ہیکرز اور قومی سلامتی
پاکستان کو زلزلے اور سیلاب متاثر کرتے رہے ہیں مگر آج کل سیلاب سے بھی زیادہ ہیکر متاثر کر رہے ہیں۔ جن کے بلیٹن ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا سے بھی زیادہ چٹ پٹے ہوگئے ہیں۔ جذبے اور جنگ کا درس دینے والے عالم حضرات بھی حیران ہیں کہ اب اْمت کی راہنمائی کیسے کی جائے۔ ہیکرزکے اکاؤنٹ سوشل میڈیا پر نمودار ہوتے ہیں۔ کبھی یہ عمران خان کے خلاف چونکا دینے والے انکشافات کرتے ہیں۔عمران خان کے وزراء کی آڈیولیک سیاسی منظرنامے پر بڑے سوال کھڑے کرتی ہیں۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کے پراپیگنڈا سکواڈ قوالی شروع کر دیتے ہیں۔ آڈیولیک کے حوالے سے وہ اپنی پراپیگنڈا کمپین شروع کر دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پراپیگنڈا سکواڈابھی عالم حیرت میں ہوتے ہیں کہ ہیکرکا پہلا اکاؤنٹ غائب ہوتا ہے اور ایک نیا اکاؤنٹ مسلم لیگ (ن) کی آڈیولیکس ہیک کرتا ہے۔ جس پر پی ٹی آئی کا پراپیگنڈا سکواڈ قوالی، مشاعروں اور جگتوں کا اہتمام کرتا ہے اور پاکستانی قوم حیران ہوتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور پرنٹ صحافت کا ایجنڈا ہیکرز نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی قوم نے کیا سوچنا ہے اس کا فیصلہ ہیکرز کریں گے۔ جن سیاستدانوں کی آڈیولیکس ہیک ہوتی ہیں وہ تو وضاحتیں کرتے ہیں مگر جن کی آڈیو لیکس ہیک نہیں ہوتیں، وہ زیادہ عذاب میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگلے روز ہیکر کس کے کردار کو تماشا بنائے گا؟ اس کے متعلق صرف خوفزدہ ہونے کی گنجائش ہوتی ہے۔
امریکی صدر روز ویلٹ نے کہا تھا کہ اگر جمہوریت عوامی توقعات کو پورا نہیں کرے گی تو عوام دوسرے آپشن دیکھیں گے۔ ونسٹن چرچل اپوزیشن سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ہر مرحلے پر حکومت کی مخالفت کرے گی اور اگر کبھی اسے حکومت کی حمایت کرنا پڑی تو یہ Kick کی صورت میں ہو گیKiss کی صورت میں نہیں۔ مگر پاکستان میں سیاسی جماعت کے قا ئدین دوسرے کو ملک دشمن ثابت کرنے پر کمربستہ ہیں۔ ہاکی، کرکٹ اور فٹ بال جیسے کھیل اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک اس میں قوانین و ضوابط کی پابندی نہ ہو۔ سیاست میں قوانین اور ضوابط سے زیادہ روایات کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ امریکی صدر عام طور پر اپنے پیشرو صدور کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ اس روایت سے امریکی جمہوریت کمزور نہیں مضبوط ہوتی ہے۔ صدر بش نے عراق پر حملہ اس جواز پر کیا کہ صدام حسین کے پاس بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ عراق پر قبضے کے بعد امریکیوں نے وہ ہتھیار تلاش کئے۔ مگر وہ ہتھیار نہیں ملے اور یہ ان کی نااہلی تھی کہ انہوں نے پنجاب پولیس کی مدد حاصل نہیں کی وگرنہ ہتھیار بھی مل جاتے اور اعتراف کرنے والے مجرم بھی۔ تاہم خود امریکی راہنماؤں نے اپنی اس غلطی کا اعتراف کیا۔ کولن پاول نے اسے اپنے کیریئر پر دھبہ قرار دیا۔ مگر بعد میں آنے والے امریکی صدور میں سے کسی نے صدر بش پر مقدمہ چلانے کی بات نہیں کی۔ حکومت کے عہدوں کی ایک عزت ہوتی ہے اور اگر یہ عہدے اس عزت سے محروم ہو جائیں تو پھر کسی بھی حکومت بلکہ ریاست کا چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان میں ایک بڑے سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، مگر پاکستانی میڈیا کا ایجنڈا سیلاب نہیں ہے۔ اس کا ایجنڈا ہیکرز نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور سیاستدان ایک دوسرے کے چہروں پر سیاہی مل رہے ہیں اور دو سروں کے کالے چہروں کو دیکھ کر قہقہے لگا رہے ہیں۔ پاکستان میں کسی نہ کسی حوالے سے ہر سیاستدان کا چہرہ کالا کر دیا گیا ہے یا کم از کم ان کے سیاسی مخالفین کو ان کا چہرہ کالا نظر آتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت اور سیاست کے چہرے کالے کر دیئے گئے ہیں اور اب جمہوریت کے مستقبل کا روشن چہرہ دیکھنا حسرت اور خواب نظر آ رہا ہے۔
