ٹرمپ کی جیت کے بعد
ٹرمپ کی جیت کے بعد کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا ہونے جا رہا ہے؟اس پر مسلسل ہر جگہ رپورٹ ہو رہا ہے اور رائے زنی کی جا رہی ہے، لیکن اس میں کیا Fake ہے اور اصل میں کیا ہو گا وہ میں نے ابھی ریکارڈ پر لانا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے20جنوری کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں اپنی صدارتی نشست پر براجمان ہونے کے بعد ان کی آئندہ پالیسیوں کے بارے میں اس وقت جو قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں ان کو ایک طرف رکھ دیں۔ اصل میں جو وہ کریں گے یا جو وہ نہیں کریں گے اس کے بارے میں سب سے معتبر پکچر صرف میں آپ کو دکھا سکتا ہوں۔
میں آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ ایسا دعویٰ کرنے والا میں اکیلا نہیں۔ہر لکھنے یا بولنے والا ایسا ہی سمجھتا ہے۔ حوالے کے لئے میرے دوست نجم سیٹھی کا مقبول پروگرام ”سیٹھی سے سوال“ آپ دیکھ سکتے ہیں، جو مستقبل کے بارے میں دو جمع دو چار کر کے بتاتے ہیں کہ کیا ہو گا اور پھر ان کی ساتھی خاتون وقفے وقفے سے اس کے درست ہونے کی مثالیں پیش کرتی رہتی ہیں۔ اپنے کہے یا لکھے کی سچائی پر اعتماد ضروری ہے اور یہ اعتماد مجھ میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہے۔
اگر آپ نے روزنامہ ”پاکستان“ میں امریکی صدارتی انتخابات پر میری واشنگٹن سے خصوصی کوریج کی رپورٹیں پڑی ہوں تو آپ تصدیق کر سکتے ہیں کہ دونوں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلے کے باوجود سبھی انتخابی پنڈت اور پول کملا ہیرس کی ڈونلڈ ٹرمپ پر معمولی برتری کا اعلان کر رہے تھے۔صرف میں نے ٹرمپ کی معمولی برتری کا دعویٰ کیا۔ قبل ازیں میں ٹرمپ کو ووٹ دینے کا بھی اعلان کر چکا تھا۔یہ میریWishful Thiking تھی اور نہ کہ کوئی غائب کا علم۔میں نے صرف ایک کام کیا تھا بس تھوڑا گہرائی میں جا کر دو اور دو جمع چار کیا تھا۔
ہمیشہ کی طرح اصل مدعا بیان کرنے سے پہلے کی میری تمہید لمبی ہو گئی،لیکن اگر میں ایسا نہ کرتا تو آپ بھی ٹرمپ کی جیت کے بعد کے ہزاروں لاکھوں تبصروں میں سے ایک سمجھ کر اس تحریر کو بھی نظر انداز کر دیتے،لیکن آپ مجھ پر یقین کر لیں کہ آپ کو یہاں کچھ مختلف ملنے والا ہے۔پہلے سب سے اہم بات، منتخب صدر ٹرمپ کو دنیا بھر کے لیڈر مبارکباد کے پیغامات بھیج رہے تھے لیکن خود ان کو جن دو پیغامات کا انتظار تھا ان میں سے فی الحال ان کو روسی صدر پیوٹن کا پیغام ملا ہے۔کچھ عرصہ انتظار کے بعد کریملن نے ایک انتہائی گہری ڈپلومیسی کا مظاہرہ کر کے یہ پیغام بھیجا ہے۔میرے خیال میں عالمی منظر کو تبدیل کرنے کی طرف پیوٹن کا یہ پہلا قدم ہے اور20 جنوری کے بعد پہلی فرصت میں ڈونلڈ ٹرمپ اس حوالے سے دوسرا قدم اٹھائیں گے۔
صدر بائیڈن نے حفظ ِ ماتقدم کے طور پر یوکرین کے لئے 26 ستمبر کو دو ارب40 کروڑ کی اضافی فوجی امداد کا اعلان کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہو سکتا ہے پہلے مرحلے میں پوری امداد نہ کاٹیں لیکن وہ اس میں خاصی کمی کا اعلان ضرور کریں گے اور اس کے بعد نہ صرف روسی صدر پیوٹن کو ملاقات کی دعوت دیں گے،بلکہ اس ملاقات میں یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کی طرف ٹھوس پیش قدمی کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں اپنے پاکستانی یا مسلم حمایتیوں کی توقعات پر کتنا پورا اُتریں گے؟ یہ دیکھنے سے پہلے مختصر جائزہ لینا ہو گا امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں سمیت دیگر ممالک کے مسلمانوں کی، سوائے ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹیوں کے پکے لیڈروں اور ارکان کے پاکستانیوں اور مسلمانوں کی اکثریت نے ٹرمپ کو اس اُمید پر ووٹ دیا ہے کہ وہ ڈیمو کریٹک کملاہیرس کی نسبت مشرق وسطیٰ میں خون ریزی بند کرانے اور مسائل کا پُرامن حل تلاش کرنے میں اپنا اثر رسوخ پوری قوت سے استعمال کریں گے۔یہاں میں چند ایک مثالوں سے ان رجحانات کی وضاحت کئے دیتا ہوں۔
واشنگٹن ڈی سی کی قریبی ریاست ورجینا کے ایک معتبر بزنس مین اور کمیونٹی لیڈر میاں ظہیر جاوا نے ری پبلکن پارٹی سے زیادہ تعلق نہ ہونے کے باوجود انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بہت سرگرم کردار ادا کیا۔ان کے مطابق ٹرمپ ووٹ کے اس لئے حق دار تھے کہ ان کا اولین مقصد دنیا بھر میں جنگوں کا خاتمہ اور فوجی سازو سامان کا بجٹ عوامی فلاح پر خرچ کرنا۔وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کا ”امریکہ فرسٹ“ کا نعرہ بہت پُرکشش ہے، جس تصور کے مطابق امریکی خزانے کے ڈالروں پر امریکی عوام کا سب سے زیادہ حق ہے جو بیرونی امدادوں پر ضائع نہیں کیا جانا چاہئے۔
پارٹیوں سے وابستہ لیڈروں کی ایک بہترین مثال بالٹی مور میں رہنے والی ڈیمو کریٹک لیڈرعائشہ خان ہے جو پاکستانی کمیونٹی میں بہت مقبول ہیں۔انہوں نے پارٹی سے وابستگی کی بناء پر بہرحال کملا ہیرس کو ووٹ دینا تھا لیکن ان کی کامیابی کی صورت میں انہیں توقع تھی کہ انہوں نے ٹرمپ کی نسبت خواتین کے حقوق اور متوسط طبقے کے لئے زیادہ ٹھوس کام کرنا تھا۔
مذہبی عقائد رکھنے والے پاکستانیوں اور مسلمانوں کی خاصی تعداد اس مرتبہ تقسیم ہو گئی۔ان میں سے پارٹیوں سے وابستہ ارکان نے اپنی پارٹیوں کے اعتبار سے ٹرمپ یا ہیرس کو ووٹ دیا۔ مشرق وسطیٰ میں امن پسند پالیسی کی بناء پر ڈونلڈ ٹرمپ ان کا زیادہ فیورٹ رہا۔ انڈیا کے شہر میسور میں رہنے والے میرے ایک مسلم بزنس مین اور متعدد ہوٹلوں کے مالک نذرو بھائی کی وسیع فیملی مشی گن میں رہتی ہے،جنہوں نے مجھے وہاں کی ایک ویڈیو بھیجی جس میں مقامی مسلم لیڈروں کی دعوت پر ٹرمپ نے وہاں کا دورہ کیا، جس میں ٹرمپ نے امریکہ کے مسلمانوں سمیت مشرق وسطیٰ میں خصوصاً فلسطین کے حقوق کی حمایت کرانے کا وعدہ کیا۔نذرو بھائی کے مطابق مشی گن میں مسلمانوں کی اکثریت نے اس بناء پر ٹرمپ کا ساتھ دیا۔
میرے خیال میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ جو پہلے غیر ملکی دورے کریں گے ان میں اسرائیل اور فلسطین کے دورے شامل ہیں جہاں وہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر اپنی سابقہ کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے بریک تھرو بھی کر سکتے ہیں۔
آخری اطلاعات کے مطابق چین کی طرف سے ابھی تک مبارکباد کا پیغام نہیں آیا تھا لیکن جلد آنا چاہئے۔چین اور امریکہ سیاست اور تجارت میں ایک دوسرے کے رقیب ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہیں۔صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ کا چین سے تصادم نہیں ہو گا۔ پاکستان میں جو لوگ عمران خان کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے حوالے سے توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں انہیں مایوسی ہو گی۔وہ عمران خان سے اپنے سابق تعلق کی بناء پر پاکستان کی حکومت سے بگاڑ پیدا نہیں کریں گے۔
٭٭٭٭٭