”غیر اخلاقی“ شاعری کی مقبولیت

 ”غیر اخلاقی“ شاعری کی مقبولیت
 ”غیر اخلاقی“ شاعری کی مقبولیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں آج ”غیر اخلاقی“ شاعری پر بات کرنا چاہتاہوں جو یقیناً بہت مقبول ہے۔ جب میرا ذاتی طور پر اس سے واسطہ پڑا تو اس میں پائی جانے والی ”غیر اخلاقی“ اور ڈھکی چھپی ”بدمعاشی“ پر بہت حیرانی بلکہ شرمندگی ہوتی تھی۔ مجھے پریشانی شاعری کے ”ناپسندیدہ“ عناصر پر نہیں تھی بلکہ اس بات پر تھی کہ سیدھی سادھی شریفانہ شاعری کی نسبت ایسی شاعری کیوں مقبول ہوتی ہے؟ اس کا نتیجہ جو نکلتا تھا اس سے میں خوف زدہ ہو گیا، کیا پڑھنے سننے والے حضرات فحاشی کی سرحد کو چھونے والی شاعری کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس کا جو مطلب نکلتا ہے اور میں اس کا تجزیہ کر کے لکھنے کی جرأت کر بیٹھا تو آپ کے لئے برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
آگے بڑھنے سے پہلے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں خود بھی ایک معمولی سا شاعر ہوں۔ جس شاعری کو میں غیر اخلاقی، ڈھکی چھپی بدمعاشی یا فحاشی کی سرحد کو چھونے والی قرار دے رہا ہوں اس کا میرا اپنا پیمانہ ہے اور مجھے شبہ ہے کہ یہ کم از کم ہمارے مشرقی کلچر کا پیمانہ ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ شاعروں اور نقادوں کے نزدیک یہ شاعری کا حس ہو جس کی روایت کلاسیکل دور سے چلی آ رہی ہے۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر بے راہرو انداز بیان کو اساتذہ سے قبولیت حاصل ہے اور سامعین کی اکثریت اسے مقبولیت کی سند دیتی ہے تو اس پر اعتراض فضول ہے۔ اس کے باوجود میں اپنا نقطہ نظر آپ کو سنانے سے باز نہیں آؤ گا اور تصورات اور نظریات کے اس دوغلے پن پر اپنی کنفیوژن آپ سے ضرور شیئر کروں گا۔ میری تحریر کے اختتام پر آپ جو بھی چاہے اپنی رائے قائم کریں لیکن میں جو کہہ رہا ہوں اس پر غور ضرور کریں۔ ایک گزارش ہے کہ اگر میں ایک دو مثالیں ایسی مقبول شاعری کی یہاں لکھ دوں جو میرے نزدیک ”غیر اخلاقی“ ہیں تو ان کو برداشت کر لیں جو مجھے پسند نہیں لیکن اس کے بغیر شاید آپ کو میرا نقطہ نظر صحیح طرح سے سمجھ نہ آئے۔۔
اچھے ادب میں ایک خوبصورت نژ، افسانے، ناول، ڈرامے، کالم یا کسی شگفتہ تحریر کی صورت میں تخلیق کی راہ نکالتی ہے۔ شاعری میں وہی تخلیق ایک وزن اور آہنگ میں ڈھل کر ترنم اور ردھم پیدا کر کے دل کو چھوتی ہے۔ نظم میں غیر رومانوی کے ساتھ ساتھ رومانوی داستانیں بھی بیان ہوئیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نظم زیادہ تر اخلاق کے دائرے میں ہی رہی۔ لیکن جب گیت رواج پائے اور فلمی گیت فلموں کی ضرورت بن گئے تو دھیرے دھیرے ان سے ”ادب“ خارج ہوتا گیا اور ”فحش نگاری“ داخل ہوتی گئی۔ ابھی مجھے اپنا خیال مکمل کرنا ہے۔ جگہ کی گنجائش کے مطابق ہو سکتا ہے آخر میں اس کی کچھ مثالیں دوں۔


اس کے بعد ایک بڑا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب ”غزل“ کا آغاز ہوا اور ادب کی یہ صنف دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت میں بہت آگے نکل گئی اور فارسی سے اردو میں داخل ہوئی۔ میں خود زیادہ تر غزل کہتا ہوں اگرچہ میں اس سے بخوبی واقف ہوں کہ غزل کے ذریعے ہمارے برصغیر کی اپنی مخصوص اخلاقیات پر مبنی کلچر میں وہ ”بدتمیزیاں“ شامل کر دی گئیں جو اگر کوئی اشعار کی بجائے ویسے کہہ دے تو ہو سکتا ہے اسے تھپڑ بھی پڑ جائے۔
غزل کا احوال بیان کرنے سے پہلے میں واضح کرنا چاہتاہوں کہ میں اردو زبان کا سکالر ہونا تو کجا اس کا باقاعدہ طالب علم بھی نہیں ہوں۔ سکول میں دسویں جماعت تک اردو پڑھی۔ ایف ایس سی میں اس سے دور رہا۔ بی ایسی سی میں اردو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھی۔ بعد میں ایم اے صحافت بھی انگلش جرنلزم میں کیا۔ مطلب یہ کہ اردو لکھنے، اردو میں شاعری کرنے یا شاعری پر آج کے موضوع پر اظہار خیال کے لئے میرے پاس کوئی کوالیفکیشن نہیں ہے۔ میں نے اپنے طور پر جو پڑھائی کی یا تجربہ حاصل کیا اس کے باعث مجھ میں یہ جرأت پیدا ہوئی کہ آج شاعری کے حوالے سے ایسا سوال اٹھا دیا ہے جو ہو سکتا ہے کہیں کہیں ناگوار گزرے۔


