پاکستان:دستیاب پانی کی صورت حال اور نیم بنجر ممالک کی فہرست

پاکستان:دستیاب پانی کی صورت حال اور نیم بنجر ممالک کی فہرست
پاکستان:دستیاب پانی کی صورت حال اور نیم بنجر ممالک کی فہرست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انڈس ریورسسٹم اتھارٹی(IRSA) نے اپنی حالیہ میٹنگ میں بتایا ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیم گزرے موسم بہار میں ڈیڈ لیول تک جاپہنچے تھے جس کے باعث پنجاب کے زرعی شعبے کو درکار پانی مہیا نہیں ہوسکا اس لئے اس بات کا خدشہ ہے کہ اس مرتبہ پیداوار کے مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہو سکیں۔

اتھارٹی میٹنگ میں بتایا گیا کہ سندھ اور اس کے معاون دریاؤں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، جس کے باعث اس پانی پرانحصار کرنے والے علاقوں میں پانی کی تاریخی کمی دیکھنے کو ملے گی۔ پنجاب میں سردیوں کے موسم میں بوائی کے وقت مطلوبہ پانی سے 40فی صد کم پانی دستیاب ہوگا، جس سے زرعی پیداوار میں کمی کا قوی احتمال ہے۔

ہمارے ہاں دستیاب تازہ پانی کا 20فیصد تک زرعی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ ہماری آبادی کا 60فیصد تک براہ راست یا بالواسطہ زرعی شعبہ سے وابستہ ہے، جن کے لئے صاف پانی کی دستیابی زندگی موت کا سوال ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت ہم اپنے تین دریاؤں سے پہلے ہی دستبردار ہو چکے ہیں، ان دریاؤں میں جو بچا کھچا پانی یہاں آتا ہے، ہم اسے سٹور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بہت سا پانی بغیر رکے سمندر بُرد ہو جاتا ہے۔

ڈیم بناکر پانی ذخیرہ کرنے کی پالیسی نہ ہونے کے باعث فی ایکٹر پانی کی دستیابی بتدریج کم ہوتے ہوتے خطر ناک پستیوں کو چھونے لگی ہے، گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے ہم نے کوئی قابل ذکر ذخیرہ آب تعمیر نہیں کیا ہے، بلکہ کئی دہائیوں سے ہم کالا باغ ڈیم کی دہائی دے رہے ہیں کوئی صوبہ کہتا ہے کہ ’’کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا‘‘۔ تو دوسرا صوبہ کہتا ہے ’’ہم اسے بم سے اڑادیں گے‘‘۔

ہندوستان بڑی سوچی سمجھی سکیم کے تحت پاکستان کی طرف بہتے پانیوں کا رخ موٹر رہا ہے، جس سے یہاں آنے والے پانی کی مقدار مسلسل کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اب یہ کمی خطر ناک حدود میں داخل ہوچکی ہے اور اس کے منفی اثرات نظر آنے لگے ہیں۔

ہندوستان نے قیام پاکستان کے بعد سے کوئی بھی موقع ضائع نہیں کیا، جس سے پاکستان کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہو۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق وہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ڈیم بنانے کی منصوبہ سازی کررہا ہے تاکہ پاکستان کی طرف آنے والے پانی کی مقدار کو مزید کم کیا جاسکے یہ کام وہ کشمیریوں کی آبی ضروریات پوری کرنے کے نام پر کررہا ہے۔

2001-9/11 کے بعد سے بھارت سرکار افغانستان میں بہت حد تک دخیل ہوچکی ہے، امریکی اتحادی کے طور پر افغانستان میں ٹریننگ اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے ہندوستان سرکار نے اپنا اثرورسوخ خاصا بڑھا لیا ہے۔

اس حوالے سے اسے امریکی سرپرستی بھی حاصل ہے، ہندوستان،افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مورچہ زن ہے، پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں بھارت کا ہاتھ ہی نہیں پورا بازو شامل ہے، جسے امریکی سرپرستی حاصل ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغان حکومت، بھارت سرکار کی مالی اور فنی معاونت کے ساتھ دریائے کابل پر ڈیم بنانے کا فیصلہ کرچکی ہے، جس سے یہاں پاکستان میں بہتے دریائے کابل کے پانی میں شدید کمی ہو جائے گی، اس دریا کے ساتھ کے پی کے اور بلوچستان کے کئی اضلاع کی معیشت اور معاشرت میں عدم توازن بگاڑ پیدا ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ دشمن قوتیں پاکستان کو ناکام ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہیں، لیکن ہمیں دیگر حقائق پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ قیام پاکستان کے وقت ہر شخص کے لئے سالانہ 5650کیوبک میٹر پانی دستیاب ہوتا تھا، ہمارے دریا، نہریں، ندیاں پانی سے لبالب بھرے ہوتے تھے۔ ہماری کھیتیاں لہلہا رہی ہوتی تھیں، پھر ہم دوطرفہ مسائل میں گھرنا شروع ہوگئے، ،ایک طرف ہماری آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دوسری طرف بھارت نے ہمارے پانی کا گلاگھونٹنا شروع کردیا۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت ہم نے اپنے تین دریاؤں کے پانی سے دستبرداری اختیار کرلی۔ اس کے بعد ورلڈ بینک کے تعاون سے دو بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا تعمیر کئے، تاکہ ہم اپنی آبی ضروریات پوری کرسکیں۔

