اپنا اپنا لالی پاپ

اپنا اپنا لالی پاپ
اپنا اپنا لالی پاپ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اس سال کا بجٹ…… واہ، کیا خوبصورت پیکنگ ہے،اور سب کے لئے لالی پاپ۔ پراڈکٹ جیسی بھی اچھی یا بری ہو، اچھی پیکنگ سے لوگوں کو خوش کر دیتی ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین اچھی پیکنگ میں کیسی بھی پراڈکٹ بیچنے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ اسی لئے ماضی کی حکومتیں بھی ان کی مہارت سے استفادہ کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت نے تو کمال ہی کردیا کہ بجٹ سے چند ہفتے پہلے اس وزیرخزانہ کو ہٹایا جسے کچھ دن پہلے ہی سینیٹ کا الیکشن لڑایا گیا تھا۔ اگر ڈاکٹر حفیظ شیخ یہ بجٹ دیتے تو وہ ایسی خوبصورت اور کارآمد پیکنگ کر ہی نہیں سکتے تھے، جس میں ایک طرف آئی ایم ایف،عالمی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، دوسرے عالمی مالیاتی ادارے، سٹیٹ بینک پاکستان وغیرہ بھی مطمئن ہوں اور دوسری طرف کارخانہ دار، صنعت کار، زمیندار، درآمد کنندہ، برآمد کنندہ، بینکار، اکاؤنٹ ہولڈر، تاجر، این جی اوز، سکول کالج ہسپتال چلانے والے، گاڑیاں خریدنے والے اور حتیٰ کہ سرکاری ملازمین اور پنشنر حضرات سبھی خوش ہوں کہ بالآخر ان کی بھی سنی گئی ہے۔ سب اپنا اپنا لالی پاپ لئے بچوں کی طرح خوشی سے اچھل رہے ہیں۔