نظم اور گیتوں کی بات ہو چکی۔ غزل کے رواج سے آغاز سے ہی ایسا جواز فراہم ہو گیا تھا کہ اخلاقی دیوار کو آسانی سے عبور کیا جا سکتا تھا۔ عربی زبان کے لفظ ”غزل“ کا لغوی معنی ہی ”عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے بارے میں باتیں کرنا“ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ صنف ”حسن و عشق“ کے تذکرے کے لئے مخصوص ہو گئی۔ اگرچہ اس سے ہٹ کر بھی بہت تجربے ہوئے لیکن اس کے اصل مفہوم کے مطابق جو کچھ لکھا گیا اسے کسی شریف آدمی کے لئے سننا اور فیملی کی موجودگی میں پڑھنا مشکل ہو گیا۔
اپنے تھیسس کی وضاحت کے لئے مجھے کچھ مثالیں انتہائی شرمندگی کے ساتھ پیش کرنی پڑیں گی جنہیں برداشت کر لیں اور مجھے ان کے ذکر پر قصور وار نہ ٹھہرائیں کہ ”نقل کفر کفر نہ باشد“ میر تقی میر اچھا شاعر ہوگا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان کا ایک گھٹیا شعر اچھے بھلے لوگ اظہار بیان کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں 


اس میں فحاشی کا جو پہلو ہے میں اسے کھول نہیں سکتا موجودہ اردو کا ڈھانچہ تشکیل دینے میں امیر خسرو کا ایک کردار ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ کچھ لوگ ان کے ساتھ رحمتہ اللہ علیہ بھی لکھتے ہیں کہ انہیں صوفی بھی گردانا جاتا ہے ان کا ایک مشہور گیت چھاپ تلک ”فحش شاعری“ کی نادر مثال ہے جسے نصرت فتح علی سمیت بہت سے سنگرز نے گایا ہے مجھے تکلیف یہ ہوتی ہے کہ جن موضوعات سے شریف لوگ سر عام گریز کرتے ہیں ان کو امیر خسرو کھل کر بیان کرتے ہیں تو انہیں داد دی جاتی ہے اور اس میں سے تصوف بھی برآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مجھے تو دہراتے ہوئے شرم آ رہی ہے لیکن آپ مجھ پر یقین نہ کریں خود ہی ملاحظہ کر لیں کہ حضرت امیر خسرو کس کمال کی فحاشی اپنی شاعری کے ذریعے پھیلا رہے ہیں وہ کہتے ہیں۔
خسرو رین سہاگ کی، جو میں جاگی پی کے سنگ
من مورا من پیاکا، جو دونوں ایک ہی رنگ
اب فنا بلند شہری کے گیت ”رشکِ قمر“کا حال سن لیں۔ انہوں نے عورت کے حسن کے مختلف پہلوؤں کو کیا مزے لے لے کر بیان کیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے کئی حدیں پھلانگ گئے ہیں۔ حیرت ہے اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا بلکہ اسے مقبولیت کے بلند مقام پر بٹھا دیا۔ ایک دفعہ پھر میں انتہائی تکلیف کے ساتھ ”رشک قمر“ گیت کی چند لائنیں سنا رہا ہوں تاکہ آپ کو میرے بیان پر یقین آ جائے۔ ملاحظہ کریں۔
میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر
جب نظر سے ملائی مزہ آ گیا
بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے
اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ ان کی لڑی یوں میری آنکھ سے
دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آ گیا
بھارتی شاعر جاوید اختر سے میرا اچھا تعلق ہے لیکن انہوں نے اپنے فلمی گیت ”آفرین آفرین“ میں عورت کے جسمانی اعضاء کی جس بے باکی سے تفصیل بیان کی ہے وہ ”ادبی فحاشی“ کی بہترین مثال ہے۔ مجھ میں تو سکت نہیں کہ میں ایک بھی لائن یہاں دہراؤں۔
میں خود ایک  ادنیٰ سا شاعر ہوں اور اپنی ذاتی فلم کے علاوہ سید نور، جاوید شیخ اور عزیز تبسم کی فرمائش پر ان کی فلموں کے متعدد گیت بھی لکھے ہیں۔ ظاہر ہے میں نے شاعری پر جو سوال اٹھائے ہیں ان سے خود کو بچا کر رکھا ہے۔ میں نے ”گھونگٹ“ فلم کی مہندی کی سچوئیشن کے لئے خاص طور پر گیت نہیں لکھا تھا۔ اور جب ایسی سچوئیشن سید نور کی فلم میں بنی تو انہوں نے استعمال کر لیا۔ فلموں کے اس وقت کے ٹرینڈ کے لحاظ سے وہ خاصہ محتاط اور صاف ستھرا گیت تھا جس میں ادبی تجربہ بھی تھا۔ اس کی استھائی تھی۔
حُسن پہ نیا اک نکھار آیا چاہتا ہے
میں اس وقت جو لکھ رہا ہوں اور آئندہ جو لکھوں گا وہ اپنے اسی معیار کے مطابق لکھوں گا۔ آج کل تعلیمی اداروں کے فنکشنز میں شاعری کے نام پر جو درس دیا جا رہا ہے وہ بہت تکلیف دے ہے جس پر تفصیل سے آئندہ لکھوں گا۔

مزید :

رائے -کالم -