خطرناک دورعجب دور آ گیا ہے

خطرناک دورعجب دور آ گیا ہے
خطرناک دورعجب دور آ گیا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میڈیا میں سب کچھ ملتا ہے مگر سچ نہیں ملتا۔ سوشل میڈیا نے جھوٹ اور جانبداری کو اتنے بھاری نرخوں پر خریدنا شروع کر دیا ہے کہ سچ کا کاروبار کرنے والے یا تو جھوٹ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سوچ رہے ہیں اور یا اپنے آپ کو نااہل قرار دے کر سچ کی دکانیں بند کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ایک دور میں ملاوٹ کا گلہ کیا جاتا تھا مگر اب ہم نے ملاوٹ کو ایک ضرورت اور حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ اس دور میں وہ اسرائیلی پیغمبر یاد آتے ہیں جو دو عشروں سے زائد تبلیغ کرتے رہے مگر کوئی شخص ایمان نہ لایا۔ کسی نے ان سے کہا کہ آپ نے اتنی تبلیغ کی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر آپ تبلیغ کرنے سے باز کیوں نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ میں سچ اس لئے بولتا ہوں کہ کہیں میں سچائی کو بھول نہ جاؤں۔


جھوٹ بولنا اور جانبدار ہونا سیاست کی مجبوری ہوا کرتا تھا مگر اب سوشل میڈیا نے اسے صحافت کی بھی مجبوری بنا دیا ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا جھوٹ اور جانبداری کا جو معاوضہ ادا کر رہا ہے اس کا کبھی اہل صحافت نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ مغرب میں ذمہ داری کے بغیر صحافت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ امریکی پریس کمیشن نے واضح طور پر کہا تھا کہ ذمہ داری پریس کے لئے ناگزیر ہے۔ کیونکہ اگر پریس ذمہ دار نہیں ہو گا تو یہ اپنی آزادی بھی کھو بیٹھے گا۔ مگر پاکستان میں میڈیا کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ کسی کے ذہن میں جونہی نیا تخلیقی جھوٹ آتا ہے وہ اسے سچ کے طور پر پیش کر دیتا ہے۔ میڈیا پر حکومت کو کوئی پابندی نہیں لگانی چاہیے مگر میڈیا کو ذمہ داری کے لئے کوئی لائحہ عمل بنانا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر میڈیا غیر محفوظ ہو جائے گا۔
میڈیا کی صورتحال اس وقت زیادہ بھیانک ہو جاتی ہے جب اس میں غیرملکی مداخلت بڑھ جائے۔ چند روز قبل ڈاکٹر عتیق الرحمن سے گفتگو کرنے کا موقعہ ملا۔ ڈاکٹر عتیق الرحمن دانشورہیں۔ سچے پاکستانی ہیں۔ عالمی سیاست پر ان کی گہری نظر ہے۔ بھارت کی گھاتوں اور وارداتوں سے خوب آگاہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف باقاعدہ جارحانہ ابلاغی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ نفرت انگیز فیک نیوز کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ 500 سے زائد ڈومین استعمال کی جا رہی ہیں اور اسے آپریشن ”انڈین کرانیکل“ کا نام دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عتیق الرحمن بتاتے ہیں کہ یہ گمراہ کن فیک خبریں زیادہ تر کشمیر اور بلوچستان کے متعلق ہوتی ہیں اور ان کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا اور پاکستان کے عوام میں مایوسی اور بے یقینی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ANI مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ سری واستو کا پراپیگنڈانیٹ ورک پاکستان کی سالمیت کے لئے بڑا خطرہ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ 


دنیا اس وقت ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے جسے POST TRUTH ERA کا نام دیا جاتا ہے۔ اس عہد میں سچائی نایاب ہو گئی ہے۔ اخلاقیات جھوٹ کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہیں اور یہ کام ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔ بھارتی ادارے جو خبریں یا مواد تیار کرتے ہیں ان میں حقیقت نہیں ہوتی بلکہ جذبات کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے سرحدوں کا تصور مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ ماضی میں جنگ محاذوں پر لڑی جاتی تھی مگر اب سوسائٹی کے خلاف جنگ لڑی جاتی ہے کیونکہ اس حقیقت کا ادراک کر لیا گیا ہے کہ اگر کوئی قوم اپنی ریاست سے غیر مطمئن ہو جائے گی تو اس کی بقاء کے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ منظم اندا زمیں تاریخی، تہذیبی، جغرافیائی، لسانی، سماجی اور معاشی تضادات کو ہوا دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جو سیاسی تضادات کھل کر سامنے آتے ہیں ان کی بنیاد پر پراپیگنڈے کے شاہکار تخلیق کئے جاتے ہیں۔ سیاسی اختلافات کو قوم کی تقسیم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔


بھارت سی پیک کے خلاف ہے اور اس کے خلاف ابلاغی محاذ پر جنگ لڑ رہا ہے۔ بھارت کو شبہ ہے کہ اگر چین اور پاکستان میں اقتصادی تعاون کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے تو اس کے استعماری عزائم پر زد پڑتی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت کا ہندو برتری کا خواب اب کوئی راز نہیں رہا۔ یہ جنون اس خطے میں امن کے امکانات کو کم کر رہا ہے۔ سی پیک کے خلاف بڑے سائنسی انداز میں پراپیگنڈا ہوتا ہے۔ ویڈیوز، پیغامات، بیانات اور دوسرے ذرائع سے ایسا مواد تیار کیا جاتا ہے جس کے ذریعے سی پیک کے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ دور جدید میں رائے عامہ نے غیر معمولی اہمیت حاصل کی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے دشمنوں کو ہمارے عوام تک پہنچانے کی رسائی فراہم کر دی ہے اور بدقسمتی سے وہ اسے جہاں بری طرح استعمال کر رہے ہیں وہاں ہم اس سے بے خبر ہیں۔ ہمارے سیاستدان ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں جن کو بھارت کے ابلاغی ادارے پراپیگنڈا مواد کی تیاری میں استعمال کرتے ہیں اور اس سے عوام کے دماغ کو مسموم کیا جاتا ہے۔ 


بھارت پاکستان کا دشمن ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف مسلسل سرگرم عمل رہتا ہے۔ دکھ ان سیاستدانوں پر ہوتا ہے جو قومی یک جہتی کو نقصان پہنچانے کے لئے غیرذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر سرگرم وہ پاکستانی دانشور، یوٹیوبرز اور دوسرے لوگ بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں جو سنسنی خیز مواد کے ذریعے غیرمعمولی دولت کما رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو کسی ضابطہ اخلاق کے پابند نہیں سمجھتے۔ وہ اس خطرناک آزادی صحافت کے علمبردار ہیں جو دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ قوم کی جڑوں کو غیرمحسوس انداز میں کھوکھلا کر رہے ہیں۔ دورجدید میں سچ کے خلاف یہ جنگ درحقیقت پاکستان کے خلاف جنگ ہے اور اس سلسلے میں سوچ سمجھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔اس معاملے میں بہت دیر ہو چکی ہے اور اب مزید تاخیر کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔
٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -