سی ایس ایس اردو کے لئے اوریا مقبول جان کا مقدمہ
بات ہو رہی تھی کہ سی ایس ایس کیسے شروع ہوئی اور بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔ اس کا آغاز برصغیر میں برطانوی راج کے دوران ہوااور اس وقت اسے آئی سی ایس کہا جاتا تھا‘ یعنی امپیریل سول سروس۔ اس سروس کے تحت کام کرنے والوں کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858کے سیکشن 32کے تحت تعینات کیا جاتا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس سروس کا آغاز برصغیر پر برطانیہ کے قبضے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ شروع میں یہ انتظام ڈھیلا ڈھالا تھا‘ لیکن بعد ازاں ضرورت کے مطابق اس میں تبدیلیاں کی گئیں اور اسے زیاددہ منظم اور مرتب بنا لیا گیا۔ آئی سی ایس کے ذریعے منتخب ہونے والوں کو سویلینز کا نام دیا جاتا تھا۔ تاہم ان کی بھرتی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ تعداد انگریز سول افسروں سے بڑھنے نہ پائے۔ آپ اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1947میں برصغیرکی آزادی کے وقت آئی سی ایس انڈین کی تعداد 322تھی جبکہ برطانوی ارکان کی تعداد 688تھی۔
پاکستان کا پی سی ایس اور بھارت کا سول سروسز آف انڈیا‘ دونوں اسی پُرانے برطانوی دور کے آئی سی ایس سے ہی ماخوذ ہیں‘ بلکہ بڑی حد تک آج بھی اسی پُرانی طرز پر چلائی جا رہی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی سی ایس کے ذریعے صرف قابل اور لائق امیدواروں کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ ان کو ایک طرح سے عوام پر حکمرانی کے لئے ہی منتخب کیا جاتا ہے۔ سول افسروں کا کام حکمرانوں کے لئے وہی خدمات سرانجام دینا ہوتا ہے‘ جو برطانوی دور کے سول افسر اپنے غیر ملکی آقاؤں کے لئے بجا لاتے تھے۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ کسی ملک کو بیوروکریٹ ہی چلاتے ہیں اور منتخب حکمرانوں کو بھی اکثر یہی بریفنگ دے کر اصل صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں یا گمراہ کر دیتے ہیں۔ یہ ہوتے غیر سیاسی ہیں‘ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ سیاسی طور پر منتخب ہو کر برسراقتدار آنے والی حکومتوں اور حکمرانوں کے سیاسی مہرے چلانے میں بھی یہی مدد کرتے ہیں۔ یہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ کسی بھی علاقے کا زمیندار‘ جاگیر دار یا کوئی بڑی سیاسی شخصیت اپنے علاقے میں من پسند سول افسران لگوانا کیوں پسند کرتے ہیں۔ اسی لئے کہ وہ ان سے اپنے علاقے کے لئے اپنی پسند کے فیصلے کرا سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ سیاست دانوں اور حکمرانوں کے لئے ناجائز کام کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔
جیسا کہ گزشتہ قسط میں لکھا کہ انہوں نے عام عوام سے الگ تھلگ اپنی دنیا بسائی ہوتی ہے۔ پبلک مقامات پر یہ کم دیکھے جاتے ہیں۔ نظر آئین بھی تو پورا پروٹوکول ساتھ ہوتا ہے اور عام طور پر یہ ممکن نہیں ہوتا کہ کوئی عام آدمی ان سے راستے میں یا کسی تقریب میں مل لے۔ ماضی میں ان کے عوام میں نہ گھلنے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ تاج برطانیہ انہیں عوام پر حکم چلانے کے لئے استعمال کرتی تھی‘ لیکن اب جبکہ ملک آزاد ہوئے بھی سات دہائیاں مکمل ہونے والی ہیں‘ یہ خو نہیں گئی۔ اب وہ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ پاتے ہیں اور عوام کی خدمت پر مامور ہیں‘ لیکن طرز عمل وہی پُرانا ہے۔ پھر ان کے اپنے اندر بھی ایک تقسیم پائی جاتی ہے۔ اب تو حالات کچھ تبدیل ہو گئے ہیں اور زیادہ تر امیدوار پولیس میں آنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ لیکن ایک زمانہ تھا کہ فارن سروس کو سب سے اچھی سول سروس سمجھا جاتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ فارن سروس والا خود کو دوسروں سے بالاتر سمجھتا ہے اور ڈی ایم جی والے کسی اور کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یوں ان میں ایک دوسرے سے سپیریئر ہونے کی ایک طرح کی دوڑ سی لگی رہتی ہے۔
