پانی اور خوراک کا تحفظ

انسانی زندگی کی بقاءاور انسانی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے پانی اور خوراک کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ ”جان ہے تو جہان ہے“.... کے مصداق اگر انسانی زندگی ہی نہ رہے اور انسانی صحت مسائل سے دوچار ہو جائے تو باقی سب باتیں غیر اہم اور فضول ہیں۔ انسان کی معاشی ترقی، معیار زندگی، تعلیم، انصاف، ایمانداری، قانون کی بالادستی، علاج معالجے ، دیگر سہولتوں اور آسائشوں کا نمبر پانی اور خوراک کے بعد آتا ہے، لیکن انسان کی بدقسمتی یا پھر مجرمانہ غفلت دیکھئے کہ عالمی سطح پر پانی اور خوراک کے تحفظ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اس مسئلے کی اہمیت سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو پانی اور خوراک کے تحفظ پر کسی حد تک توجہ دی جا رہی ہے، لیکن ترقی پذیر ممالک کو بشمول پاکستان اس مسئلے کی سنگینی کا نہ عوامی سطح پر احساس ہے اور نہ حکومتیں اس پر توجہ دیتی ہیں۔
گزشتہ دنوں سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ” پانی کے بین الاقوامی ادارے“ کے زیر اہتمام بین الاقوامی سطح پر پانی کا عالمی ہفتہ منایا گیا۔ اس سلسلے میں ایک عالمی کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں 2ہزار مندوبین نے شرکت کی۔ اس سالانہ عالمی کانفرنس میں ماہرین نے صاف پانی کی فراہمی، خوراک، ماحول، صحت اور غربت جیسے مسائل پر غور و فکر کیا اور تحقیقی مقالے پیش کئے۔ یہ کانفرنس26 تا 31 اگست جاری رہی۔ 2012ءکے لئے اس کانفرنس کا موضوع” پانی اور خوراک کا تحفظ“ تھا۔ ماہرین نے اس کانفرنس میں بتایا کہ اس وقت عالمی سطح پر 900 ملین افراد بھوک کا شکار ہیں۔ مزید 2 ارب افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور صحت عامہ کے مسائل درپیش ہیں۔ اس کانفرنس میں یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا گیا کہ دنیا میں 1.5 ارب افراد ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں اور خوراک کا ایک تہائی حصہ ضائع ہو جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بھوکے افراد کے مقابلے میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے، جو ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں۔
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ میں چالیس فیصد خوراک ویسے ہی پھینک دی جاتی ہے اوراس ضائع شدہ خوراک کی مالیت165 ملین ڈالر بنتی ہے اگر خوراک کے اس ضیاع میں 15 فیصد کمی ہو جائے تو جو خوراک میسر ہوگی، وہ 25 ملین افراد کی ضروریات کے لئے کافی ہوگی۔ یہ امریکہ کی بات ہے، دیگر ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں اگر اعداد و شمار جمع کئے جائیں تو وہ بھی ایسے ہی ہوش رُبا ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک کی بات چھوڑئیے، ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی رو¿سا حضرات اپنے گھروں یا تقریبات میں جو خوراک ضائع کرتے ہیں، اس سے بھی بہت سے افراد کا پیٹ بھر سکتا ہے اور یہ لوگ زیادہ کھانے کی وجہ سے جن بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، ان میں بھی کمی آسکتی ہے۔
ماہرین نے مزید انکشاف کیا کہ دنیا میں خوراک اور ریشہ پیدا کرنے والی فصلوں کی مانگ میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ فصلیں اُگانے کے لئے مستقبل میں پانی کی فراہمی ناکافی ہوگی، عالمی سطح پر خوراک اور پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے ماہرین نے اس مسئلے کا حل بھی بتایا ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا میں فصلوں کی آبپاشی کے لئے جو پانی استعمال ہوتا ہے، اس پانی کے ایک چوتھائی حصے سے ایک ارب ٹن ایسی خوراک پیدا کی جاتی ہے جو کسی کے استعمال میں نہیں آتی اور ضائع ہو جاتی ہے۔ خوراک کے ضیاع کو ختم کر کے نہ صرف پانی کا تحفظ ممکن ہے، بلکہ خوراک کی قلت کے مسئلے پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ ایک طرف تو فصلوں کی کاشت کے لئے پانی کی قلت ہے، دوسری طرف انسانوں کی اکثریت کو صاف پانی میسر نہیں۔ غریب افراد کے لئے صاف پانی کی فراہمی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ تین میں سے دو ایسے افراد، جو ایک ڈالر روزانہ پر گزارہ کرتے ہیں، ان کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ سٹاک ہوم (بین الاقوامی پانی کا ادارہ) میں ماہرین نے پانی اور خوراک کے تحفظ کے ضمن میں جن مسائل کی نشاندہی کی ہے، پاکستان کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ ہمارے ہاں بھی خوراک کے ضیاع کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ زرعی پیداوار کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے پھلوں اور سبزیوں کا 25 تا 35 فیصد حصہ برداشت کے وقت یا بعد از برداشت کے مراحل میں ضائع ہو جاتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ اہم فصلوں کی پیداوار کا 20 تا 25 فیصد حصہ برداشت کرتے وقت یا برداشت کے بعد سنبھالنے اور ذخیرہ کرنے کے مراحل میں ضائع ہو جاتا ہے۔ اس لئے عالمی سالانہ کانفرنس میں خوراک کے تحفظ کے بارے میں جن مسائل پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، ان کو نہ صرف عالمی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ پاکستان جیسے ممالک میں تو ان مسائل کو حل کرنا ترقی یافتہ ممالک سے بھی زیادہ اہم ہے۔
ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عوام کی اکثریت کے لئے غذائی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں فصلیں اُگانے کے لئے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ زرعی لوازمات، جن میں کھاد، بیج، کرم کش زہریں شامل ہیں، ان کی دستیابی بھی بڑا مسئلہ ہے۔ زمینی صحت کے مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ اندریں حالات خوراک کے تحفظ کے لئے اور عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے فصلوں کی برداشت اور بعد از برداشت مراحل میں جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ پانی کے تحفظ کے سلسلے میں کانفرنس کے شرکاءنے جن امر کی نشاندہی کی ہے، وہ بھی فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں زیر زمین میٹھا پانی تیزی کے ساتھ آلودہ ہو رہا ہے۔ سیوریج کے پانی، زہریلی ادویات اور کھادوں کے استعمال کے اثرات زیر زمین پانی میں شامل ہو رہے ہیں۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد میں ہونے والی تحقیق کے مطابق سیوریج کے گندے پانی کی وجہ سے زیر زمین میٹھے پانی کی کوالٹی تیزی سے خراب ہو رہی ہے اور بعض علاقوں میں زیر زمین پانی میں نائٹریٹ کھادوں کے اثرات موجود ہیں، جس سے پینے کے پانی کی کوالٹی متاثر ہوئی ہے۔ ملک بھر میں کسی منصوبہ بندی کے بغیرگندے نالوں کا جال پھیلتا جا رہا ہے، جس سے پینے کے پانی کی کوالٹی مثاتر ہوئی ہے۔ پانی اور خوراک کے تحفظ کے لئے تمام ممالک کو انفرادی کوششوں کے ساتھ ساتھ مشترکہ کوششیں بھی کرنی چاہئیں، نیز عالمی ادارہ خوراک و زراعت اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل پر توجہ دینی چاہئے۔ خوراک اور پانی کا تحفظ پوری انسانیت کا مسئلہ ہے اور اس کا حل انسانیت کی بقاءکے بے حد ضروری ہے۔ ٭