عشق

حسین بن منصور کو جب قتل گاہ میں لے جایا گیا اور جلّاد اسکے ہاتھ پاؤں کاٹنے لگا تو مجمع میں سے ایک درویش نے پُوچھا کہ عشق کا مفہوم کیا ہے تو حلّاج نے جواب دیا تم آج دیکھو گے اور پرسوں دیکھو گے۔ اس کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ ایک دن اُنہیں قتل کیا گیا دوسرے دن اُنکی لاش کو جلا دیا گیا اور تیسرے دن اُنکی راکھ اُڑائی گئی اور دجلہ کے پانی میں ڈال دی گئی۔ عشق کا عام فہم مفہوم عاشق کا اپنے معشوق کی مرضی و خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے جو عامتہ الناس سے صوفیا تک کم و بیش انہی معنوں میں رائج ہے۔ عشق کی اہم ترین خصوصیت مصلحت کا انکار اور بے ساختگی ہے۔ منصور حلاج سے سر مد اور بابا بلھے شاہ تک اور مجنوں کے زبانِ زدِ عام قصّے سے سوہنی کے کچّے گڑھے تک تمام داستانوں میں یہ بے خوفی اور بے ساختگی اہم ترین جزو کے طور پر نظر آتی ہے۔
عشق ایک فرد، ایک قوم، ایک نظر ہے، ایک مادی شے اور ایک خِطۂ زمین کسی سے بھی ہوسکتا ہے۔ تحریک پاکستان دراصل نظریے سے عشق کی داستان ہے اور انہی مندرجہ بالا اجزا سے مزیّن ہے۔ اسلامی نظریہ، حیات کے عشْاّق نے اتنی بے ساختگی اور بے خوفی سے اپنے جان و مال عزّت و آبرو کی قربانی پیش کی کہ تاریخِ عالم میں اپنی مثال آپ ہے لیکن یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے کہ کیا سبھی عُشاق کا بعداز وصل یہی حال ہوتا ہے جو نظریہ پاکستان کے عُشاق میں سے اکثریت کا ہوا یعنی وصل کے بعد عشق حقیقی کے دعویداروں نے اپنا قبلہ ہی تبدیل کرلیا۔ پاکستان جو انکا عِشق تھا معشوق کے درجے سے گر کر محض جیبیں بھرنے اور جائزوناجائز طریقے سے اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بن کر رہ گیا جبکہ مسلکِ عشق اس سے سراسر مختلف تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان آج بھی ایک ایسا معشوق ہے جس کے عُشاق کی غالب اکثریت سے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل میں مددگار بنا کر اس سے منہ موڑ لینا فرضِ عین خیال کرتی ہے اور یہ عشاق مصلحت اندیشی کی ایسی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں جسکا ٹوٹنا فی الحال ناممکن نظر آرہا ہے۔ ان سب کے دل سے اس نظریہ حیات ’’اسلام‘‘ کے سب سے بڑے عاشق اقبالؒ کی یہ بات بالکل نکل چکی ہے۔
پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اصول عشق میں ہم قرونِ اولٰی کے ان مسلمانوں کے پیروکار ہیں جنہوں نے حقیقی عشاق کے ساتھ ظلم و زبردستی کے موقع پر ہمیشہ نیم رضا مند گروہ کا کردارادا کیا اور شہادتِ امام حسینؓ ، امام ابوحنیفہ ؒ اور امام مالک کے ساتھ روا رکھے جانے والے انسانیت سوز سلوک کو خاموشی اور صبر سے دیکھا اور بعد میں انکی قبروں پر کثیر تعداد میں حاضری کو ذریعہ نجات جانا۔ ہم پاکستانی بھی تشکیلِ پاکستان سے اب تک اسی سوچ و فکر پر قائم ہیں اور وقت گُزر جانے کے بعد سابقہ حالات کا تبصروں کے ذریعے تجزیہ کرتے ہیں اور نئے واقعات پر حسب سابق مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ غلام محمد سے پرویز مشرف تک ہم نے ہر ہر موقع پر اپنے نفع و نقصان کا مکملّ حساب لگانے کے بعد موقع شناسی کی سابقہ روایات کے مطابق ردّعمل دیا ہے جو معاشیات کے اصولوں کے عین مطابق اور مسلک عشق کے سراسر خلاف رہا ہے۔ اقوامِ عالم کو اس بات پر بھی کامل یقین رکھنا چاہیے کہ کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف زور و شور سے جاری موجودہ مہم جس میں فریقین ایک دوسرے کے خلاف لفظی بمباری میں مصروف ہیں محض ایک وقتی اُبال ہے جس کے خاص مقاصِد حاصل ہونے کے بعد ہم یقیناََ اپنی سابقہ روشن روایات کی پاسداری کریں گے اور سوچ سمجھ کر اپنے نفع و نقصان کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے جو معاشی اُصولوں کے عین مطابق ہو گا۔ اس سارے پس منظر میں ایک چیز انتہائی حوصلہ افزا ہے جس کے لیے ہم بحیثیّت مجموعی مبارکباد کے مستحق ہیں وہ یہ کہ ہم نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ ہم معاشیات اور ریاضی میں ہنوز یہود سے کمزور ہیں بلکہ اگر ہم اسی استقامت سے اپنے معاشی اصولوں پرکار بند رہے تو وہ دن دُور نہیں جب ہم اس میدان میں سب کے سر خیل ہونگے۔