بھارت میں جسے آئی سی ایس کہا جاتا ہے یہاں پاکستان میں سی ایس ایس کہلاتا ہے ۔ یہ مخفف ہے سنٹرل سپیریئر سروسز کا۔ اس کے لئے امتحان فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہر سال لیتا ہے۔ اس امتحان میں کامیاب ہونے والوں کو درج ذیل گروپوں یا سروسز میں گریڈ 17کی نوکریاں فراہم کی جاتی ہیں۔ کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ‘ فارن سروس آف پاکستان‘ انفارمیشن گروپ‘ ان لینڈ ریونیو سروس‘ ملٹری لینڈز اینڈ کینٹونمنٹ گروپ‘ آفس مینجمنٹ گروپ‘ پاکستان ایدمنسٹریٹو سروس‘ پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس‘ پاکستان کسٹمز سروس‘ پولیس سروسز آف پاکستان‘ پوسٹل گروپ‘ ریلویز(کمرشل اینڈ ٹرانسپورٹ)گروپ۔ سی ایس ایس کا امتحان چار حصوں پر مبنی ہوتتا ہے۔ تحریری امتحان‘ طبی معائنہ‘ نفسیاتی تجزیہ اور وائیوا وائس‘ یعنی انٹرویو۔کوئی بھی شخص جس نے سیکنڈ ڈویژن یا سی گریڈ میں بیچلر ڈگری حاصل کر رکھی ہے ‘ مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا اہل ہے۔ پاکستان اور آزاد جوں و کشمیر کا کوئی بھی فرد یہ امتحان دے سکتا ہے۔ امتحان کے درخواست دینے والے کی عمر 21سال سے کم اور 28سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے؛ تاہم بعض معاملات میں عمر کی حد میں ایک دو سال اضافے کی سہولت مل جاتی ہے۔امیدوار آن لائن درخواست بھجوا سکتا ہے اور ڈاک کے ذریعے بھی‘ تاہم ضروری ہے کہ درخواست بروقت پبلک سروس کمیشن کو مل جائے۔
تحریری امتحان 1200نمبروں کا ہوتا ہے۔ بارہ پرچے ہوتے ہیں۔ ہر پرچہ سو نمبر کا۔چھ پرچے لازمی ہوتے ہیں اور باقی چھ پرچوں کے لئے دی گئی فہرست میں سے مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔لازمی مضامین یہ ہیں: انگلش ایسے‘ انگلش (پریسی اینڈ کمپوزیشن) جنرل سائنس اینڈ ابیلٹی‘ کرنٹ افیئرز‘ پاکستان افیئرز اور اسلامک سٹڈی (غیر مسلم کمپیریٹو سٹڈی آف میجر ریلیجنز میں امتحان دے سکتے ہیں)اختیاری مضامین کے لئے سات گروپ بنائے گئے ہیں۔ امیدوار کو ہر گروپ میں سے ایک مضمون کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
تحریری امتحان میں کامیاب ہو نے والوں کو میڈیکل چیک اپ کے لئے بلایا جاتا ہے اور وہاں سے کلیئر ہونے والوں کو انٹر ویو کے لئے طلب کیا جاتا ہے۔ انٹرویو سی ایس ایس امتحان کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ تحریری امتحان میں بہترین نمبر لینے والے بھی انٹرویو میں ناکام ہو کر مقابلے سے باہر ہو جاتا ہے۔ ایک چیز ہمیشہ امیدوار کے ذہن میں رہنا چاہئے کہ مقالے کے امتحان اور انٹرویو میں سب سے زیادہ امیدوار کے اعتماد کو چیک کیا جاتا ہے۔
اس بحث کا اختتام یہی ہے کہ مقابلے کا امتحان اردو میں لینے زیادہ اچھا اور بہتر ٹیلنٹ سامنے آ گا اورہمارے سرکاری اداروں میں بھی حالات کچھ بہتر ہو جائیں جناب اوریا مقبول جان اپنے ٹی وی پروگرام میں کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کر چکے ہیں ۔اردو سے محبت کرنے والوں کے امید اب جناب اوریا مقبول جان کی کوشش اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے وابستہ ہو چکی ہے .
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