معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ تیرہویں قسط
کیسینو کا ماحول اور جوا کھیلنے کی عمر
ہمارے ذہن میں مغربی تہذیب کا شاید یہ نقشہ ہے کہ یہ لوگ مادر پدر آزاد ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ عیش و مستی کو ہی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں۔ مگراس معاملے میں ان کے کچھ اصول ہیں۔ ایک اصول یہ ہے کہ اپنے بچوں کے معاملے میں یہ لوگ حساس ہیں۔ جینا بش کے حوالے سے پیچھے بیان ہوا کہ شراب نوشی کی ایک عمر ہے۔ سگریٹ کی تفصیل اگلے باب میں کینیڈا کے حوالے سے آئے گی۔ عصمت فروشی(جسے اقوامِ متحدہ کی سرکردگی میں ایک باعزت پیشہ قراردلوائے جانے کی سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں اور اسکے لیے Commercial Sex Worker جیسی معزز نظر آنے والی اصطلاح استعمال ہورہی ہے) کے لیے بھی عمر کی حد اکیس برس ہے۔
معلوماتی سفرنامہ،’کھول آنکھ زمیں دیکھ‘۔۔ ۔ بارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جوئے کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ہر جگہ دھڑلے سے نہیں کھیلا جاتا۔عزیر بھائی نے مجھے بتایا کہ نیویارک میں کوئی کیسینو نہیں۔ وہاں کے لوگ یہیں آتے ہیں۔ ان تمام کیسینو ز میں بھی اکیس سال سے کم عمر لوگوں کا داخلہ منع ہے۔ ہمارے جیسے لوگ جو صرف گھومنے پھرنے آتے ہیں، مجبوراً اپنے بچوں کو دروازے پر لے کر بیٹھتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر بھی عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے ذہن میں جوئے خانے کا جو نقشہ تھا یہاں ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا۔ ہمارے جیسوں کے لیے تو یہ ایک گھومنے پھرنے اور تفریح کرنے کی جگہ تھی۔ شراب کے بار الگ بنے ہوئے تھے۔ ان میں کہیں کہیں گلوکار گانا سنارہے تھے۔کچھ ویٹرس جوئے کی مشینوں پر لوگوں کو مشروبات مہیا کررہی تھیں۔ لوگوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھنے کے لیے باقاعدہ کیمرے لگے ہوئے تھے اور فساد کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے خصوصی ملازمین ہاتھوں میں فون لیے گھوم رہے تھے۔
مغربی تہذیب کا دھوکا
میں ان کیسینوز میں تھا تو مغربی تہذیب کی کاریگری کی داد دینے پر خود کو مجبور پاتا تھا۔ تاہم بورڈ والک پر چلتے ہوئے ایک ایسا منظر دیکھا جس سے اندازہ ہوا کہ یہ تہذیب انسان کو اس طرح دھوکا دیتی ہے کہ اگر انسان سطح بین ہوتو افسانے کو حقیقت اور دنیا کو جنت سمجھ بیٹھے۔ ہوا یوں کہ ایک کیسینو کے باہر ایک بڑا سا نل دیکھا جو ہوا میں معلق تھا اور اس میں سے پانی نکل کر ایک دھار کی شکل میں نیچے گررہا تھا۔ لمحہ بھر کو میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا اور اسے قبول کرلیا۔ کیونکہ یہ بالکل حقیقت لگتا تھا۔ پھر خیال آیا کہ کوئی نل ہوا میں کیسے معلق ہوسکتا ہے۔بغور دیکھنے پر اصل صورتحال واضح ہوئی کہ زمین سے پلاسٹک کاایک گول پائپ اوپر آرہا تھا۔ اس کے اوپری سرے پر نل کا دہانہ لگا ہوا تھا۔ اس طرح اس پائپ کے سہارے نل ہوا میں معلق تھا۔ پائپ میں پانی نیچے سے اوپر کی سمت جارہا تھااور پائپ کے اوپر والے حصے سے، جس میں نل فٹ تھا، نکل کر پائپ کے ساتھ ساتھ نیچے گررہا تھا۔ پائپ چونکہ بے رنگ اور شفاف تھا اس لیے دیکھنے میں یہ تاثر بنتا تھا کہ نل سے پانی کی دھار نکل کر نیچے جارہی ہے۔یہ مغربی تہذیب کی پوری کہانی ہے۔ وہ معاملے کو بالکل الٹی سمت سے دکھاتے ہیں۔ اور اس کمال کے ساتھ دکھاتے ہیں کہ سطح بین آدمی اسے دیکھ کر یہ سمجھتا ہے کہ یہی حق ہے۔ چونکہ دنیا میں زیادہ تر لوگ سطح بین ہی ہوتے ہیں اس لیے یہ فکر دنیا کی غالب فکر بن چکی ہے۔بہرحال اٹلانٹک سٹی کا سفر ایک بہت خوشگوار سفر تھا۔ جس میں مجھے مغربی زندگی کے اس پہلو کے بغور مشاہدے کا موقع ملا۔
لیک جارج کا سفر
اگلے روز ہم لوگوں نے لیک جارج جانے کا پروگرام بنایا۔ اس جگہ کی وجۂ انتخاب اس کی فطری خوبصورتی تھی۔ یہ جھیل جسے امریکا میں جھیلوں کی ملکہ کہا جاتا ہے نیویارک ریاست میں ، نیویارک شہر سے تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ ہم دوپہر کے وقت روانہ ہوئے۔ راستے کے تمام پہلو کم وبیش وہی تھے جو کل اٹلانٹک سٹی جاتے ہوئے دیکھے تھے۔ البتہ ہریالی زیادہ دیکھنے کو ملی۔ نیزدریااور سرسبز و شاداب پہاڑ بھی راہ میں آئے۔ ہم جھیل پر پہنچے تو پانچ بج رہے تھے مگر چونکہ سورج ڈوبنے میں ابھی تین چار گھنٹے باقی تھے اس لیے کافی روشنی تھی۔ سورج چمک رہا تھا اور ایک خوشگوار سی ٹھنڈک چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔
قدرتی حسن کا شاندار نظارہ
اس وقت سیزن نہیں تھا اس لیے لوگ کافی کم تھے۔ موسم بہار اپنے شباب پر نہیں پہنچا تھا مگر اس کے باوجودجھیل فطرت کے حسن کا بہت اعلیٰ نمونہ پیش کررہی تھی۔ 32 میل طویل اس جھیل کو چاروں طرف سے پہاڑوں نے گھیر رکھاتھا۔مگر یہ اتنے بلند نہیں تھے کہ دم گھٹنے لگے جو بالعموم پہاڑی علاقوں کے دامن میں واقع جگہوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پہاڑوں کو سبزے کی تہہ نے مکمل طور پر ڈھک رکھا تھا۔جھیل کے اردگرد گھاس کے بڑے بڑے قطعات تھے جن کے اطراف میں درخت لگے تھے۔جھیل کے پرسکون پانی اور شور سے پاک ماحول نے فضا کو بہت مسحور کن بنادیا تھا۔ پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی مرغابیاں آنکھوں کو بڑی بھلی لگ رہی تھیں۔ہر طرف درختوں کی کثرت تھی جن پر آمدِ بہار کی علامت کے طور پر کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔ چاند کی پوری راتوں میں جب ہر طرف دودھیا روشنی پھیلی ہوتی ہوگی تو ایک چاند آسمان پراور دوسرا جھیل کے ہموار پانی میں اس کا عکس بن کر ظاہر ہوتا ہوگا۔ بلاشبہ یہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہوگا۔ نگہت باجی نے، جو پہلے بھی یہاں آچکی تھیں، مجھے بتایا کہ جب بہار اپنا اصل رنگ دکھاتی ہے تو یہاں کا نظارہ ناقابلِ بیان حد تک حسین ہوتا ہے۔ ہر طرف ہرے بھرے درخت نظر آتے ہیں۔ رنگ برنگے پھول ہر جگہ چھاجاتے ہیں اور سرسبزی و شادابی سے پوری وادی ڈھک جاتی ہے۔
