نے 1981ء میں عراق کے ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر کے کیا تھا۔
1981ء میں جب عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کیا گیاتو امریکہ نے اس کی مذمت بھی کی تھی۔ مگر اب امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ جس طرح فوجی مشقوں کی خبر کو لیک کیا گیا اسے اسرائیل کے معتبر اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے شائع کیا اور پھر اس کی گونج عالمی پریس میں سنائی دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بحیرہ روم پر ہونے والی اسرائیلی مشق بڑی حد تک دھمکی ہو سکتی ہے اور اس کے ذریعے امریکہ ایران پر دباؤ ڈال کر اپنے مقصد کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔
ایران ان مشقوں کو گیدڑ بھبھکی قرار دے رہا ہے۔ جواب میں اس نے خلیج فارس پر جنگی میزائل چلا ئے ہیں اور ایک میزائل اسرائیل کے ایٹمی ری ایکٹر جیسی کسی عمارت کو تباہ کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ایران نے اسرائیل پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو حملہ آور طیارے جب اسرائیل واپس پہنچیں گے تو ہو سکتا ہے کہ اس وقت تک ایران وہ رن وے ہی اڑا چکا ہو جس سے انہوں نے پرواز کی تھی۔ یعنی ایران کے پاس اسرائیل کو نشانہ بنانے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ ایران اگر اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل کو اس کا جواب غزہ سے حماس اور لبنان سے حزب اللہ دے سکتی ہے اور اس کی اہم تنصیبات کے لئے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں امریکی تنصیبات بھی خطرے کا شکار ہو سکتی ہیں۔ یوں امید کی جا سکتی ہے اسرائیل کسی مہم جوئی سے باز رہے گا۔
بغداد کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے والے ایک اسرائیلی پائلٹ کا بھی اصرار ہے کہ اسرائیل کے پاس ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اسرائیلی طیاروں کو ایران کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کے لئے دو ہزار میل کاسفر کرنا پڑے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ یا تو ان میں فضا میں تیل بھرا جائے یا کسی دوست ملک کے ایئرپورٹ پر انہیں یہ سہولت مل سکے۔ اسرائیل کے پاس فی الحال ایسے جہاز نہیں ہیں جو فضا میں فائٹر طیاروں کو تیل فراہم کر سکیں۔ اس نے ایسے طیاروں کا آرڈر ضرور دے رکھا ہے مگر ان کی ڈیلیوری میں وقت لگے گا۔ اس کے علاوہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کسی ایک جگہ پر نہیں ہیں۔ ان میں سے اکثر زیرزمین ہیں اور انہیں تباہ کرنے کے لئے کئی دن کی بمباری کی ضرورت ہو گی۔ ایران کے خلیج کی ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں مگر کوئی ملک ایران کی دشمنی مول لے کر اسرائیلی طیاروں کو تیل کی سہولت فراہم نہیں کرے گا۔ اس لئے اسرائیلیوں کے لئے اپنے وسائل کے ذریعے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے مگر اس کے بعد امریکہ کے لئے جو خطرات پیدا ہوں گے امریکی حکام کو ان کا ادراک ہے اور وہ ایران کے خلاف کارروائی سے احترازکریں گے۔ تاہم اسرائیل اور امریکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو ہر قیمت پر روکنے بلکہ ختم کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے غالب امکان یہی ہے کہ اگر وہ فضائی حملہ نہیں بھی کر تے تو وہ ایران کے خلاف دوسری بے شمار ایسی کارروائیاں کر سکتے ہیں جس سے ایران کی ایٹمی تنصیبات کے لئے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