ہیکرز نے اقتدار کے ایوانوں میں اتنی زیادہ رسائی کیسے حاصل کر لی ہے؟ اس پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں موبائل فون لے کر جانا منع ہے مگر وزراء اپنے فون اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں اور موبائل فون آڈیو ریکارڈنگ کا ایک حصہ ہو سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وزراء بھی موبائل اپنے ساتھ رکھتے تھے اور ان کی آڈیو بھی ان موبائل فونوں پر ہو سکتی ہے۔ آڈیو کیسے ریکارڈ ہوتی رہی ہیں؟ موبائل فون اس کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی آڈیولیک کو استعمال تو کرتی ہیں مگر ان کے پاس ٹیکنالوجی کے ایسے موثر نظام کی موجودگی کی کوئی خبر نہیں ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی کی ذمہ داری جس ایجنسی کے پاس ہے اس پر نااہلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ہمارے خیال کے مطابق یہ ٹیکنالوجی کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ اس سارے عمل میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے اور سائبر سکیورٹی کے بڑے چیلنج پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں نظر آ رہے ہیں۔ پاکستانی سیاستدان بظاہر اس مسئلے کو اس مریض کی طرح دیکھ رہے ہیں جس سے ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا اس نے باتھ روم استعمال کرنے کے بعد ہاتھ صابن سے دھوئے تھے؟ اس پر مریض نے کہا ہاتھ تو صابن سے نہیں دھوئے تھے مگر سات مرتبہ کلمہ پڑھ کر پھونک مار دی تھی۔ ڈاکٹر نے برجستہ کہا کہ اس سے جراثیم مسلمان تو ہو گئے ہوں گے مگر ہلاک نہیں ہوئے۔ سیاستدان بھی اس مسئلے کو مخالفین پر الزامات لگا کر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر آڈیو ریکارڈنگ کا معاملہ صرف سیاسی امور تک محدود نہیں ہے۔ ایوان اقتدار میں ریاست پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے مسائل بھی زیر بحث آتے ہوں گے اور اگر یہ ڈارک ویب تک پہنچ سکتے ہیں توپاکستان کے دشمنوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
یہ ڈارک ویب بھی دور جدید کا ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ انٹرنیٹ کا حصہ ہے جس تک رسائی کے لئے خصوصی سافٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ گوگل سرچ کے ذریعے ڈارک ویب کے مواد کو سرچ نہیں کیا جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈارک ویب میں منی لانڈرنگ، چوری شدہ معلومات، چائلڈ پورنوگرافی جیسے جرائم ہوتے ہیں۔ یہاں ایسے آلات بھی فراہم ہوتے ہیں جن کے ذریعے بنک کا ڈیٹا ہیک کیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈارک ویب کو دہشت گرد تنظیمیں بھی استعمال کرتی ہیں۔ اس کے ذریعے وہ بھرتی کرتی ہیں۔ رابطے کرتی ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے منصوبے بناتی ہیں۔ اس پس منظر میں ہیکرز اور آڈیولیکس کا معاملہ صرف سیاسی طوفان ہی نہیں اٹھا رہا ہے بلکہ اس سے دفاع اور سکیورٹی کے بڑے چیلنج بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستانی اداروں کے متعلق یہ خبریں آ رہی ہیں کہ وہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں چین کے تعاون کی بھی اطلاعات ہیں۔ ہیکرز کو سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ قومی اور دفاعی مسئلہ سمجھ کر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