لیڈرز " روبوٹ "کی مانند چل رہے ہیں،کھیل تماشا کب تک چلے گا۔۔۔؟ مظہر عباس نے ایک بڑی جماعت کی سیاست پر کئی سوالات اٹھا دیئے
کراچی ( خصوصی رپورٹ ) سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے ایم کیو ایم کی سیاست پر کئی سوالات اٹھا دیئے ۔
"جنگ " میں شائع ہونیوالے بلاگ میں مظہر عباس نے لکھا کہ ماضی میں 1992ءمیں جن ’’روبوٹس‘‘ کو لایا گیا تھا اُن بیچاروں کا بھی بس استعمال ہوا اور پھر اُنہیں ناکارہ بنا دیا گیا ۔ یہی ہماری سیاست کا ڈھنگ رہا ہے۔ انکا کیا ذکر کریں اب تو بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈرز بھی روبوٹ کی مانند چل رہے ہیں۔
ہاں ایک وقت تھا جب سیاست کا مرکز 90عزیز آباد ہوتا تھا۔ کیا صدر، کیا وزیر اعظم، کیا پی پی پی اور کیا مسلم لیگ (ن) حکومت بنانی ہو یا توڑنی ہو ’’حاضری‘‘ ضروری تھی۔ مقتدرہ کی اعلیٰ قیادت تو خیر وہاں نہیں آئی البتہ ’’اعلیٰ گھروں‘‘ میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ جو چیزاس وقت کی ایم کیو ایم بھول گئی وہ تاریخی حقیقت کہ آپ کا امتحان شروع ہی اُس وقت ہوتا ہے جب اقتدار مل جائے اور آپ با اختیار ہوں۔ یہ آپ کا سبق ہے طاقت کے وقت عاجزی اور اختیار کے وقت دوسروں کے کام آنا۔ مجھے تو وہ ایم کیو ایم بھی یاد ہے جس کے اراکین اسمبلی موٹر سائیکل یا بسوں میں سفر کر کے اسمبلیوں میں پہنچا کرتے تھے ۔اب اُن میں سے بعض کی گاڑیاں اُن گلیوں میں نہیں جاسکتیں جہاں اُن کے ووٹرز رہتے ہیں۔
بلاگ میں مظہر عباس نے مزید لکھا کہ میں نے وہ ایم کیو ایم بھی دیکھی جو دہشت کا نشان بن گئی تھی کہ ایک فون پر کراچی بند۔ پھر وہ ایم کیو ایم بھی دیکھی جس پر کئی مخالفین کو قتل کرنے کے الزامات لگائے گئے، پھر اپنے ہی ہاتھوں مارے جانے کی خبریں۔ اور پھر یوں بھی ہوا کہ کئی سو ایم کیو ایم کے کارکنوں اورمبینہ ٹارگٹ کلرز کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا جواب میں کئی پولیس والے بھی مارے گئے ۔ آج تک نہ کوئی کمیشن بنا،نہ حقائق کا پتا چل سکا۔ بڑی لمبی تاریخ ہے دوستو ، بہت سے پوشیدہ راز ہیں کہ آخرکیا ہوا ،ایک متوسط طبقہ، پڑھی لکھی قوم کے وارث ’’دہشت کی علامت‘‘ بن گئے اور پھر مارےگئے ۔ آج بھی خود ایم کیو ایم (پاکستان) کا دعویٰ ہے کہ کوئی 100کا رکن لاپتہ ہیں پانچ چھ سال سے ہر دوسرے روز اُن کے لواحقین آتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔
بلاگ کے آخر میں مظہر عباس نے لکھا کہ اب یہ فیصلہ ایم کیو ایم کو کرنا ہے کہ وہ ’’روبوٹ‘‘ سیاست پر اکتفا کرے گی یا کچھ مختلف۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2013ءمیں 8لاکھ کراچی میں ووٹ لے کر، گوکہ ایک قومی اسمبلی کی سیٹ ملی تھی، اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ بدقسمتی سے بانی متحدہ نے اس پر بھی اپنی فتح پر لیڈروں کو مبارک باد دینے کے بجائے جنرل ورکرز اجلاس میں بے عزت کر دیا۔ 8فروری کو پی ٹی آئی شہری سندھ کی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری مگر جتوا کسی اور کو دیا گیا۔ آخر اس طرح کا کھیل تماشا کب تک چلے گا۔ میرے خیال میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کو تھوڑا سبق مولانا فضل الرحمان سےسیکھنا چاہیے جن کی ’’بیٹھک‘‘ حالیہ بحرانوں میں وہی منظر پیش کر رہی تھی جو کسی زمانے میں 90عزیز آباد کی بیٹھک کرتی تھی۔