نئے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس وصولی کا ٹارگٹ 58 کھرب 29 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو گذشتہ سال سے 25 فیصد زیادہ اور صریحاً ناقابل ِ عمل ہے، کیونکہ دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی ملک کی ٹیکس وصولی میں ایک سال میں 25 فیصد اضافہ نہیں ریکارڈ ہوا، لیکن کہنے میں کیا جاتا ہے، یہ 58کی بجائے 78 کھرب بھی کہہ دیتے تو کسی نے کیا بگاڑ لینا تھا۔ زبانی کلامی جو مرضی کہتے رہیں۔ پچھلے سال 26 جون کو پٹرول کی قیمت میں اچانک 26 روپے فی لٹر کا اضافہ کیا گیا تھا (عالمی قیمتوں میں انتہائی کمی کے باوجود) کیونکہ اس سال کلیکشن ٹارگٹ سے بہت کم تھی اور 40 کھرب کا ہندسہ عبور ہوتا نظر نہیں آرہا تھا، چونکہ دو دن بعد فنانس بل نے قومی اسمبلی کی منظوری اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد فنانس ایکٹ 2020 بننا تھا اس لئے قوم پر 26 روپے فی لٹر کا اچانک اضافہ کرکے یہ ہندسہ عبور کیا تھا۔ اگر نہ کیا جاتا تو کلیکشن گذشتہ سال سے بھی کم رہتی اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوتا کہ کسی بھی مالی سال کی کلیکشن گذشتہ سال سے کم ہوتی۔ پٹرول میں اضافہ کی نہ تو وزارت پٹرولیم یا اوگرا کی سمری آئی تھی اور نہ اقتصادی رابطہ کمیٹی یا کابینہ نے اس کی منظوری دی تھی۔ اس دن وزارت خزانہ نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعہ یہ اضافہ کیا تھا اور وزیر اعظم کو بھی اطلاع جہاز میں ملی تھی جو آزاد کشمیر کے لئے محو پرواز تھے۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کے تین سالوں میں ہر سال ایک سے زیادہ مرتبہ سپلیمنٹری فنانس بل (عرف عام میں منی بجٹ) آتا ہے جن میں نئے ٹیکس نہ لگانے کے تمام دعوؤں کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے جو موجودہ بجٹ پیش کیا ہے اس میں ٹیکسوں کی کلیکشن کا 58 کھرب روپے کا ٹارگٹ گذشتہ ٹارگٹ سے 12 کھرب زیادہ ہے۔ بجٹ میں بظاہر بہت سارے ریلیف دئیے گئے ہیں، جن میں مختلف شعبوں کے لئے ودہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس کے علاوہ مختلف درآمدات میں کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹیوں پر چھوٹ شامل ہے۔ یہ بہت خوش آئند ہوتا اگر وہ ساتھ میں یہ بھی بتاتے کہ ان رعایتوں کو دینے کے بعد 58ارب روپے کی کلیکشن کیسے ہو گی۔ بظاہر اس کا ذریعہ نہیں بتایا گیا،لیکن انتہائی غیر عملی بات یہ کی گئی ہے کہ انتظامی امور میں بہتری سے ریونیو میں اضافہ ہو گا۔ کوئی وزیر خزانہ صاحب سے پوچھے کہ  وہ کون سے انتظامی امور ہیں، جن کی بہتری سے 12کھرب روپے زیادہ اکٹھے ہوں گے۔ پچھلی دفعہ یعنی زرداری دور میں جب شوکت ترین وزیر خزانہ تھے تو اسی طرح ناقابل ِ عمل2009ء کا بجٹ پیش کیا تھا، لیکن جب اس کے مضمرات بھگتنے کا وقت آیا تو وہ 2010ء میں پتلی گلی سے نکل گئے تھے۔ اب اگر انہوں نے دوبارہ ایسا ہی کیا تو تبدیلی سرکار کا اگلے الیکشن میں کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔ وقتی طور پر ڈنگ ٹپانے سے ایسا ہی ہوتا ہے اور غلط یا فرضی اعدادو شمار عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں لا سکتے۔سر دست اتنا ہی عرض کرنا کافی ہو گا کہ جن لوگوں نے اب تک مہنگائی کا طوفان نہیں دیکھا تھا وہ آنے والے مہینوں میں دیکھ لیں گے۔ افراطِ زر کی شرح پہلے ہی تاریخی سطح پر ہے اور کئی ماہ سے اشیائے خوراک کا افراطِ زر 13 سے 15 فیصد چل رہا ہے،جو مزید بڑھے گا اور عوام کی چیخیں پہلے سے بھی زیادہ بلند ہوں گی،کیونکہ حکومت ڈیری پراڈکٹس، چینی اور اشیائے خوردنی پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کرنے جا رہی ہے۔ 


رواں مہینہ کے آخری دنوں میں وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش ہو گا۔ جہانگیر ترین گروپ کے ممبران قومی اسمبلی بجٹ کے حق میں ووٹ دیں گے، کیونکہ مک مکا پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ بہت زیادہ کام لینے کے بعد ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ نیشنل پولیس بیورو کا سربراہ پولیس سروس کا کھڈے لائن لگا افسر ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی ایسے تبادلے کئے جارہے ہیں، جن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس مک مکا کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں ایک دوسرے کو این آر او دے دیں گے اور بجٹ پاس ہو جائے گا۔ بجٹ پاس ہونے کے بعد عوام کے لئے پریشان کن دور اس وقت شروع ہو گا،جب حکومت پٹرولیم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرے گی اور اس کا عندیہ وزیر خزانہ شوکت ترین اپنی پوسٹ بجٹ میڈیا بریفنگ میں دے چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت شوکت ترین کو سینیٹر بنوائے گی، کیونکہ آئین کے مطابق وہ اکتوبر کے بعد وزیر خزانہ کی حیثیت سے کام نہیں کر سکتے۔میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا اور وہ خود تو زرداری دور کی طرح پتلی گلی سے نکل جائیں گے، لیکن عوام کے پا س لالی پاپ چوسنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔ یہ بجٹ ہی ایسا ہے، اپنا اپنا لالی پاپ۔

مزید :

رائے -کالم -