فطرت کی ان تمام تر عنایات کے ساتھ انسانی کاوشوں نے سیاحوں کے لیے بہت ساری سہولیات مہیا کردی تھیں۔ جھیل کے اردگرد پکی سڑک تھی۔جس کے دونوں طرف کھانے پینے کے علاوہ دیگر چیزوں کی خریداری کی دکانیں تھیں۔ کچھ ریسٹورنٹ اور شراب خانے جھیل کے بالکل کنارے پر بھی تھے۔ آنے والوں کے لیے تفریح کی بہت سی چیزیں تھیں۔ کناروں پر دوربینیں لگی تھیں جن میں کوارٹر (25سینٹ) ڈال کر دور تک دیکھا جاسکتا تھا۔ ساحل پر بڑی بڑی کشتیاں کھڑی تھیں جو دو تین گھنٹوں میں لوگوں کو پوری جھیل گھمادیتی تھیں۔ دورانِ سفر جھیل سے متعلق پوری معلومات رواں تبصرے کی صورت میں سنائی جاتی تھیں۔ کشتی میں شراب کے بار اور کھانے پینے کی دکانیں بھی تھیں۔ جھیل کے ارد گرد کیمپنگ کی سہولت بھی دستیاب تھی۔ یہاں نہانے کے لیے باقاعدہ بیچ بھی بنی ہوئی تھی۔ تاہم سردی کا شکریہ کہ نہانے والے نہیں تھے۔ بڑی تعداد میں رہائشی ہوٹل بھی تھے، جھیل میں کشتی رانی اور یاٹنگ یعنی پردے والی کشی چلانے کی سہولت بھی تھی۔لوگ یہاں کئی کئی دن رہنے کے لیے آتے اور ان تمام تفریحات سے لطف اندوز ہوتے۔
انگریزوں کی حرام تجارت
ہم دیر تک جھیل کے پاس بیٹھے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ میری بھانجیاں پانی کے پاس کھیلتی پھرر ہی تھیں۔ عزیز بھائی پزا(Pizza) خرید کر لائے۔ وہ ہر جگہ اہتمام سے حلال پزا خریدتے تھے۔ جس میں کسی قسم کی حرام چیز نہیں ہوتی تھی۔ ذائقہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ حلال چیزوں کے ساتھ یہ بڑا مسئلہ ہے کہ جتنی زیادہ حلال ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ معمولی اور بے مزا لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر جائز آمدنی ، اپنی بیوی وغیرہ وغیرہ۔اس کے برعکس حرام کی لذت دو آتشہ ہوتی ہے۔ ایک اس چیز کا اپنا مزہ اور دوسرا اس کے حرام ہونے کا مزہ۔غالباََ نشاۃِ ثانیہ میں اہلِ یورپ کی سب سے بڑی دریافت حرام کی یہی ’’نشاطِ ثانیہ‘‘ تھی۔جس سے سرشار ہوکر وہ دوسروں کے مال ومتاع اور ملک و اقتدار کو غصب کرنے کی حرام تجارت کے واسطے اپنے ملکوں سے نکلے۔
ان میں سے کچھ اپنے برصغیر کی طرف گئے۔ انہوں نے کئی سو سال تک وہاں کے لوگوں سے تجارت کی۔ انہیں اپنی زبان،لباس، تہذیب اور تمدن دیا۔ بدلے میں ان کا ملک، دولت اور کوہِ نور ہیرالے لیا۔ لیکن وہاں کے لوگوں کو انگریزوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ بات یہیں تک محدود رہی اور انگریز تجارت سے فارغ ہوکر اپنے ملک واپس چلے گئے۔ وگرنہ اسی زمانے میں انگریز یہاں یعنی براعظم امریکا بھی آئے۔ یہاں کی تجارت کا نیٹ رزلٹ یہ رہا کہ مقامی لوگ اپنے ملک، زمین، مال و دولت سے مستقل طور پر ہاتھ دھونے کے علاوہ اپنی جانوں سے بھی گئے۔ انگریزوں نے بے گنتی مقامی باشندوں کو اپنی گولیوں سے ہلاک کیا اور جو اس طرح نہ مرسکے انہیں یورپی بیماریوں کے جراثیم کے حوالے کردیا۔جس کے نتیجے میں پوری پوری آبادیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔لاکھوں کی تعداد میں پائے جانے والے، اس براعظم کے تنہا وارث ، یہاں کے مقامی باشندے اب محض چند ہزار کی تعداد میں مخصوص علاقوں میں آباد ہیں۔ تاکہ ہمارے جیسے لوگ انہیں دیکھیں اور عبرت پکڑیں۔