اس واقعہ کو 70سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اس کے بعد ہم نے کوئی قابلِ ذکر آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا ہے، جبکہ ہماری آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔

ارسا کی طرف سے شائع شدہ اعدادوشمار کے مطابق 2010ء میں فی کس دستیاب پانی کی مقدار 1947ء میں 5650 کے مقابلے میں گھٹ کر 1000 کیوبک میٹر تک آگئی ہے، جبکہ 2017ء کی مردم شماری کے بعد یہ مقدار 850 کیوبک میٹر فی کس تک گر چکی ہے۔

عالمی ماہرین کے مطابق انسانی تعمیر و ترقی اور صحت برقراررکھنے کے لئے کم از کم 1000کیوبک میٹر فی کس سالانہ پانی درکار ہوتا ہے، جبکہ ہم 850پر کھڑے ہیں یعنی ہم پست ترین سطح کی طرف جارہے ہیں۔

گھٹتی ہوئی دستیاب پانی کی مقدار کو دیکھتے ہوئے عالمی ماہرین کے مطابق ہم نیم بنجر ممالک کی صف میں کھڑے ہو چکے ہیں۔ ہماری فی ایکٹر پیداوار پہلے ہی بہت زیادہ معیاری نہیں ہے۔ گھٹتی ہوئی دستیاب پانی کی مقدار ہماری موجودہ فی ایکٹر پیداوار پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔
اب ذرا دیکھئے کہ ہم دستیاب پانی کے ساتھ کیا سلوک کرہے ہیں، واپڈا کی طرف سے جاری اعدادوشمار کے مطابق ہم ہر سال 25ارب روپے مالیت کا پانی ضائع کردیتے ہیں۔

تربیلا ہمارے دو بڑے ڈیموں میں سے ایک ہے، جس کی پانی سٹور کرنے کی صلاحیت میں مٹی بھر جانے کے باعث، 30لاکھ ایکٹر فٹ کی کمی واقع ہو چکی ہے، ہمیں سالانہ 145ملین ایکٹر فٹ پانی دستیاب ہوتا ہے، جبکہ ہم صرف 14ملین ایکٹر فٹ پانی جمع کر پاتے ہیں۔

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) کی طرف سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان سالانہ 30ملین ایکٹر فٹ پانی سمندر میں ڈالتا ہے، جبکہ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق کوٹری کے مقام پر سمندر کو اپنی سطح برقرار رکھنے اور خشکی پر چڑھ دوڑنے سے روکنے کے لئے صرف 8ملین ایکٹر فٹ سے بھی کم پانی درکار ہوتا ہے، یعنی ہم پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث ’’سنہری سیال‘‘ سمندر برد کر دیتے ہیں کیا یہ مجرمانہ قدم نہیں ہے کہ ہم عطیۂ خداوندی کے ساتھ اس قدر بھیانک سلوک کر رہے ہیں۔
پنجاب میں 12لاکھ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں، یہ ٹیوب ویل زرعی صنعتی اور گھریلو ضروریات کا پانی فراہم کرتے ہیں، نہری نظام سے حاصل ہونے والے پانی میں بتدریج کمی کے باعث ان ٹیوب ویلوں پر زیر زمین پانی کھیچنے کا دباؤ بڑھتا چلا جارہا ہے، جس کے باعث زیر زمین پانی کے حصول میں 3تا 4ایکٹر فٹ سالانہ کی کمی واقعہ ہو رہی ہے اور زیر زمین سطح آب تیزی سے گر رہی ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جو عالمی ماہرین،ISRA اورWapda کے ذمہ داران کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں، پانی انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے، لیکن ہم کیونکہ ’’زرعی معاشرہ‘‘ ہیں۔ ہماری معیشت زراعت پر چلتی ہے، ہماری صنعت و حرفت اوربیرونی تجارت کا انحصار بھی زراعت کے ساتھ ہے، اس لئے ہمارے لئے پانی ’’ بہت ضروری‘‘ ہے، لیکن ہم جس طرح پانی کی کمی کا شکار ہوچکے ہیں اور ڈوبتے ہی چلے جارہے ہیں۔

ہم دستیاب پانی کی کم از کم حد سے بھی نیچے جاچکے ہیں اور نیم بنجرممالک کی صف میں کھڑے ہیں۔ اس کے باوجود پانی سے متعلق ہمارے ہاں ’’دلچسپی اور اہمیت‘‘ کا عنصر نہ تو سماجی سطح پر نظر آتا ہے اور نہ ہی سیاستدان اس بارے میں فکرمند نظر آتے ہیں۔

ہماری زراعت خطرات میں گھر چکی ہے، پینے والے پانی کی کمی کے اثرات شہری زندگی میں بھی نظر آنے لگے ہیں، کراچی شہر اور اسلام آباد دارالحکومت اس کے چیدہ چیدہ مظاہر ہیں، جہاں پانی ایک قیمتی شے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، ٹینکر مافیا نے کھیل کھیلنا شروع کردیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ دور جدید میں جہاں ’’مافیا‘‘ سرگرم عمل ہو جائیں، وہاں تمدنی صورت حال حادثات کا شکار ہو جاتی ہے۔ پانی کی کمی کہیں ہمیں بھی کسی بڑے حادثے کا شکار تو نہیں کرنے جارہی ہے، ذرا سوچئے۔

مزید :

رائے -کالم -