کام نہ کاج، دام پورے، کیوں؟

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام جاری ہے، حکمران اتحاد کی طرف سے معیشت کی بحالی کا ذکر کیاجاتا، آئی ایم ایف سے اپنے معاہدے کی بات کی جاتی ہے۔ بیل آؤٹ پیکیج کی وجہ سے آئی ایم ایف کی سخت شرائط بھی مانی جا رہی ہیں کہ حتیٰ کہ ان دنوں مانیٹرنگ فنڈ کا وفد پاکستان آیا ہوا ہے، یہ وفد آئی ایم ایف کی طرف سے دی گئی ہدایات کی روشنی میں جائزہ مشن پر ہے اور تجاویز ہی کے حوالے سے اہم محکموں کا دورہ کرکے جائزہ بھی لے رہا ہے گزشتہ دنوں اس جائزہ مشن نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی ملاقات کی اور معلومات لیں، سپریم کورٹ پریس ریلیز کے حوالے سے بتایا گیا کہ فاضل چیف جسٹس نے واضح کر دیا کہ عدلیہ آزادی سے کام کررہی ہے، جائزہ وفد کے حالیہ مینڈیٹ پر سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بھی اعتراض اور مخالفت کی ہے جبکہ اکثر پاکستانی بھی یہی سمجھنا چا رہے ہیں کہ اس جائزہ مشن کا مقصد کیا ہے اور انہوں نے یہ ناپسند بھی کیا ہے اور اسے ”اندرونی معاملات“ میں مداخلت قرار دیا ہے۔
اس سلسلے میں تحریک انصاف کے ردعمل کا انتظار تھا جو سامنے آ گیاہے، پی ٹی آئی ملاقات کے وقت اپنی شکایات پیش کرے گی ان میں 2004ء کے عام انتخابات میں ”دھاندلی“ کارکنوں اور عمران خان کی رہائی کے مطالبات بھی شامل ہیں، یہ پھر وہی عمل ہے جو پہلے بھی دہرایا گیا اور آئی ایم ایف سے کہا گیا تھا کہ پاکستان کو امداد نہ دی جائے۔ متوقع ملاقات سے پہلے ہی اتنا شور اٹھا دیا گیا ہے کہ دوسرا معاشی جائزہ مشن ہی ہماری عزت بحال کرا جائے، وہی ہوا کہ منہ سے نکلی بات کوٹھے چڑھ جاتی ہے اور اب یہ بھی چاردانگ پھیل گئی کہ پی ٹی آئی جائزہ وفد سے شکائت لگائے گی۔ تحریک انصاف نے یہ فیصلہ ایک اجلاس میں کیاہے اور یقینا بانی کی تائید و حمایت شامل ہوگی۔ میرے اور میرے جیسے دیگر صحافی حضرات اور سیدھے سادھے پڑھے لکھے لوگوں کے لئے تعجب کا باعث نہیں کہ تحریک انصاف اپنے اقتدار سے اب تک ایک ہی نکتے پر عمل پیرا ہے کہ ہم ہیں تو سب ہیں ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
اس سلسلے میں اندازہ لگالیں کہ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق جیسے ٹھنڈے مزاج کے آدمی کوبھی رنجیدہ ہو کر کہنا پڑا کہ اگر ایوان میں آنا اور کارروائی میں حصہ لینا ہی نہیں تو پھر تنخواہ کیوں پوری لیتے ہو، وہ تو یہ بھی کہتے چلے گئے کہ جس جس نے تنخواہ نہیں لیناوہ لکھ کر دے دے،ان کو یہ بھی کہناپڑا کہ طویل بائیکاٹ کے بعد بھی واپس آکر ساری تنخواہیں وصول کرلی تھیں۔
جہاں تک آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کا سوال ہے تو ہم جیسے عام شہریوں کو تو عمل دخل سے دکھ ضرور ہوا لیکن مجبوری کا خیال آ جاتا ہے کہ یہ بیل آؤٹ پیکیج ہی تو دیوالیہ ہونے سے بچنے کا باعث بنا اور اب وزیراعظم محمد شہبازشریف جگہ جگہ سرمایہ کاری کے لئے درخواست کررہے ہیں، ایسے میں ان کو تعاون کی ضرورت ہے نہ یہ کہ پی ٹی آئی والے حضرات موقع پا کر یہ بیل آؤٹ پیکیج منسوخ کرانے پر تل جائیں، یہ صفحات گواہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ باہمی اتفاق رائے پر زور دیا اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دی، جب فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے تو ہم نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے بہت حمایت کی کہ یہ کامیاب ہوں اور ملک پھر سے پٹڑی پر چڑھ جائے لیکن کیا کیا جائے کہ پی ٹی آئی نے ابتداء ہی سے رویہ اختیار کیا کہ ایسا نہ ہو اور تحریری رابطہ کے بعد بھی مصر رہے کہ دو مطالبات مان لئے جائیں، پہلا یہ کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور دوسرا یہ کہ سیاسی اسیر رہا کئے جائیں، ہماری طرف سے خیر مقدم کے ساتھ ہی یہ کہا جاتا رہا کہ مل بیٹھیں اور کوئی راہ نکال لیں کہ مذاکرات ہوں تو ایک دوسرے کا نقطہ ء نظر سمجھا جاتا ہے اور پھر ہی بات کسی ممکنہ حل تک پہنچتی ہے لیکن یہاں تو صورت حال مختلف رہی، پی ٹی آئی اپنے مطالبات پر قائم رہی اور یوں بات چیت کے آئندہ مراحل رک گئے اور بات پھر سے وہیں پہنچ گئی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ دونوں فریق ندی کے دو کناروں کی طرح جدا جدا ہیں اور یہ کنارے تو آپس میں ملتے ہی نہیں، میں اپنے پارلیمانی رپورٹنگ کے تجربے کی بناء پر عرض کر سکتا ہوں کہ ملک سے قومی اور صوبائی ایوانوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مہینوں ایوانوں کو چلنے ہی نہ دیا جائے۔ ایوان / اسمبلیاں اس لئے بنتی ہیں کہ اراکین اجلاسوں میں حکام کا نہ صرف محاسبہ کر سکیں، بلکہ عوامی مسائل کو حل کرانے کی جدوجہد بھی کر سکیں، اگر ایسا نہ ہوا تو یہ اخلاق اور قانون کی خدمت نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ خود تحریک انصاف ہی کے رویے کی روشنی میں ایوانوں سے کسی بحث کے بغیر قوانین منظور ہو رہے ہیں جن پر احتجاج بھی ہوتا ہے اس کا واضح ثبوت پیکا قانون کی منظوری ہے جس کے خلاف میڈیا برادری خلاف ہو کر باقاعدہ احتجاج کررہی ہے اور وفاقی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ یہ کام مشکل نہیں، اب بھی سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ترامیم ہو سکتی ہیں، لیکن پی ٹی آئی کوئی سنجیدہ تجویز سننے کی روادار نہیں، کم از کم ان سے تو مشاورت ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ ہم عوام کی بدقسمتی ہے کہ رہبر ہی راہزنی پر عمل پیرا ہیں اور تاحال عوام کو کسی بھی مرحلے پر کوئی ریلیف نہیں مل سکی۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ تحریک انصاف اس سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے وہ قومی اسمبلی میں واک آؤٹ کرتی ہے اور حکمران اتحاد قوانین منظور کرالیتا ہے اور بات چلتی چلی جا رہی ہے لیکن بقول دیہی حضرات ”چَس نہیں آ رہی“۔
بات چلتی چلی جائے تو دور تک چلی جاتی ہے اب تو عدل کے ایوانوں میں فاضل منصفین آمنے سامنے ہیں، خط لکھے جاتے، مطالبات پیش کئے جاتے اور پھر مسترد ہوتے ہیں۔ بہت سے معاملات عدالتوں میں ہیں، جہاں دلائل بھی دیئے جا رہے ہیں اور سنے بھی جا رہے ہیں لیکن بات تو تقسیم واضح کرنے والی ہے، ہمارے اکثر فاضل جج حضرات نے بعض اہم امور کے حوالے سے اسی کشمکش کے باعث اپنی رائے ہی کا اظہار کر دیا ہے اب اگر فل کورٹ بنا کر بھی سماعت ہو تو ان حضرات کی رائے واضح ہے تو فیصلہ کیا ہوگا اور فیصلہ پر متاثرہ فریقان کا رویہ کیا ہوگا، میرا خیال ہے کہ یہ مطالبات کوتاہیوں کی وجہ سے مشکل تر مرحلہ بنا دیا گیا ہے۔