امریکا میں ماں اور باپ کا دن
اسی دوران میری بڑی بھانجی ندرت نے جو پانچویں کلاس کی طالبہ ہے ، اپنی امی کے لیے بڑی محنت سے ایک بہت خوبصور ت کارڈ بنایا۔ یہ اسائنمنٹ اسے ماں کے دن Mother's Day کے موقع پراسکول کی طرف سے ملا تھا۔ امریکا اور یورپ میں ماں اورباپ کا دن بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ اس موقع کی مناسبت سے میڈیا پر خصوصی پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ لوگ خاص طورپر اپنے والدین سے ملنے جاتے ہیں۔ ان کے لیے خصوصی تحائف خریدتے ہیں۔کیبل اور انٹرنیٹ کے عام ہونے کے بعد یہ دن اب پوری دنیا میں منایا جانے لگاہے۔ مغرب میں یہ دن جس پس منظر کے تحت منایا جاتا ہے وہ یہ تھا کہ خاندانی نظام کمزور ہونے کے بعدانسانی رشتوں کا باہمی تقدس، احترام اور محبت اپنا مقام کھوچکے تھے۔ مگر اس کے نتیجے میں زبردست معاشرتی مسائل پیدا ہونے لگے۔ چنانچہ خاندان کے ادارے کو معاشرے میں فعال اور مؤثر بنانے کے لیے اس طرح کے دن وہاں منائے جانے لگے۔
میری وہاں موجودگی میں ہی یہ دونوں دن آئے۔ میں نے نوٹ کیا کہ باپ کے دن پر اتنا جوش و خروش نظر نہیں آیا جتنا ماں کے دن پر نظر آیا تھا۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ بڑا دلچسپ ہے۔ ایک پاکستانی کو امریکا میں کچھ مالی مسائل درپیش تھے۔ اس کے کسی جاننے والے نے اسے مشورہ دیا کہ ماں کا دن آرہا ہے۔ تم اس موقع پر تحائف اور گلدستے بیچنا۔ لوگ بڑی تعداد میں خریدیں گے اور تمہیں کافی فائدہ ہوگا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور کافی منافع کمایا۔ تھوڑے دنوں کے بعد باپ کا دن آیا تو اس نے سوچا کہ چلو اس دفعہ بھی یہی کام کرتے ہیں۔ اس نے پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں ان چیزوں کو بیچنے کا اہتمام کیا۔ مگر اس مرتبہ اس کی بہت ہی کم چیزیں بکیں اور اسے بہت نقصان ہوا۔ اس نے اپنے دوست کو بتایا تو اس نے کہا کہ ارے بیوقوف تم سے کس نے کہا تھا کہ باپ کے دن پر بھی یہ کام کرو۔ ان میں سے اکثر لوگوں کو اپنے باپ کا پتا ہی نہیں ہوتا تو اسے کیاخاک تحفہ دیں گے۔
خاندانی نظام: انسان کی ضرورت
یہ لطیفہ محض ایک لطیفہ ہی نہیں ایک سانحے کا بیان بھی ہے۔انہوں نے جنسی لذت کے حصول کے پیچھے خاندان جیسے قیمتی ادارے کو تباہ کردیا۔میں پچھلے باب میں ذکر کرچکا ہوں کہ اہل مغرب نے مادر پدر جنسی آزادی کی راہوں پر نہ صرف قدم رکھا بلکہ انسانی تاریخ کو اس انداز سے متعین کیاکہ جس کے نتیجے میں خاندان کے ادارے کی مستقل بنیاد ہی ختم ہوگئی۔ اس معاملے کے علمی پہلو پر میں آگے چل کر بحث کروں گا کہ انسان کے جس جسمانی اور ذہنی ارتقا کو ایک مسلمہ بناکر پیش کیا جاتا اوراس کی بنیاد پر جنسی آزادی اور مذہب بیزاری کا جواز تلاش کیا جاتا ہے، اس کی کوئی اساس ہے یا نہیں۔ لیکن یہاں اس پہلوکو سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جنسی آزادی اور خاندان کے ادارے میں عورتوں اور مردوں کو ہر اعتبار سے برابر حیثیت دینے کالازمی نتیجہ خاندان کی تباہی ہے۔
مذہبی پہلو کو ایک کونے میں رکھیے اور خالص انسانی نقطۂ نظر سے غور کریں تب بھی یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ انسان کا وجود جسمانی اور ذہنی طور پر اس قابل نہیں کہ کسی مستحکم چھتری کے بغیر اپنے منتہائے کمال کو پہنچ سکے۔یہ انسان کی اتنی فطری اور لازمی ضرورت ہے کہ انسان کے سر سے اس چھتری کو مکمل طور پر ہٹانا کبھی ممکن ہوا اور نہ کبھی ہوسکے گا۔ صرف اس چھتری کی شکلیں بدلنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔خاندان کا ادارہ سب سے بڑھ کر تحفظ کی یہ چھتری فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں گوشت کا ایک لوتھڑا کئی سالوں کی نگہداشت و تربیت کے بعد ایک طاقتور اور معاشرے کے لیے مفید انسان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
خاندان کی یہ فطری چھت چونکہ مذہب کی تجویز کردہ ہے اوروہ مرد کوخاندان کا سربراہ قراردیتا اور آزادانہ جنسی تعلق پر قدغن لگاتاہے، اس لیے اہل مغرب مذہب بیزاری میں اس سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے۔ لیکن چونکہ ضرورت فطری تھی اس لیے خاندان کی ذمہ داریوں میں اسکول اور اسٹیٹ کو شریک کردیا گیا۔جس کے بعد ماں باپ کی ذمہ داری کم تو ہوئی لیکن ان کے حقوق بھی کم ہوگئے۔ بظاہر یہ حل بہت شاندار ہے۔ لیکن اس میں چند بنیادی نقائص ہیں۔ اول یہ نظام صرف ان معاشروں میں قابلِ عمل ہے جنہیں ایک خاص حد تک مالی استحکام حاصل ہو۔ مغرب میں بھی یہ نظام عصر حاضر کی مادی فتوحات کے بعد ہی ممکن ہوا ہے۔جبکہ انسان امیر اور غریب معاشروں کی تفریق کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا دوسرا نقص یہ ہے کہ ا علیٰ ترین انسانی صفات یعنی ایثار، قربانی، محبت، حیا، وفاداری، انفاق ، رشتوں کا احترام اورتقدس اور ان جیسی دیگر خصوصیات جو صرف خاندان کی درسگاہ سے ملتی ہیں، ان سے ان کے بچے محروم رہ جاتے ہیں۔ بلکہ اکثر حالات میں جب وہ اپنے سر پر ماں باپ میں سے کسی ایک کا سایہ نہیں دیکھتے یاان کا تعلق ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی شخصیت پر اس کا منفی اثر پڑنا لازمی ہے۔
تیسرا نقص یہ ہے کہ یہ نظام جوانوں کے لیے ہے۔ ایک نوجوان جوڑے کے لیے یہ بات بہت اچھی ہے کہ بچے سارا دن اسکول میں رہیں جہاں انہیں اچھی باتیں سکھائی جائیں اور حکومت انہیں ماہانہ خرچہ دیتی رہے۔ لیکن وہ بچے ان ماں باپ کو بڑھاپے میں پلٹ کر کیوں پوچھیں گے جنہوں نے ذاتی عیاشی اور مزوں کے لیے انہیں اس شفقت اور محبت سے محروم رکھا جو قربانی کی زمین پر ہی جنم لیتی ہیں۔ لہٰذا ایک انسان کے لیے یہ نظام بچپن اور بڑھاپے دونوں میں گھاٹے کا سودا ہے۔کسی بھی معاشرے کی اکثریت بوڑھوں اور بچوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور اس نظام کا سب سے بڑا نقصان انہی کو ہوتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر یہ نظام عارضی طور پر تو کہیں چل سکتا ہے۔ لیکن مستقل بنیادوں پر اسے اختیار کرنا انسانیت کے لیے ممکن ہے نہ مفید۔
(جاری ہے. اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)