شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 32
تھوڑی دیر بعد ایک سیہی بھی گزری اور ایک شریر چمگاڈر نے میرے سر کے گرد چکر لگا لگا کر بڑی دیر تک مجھے تنگ کیا۔میرا ہاتھ ہلا کر اس کو بھگانے کی کوشش کرنا مناسب نہیں تھا،اس لیے اس کو خاموشی کے ساتھ دیکھتا رہا۔حتٰی کہ وہ خود ہی تنگ آکر کسی اور طرف اڑگئی۔
گیارہ بجے کے قریب مجھے اچانک شدید خطرے کا احساس ہوا۔۔۔ْ۔اور خود بخور جیسے رونگٹے کھڑے ہونے لگے ۔۔۔سامنے ستاروں کی روشنی میں میدان صاف نظر آرہا تھا۔
کیا آدم خور شیرنی قریب ہی تھے۔۔۔۔؟
میں سَن سے رہ گیا۔۔۔میں نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ اندھیرے میں مجھے نظر نہیں آتا،لیکن شیرنی کو تو ہر شے صاف نظر آرہی ہوگی۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے جھک کر اپنے نیچے دیکھنا چاہا مگر ممکن نہیں ہوا۔۔۔یااللہ!۔۔۔کس مشکل کا سامنا ہے۔۔۔اور پھر اچانک درخت تھر تھر ایا۔۔۔جیسے کسی غیر معمولی قوت نے اسے جھنجھوڑاہو۔۔۔میں نے ذرا تِرچھاہوکر بمشکل تمام پیچھے دیکھا اور عین وقت پر ہی دیکھا۔۔۔۔۔کیونکہ میری نظریں سیدھی شیرنی کی نظروں سے ملیں جو مجھ سے صرف تین فٹ نیچے تھیں ۔۔۔چمکتی ہوئی خوف ناک آنکھیں ۔۔۔آہستہ آہستہ اوپر اٹھ رہی تھیں ۔۔۔اور اب قریب تھا کہ وہ منہ پھیلا کر مجھے کولھے سے پکڑلے اور کھینچ لے۔۔۔
میں اس ہیئت سے حسب معمول تو فائر نہیں کرسکتاتھا،تاہم میں ایک ہاتھ سے درخت کی شاخ پکڑکر ذرا تِرچھاہوا۔۔۔رائفل شانے سے لگا کر دوسرے ہاتھ سے بمشکل سنبھالی اور دونوں آنکھوں سے ذرا نیچے فائر کردیا۔۔۔
ادھر فائر ہوا اور ادھر میں خود بھی ڈگمگا کر رائفل سمیت نیچے گر پڑا ۔۔۔چونکہ بلندی دس فٹ سے زیادہ نہیں تھی ، اس لیے معمولی سی چوٹ لگی۔گرتے ہی میں نے سب سے پہلے ٹارچ جلائی ۔مجھ سے دو فٹ کے فاصلے پر وہ خونخوار شیرنی پڑی تھی،جس کی آواز سن کر اس علاقے کے لوگ تھرا جاتے تھے۔میں نے فوراً اسی طرح پڑے پڑے شانے اور گردن کے جوڑ کا نشانہ لے کر دوسرا فائر کردیا۔۔۔مگر شیرنی نے حرکت نہیں کی ۔پہلی گولی ہی اس کے دماغ کے پرخچے اڑا چکی تھی۔
دوسرے فائر کے بعد مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میرا بھی دم نکل گیا ہے۔۔۔دیر تک اسی طرح پڑا رہا۔دس منٹ بعد حواس درست ہوئے تو رائفل دوبارہ لوڈ کی ،ٹارچ کی روشنی میں شیرنی کا اچھی طرح جائزہ لیااور پھر اطمینان وسکون کے ساتھ اسی وقت گاؤں کی طرف واپس ہوا تاکہ باقی رات چین کی نیند سو سکوں ۔۔۔
دوسرے دن صبح کو لوگ شیرنی کو اٹھالائے۔یہ نو فٹ دو انچ لمبی بوڑھی شیرنی تھی ۔کم از کم پینتالیس سال کی ضرور ہوگی۔آگے کا ایک دانت ٹوٹا ہوا تھا اور جسم بے داغ تھا۔اس کے آدم خور ہوجانے کی وجہ نہ معلوم ہوسکی۔
کھنڈرکا بھوت
چار پانچ سال کی عمر سے بیس اور اگر اچھی اوربہ افراط غذامیسر آجائے تو پچیس تیس سال تک شیر جوان رہتا ہے۔اتفاق سے کوئی دوست ،بھائی یا شادی کی خواہشمند شیرنی مل جائے تو اور بات ہے۔ورنہ یہ شیر بالعموم تنہا زندگی گزارتا ہے۔جوانی کا زور،قدرت کے سکھائے ہوئے داؤں پیچ ،فطری جبلت اور پھر ذاتی تجربات ،یہ سب شیر کے ممدومعاون ہوتے ہیں اور اس وقت تک کہ ضعفِ پیری اور قوٰی کے اضمحلال کے آثار نمایاں ہوں ،شیر ،نیل ،سانبھر،چیتل،سور،بکری،چکارہ اور کبھی کبھی سیہی کا شکار کرلیتا ہے۔
بغیر چند خاص حالات کے شیر پلے ہوئے مویشی پر نہ حملہ کرتا ہے نہ ان کی قربت ہی گوارا کرتا ہے۔ایسا کئی دفعہ ہوا کہ شیر بندھے ہوئے کھلگے کے قریب آیا ، گردگھوما اور واپس چلاگیا ۔گار انہیں کیا،اس کی وجہ یہی پلے ہوئے جانوروں کو نہ مارنے کی فطری عادت ہے۔
شیر کی عمر پچیس یا تیس سے تجاوز ہو تو قوٰی میں اضمحلال پیدا ہوجا تا ہے اور جنگل کے چست وچالاک اور تیز و طرار جانوروں کو پکڑنے اور گرانے میں اسے مشکل محسوس ہونے لگتی ہے۔ایسی حالت میں وہ عام طور سے زیادہ دوڑ دھوپ اور محنت ومشقت کے ناقابل ہوجاتا ہے۔اور ایسی مجبوراًکسی آبادی کے قریب جنگل میں آرہتا ہے۔گاؤں کے جو اکیلے دکیلے مویشی چرنے آتے ہیں ،ان میں سے ایک آدھ کو مار کر یہ بڑے میاں اپنے پیٹ کی آگ بجھالیتے ہیں۔
اس قسم کے شیر بعض حالات میں بڑی مصیبت بن جاتے ہیں اور غضب یہ کہ آرام وبے فکری اور بغیر محنت کی غذاکی وجہ سے بچہ کشی خراب ہونے لگتی ہے۔بچے بھی ابتدائے عمر ہی سے ماں اور باپ کی بد عادات سیکھ جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ جوان ہوکر جنگلی جانوروں پر گزار اکریں ،گاؤں کے سست اور کمزور مویشیوں کو مار مار کر کھانے لگتے ہیں اور جب عمرکا وہ حصہ آجاتا ہے ،جب مویشیوں کو مارنا بھی گِراں گزرنے لگتا ہے تو پھر بکری اور اس کے بعد آدمی ہی وہ آسان شکار ہے،جس کے مارنے میں کسی خاص قوت یا چلت پھرت کی ضرورت نہیں ،صرف عیاری کا کام رہ جاتاہے ۔لہٰذااب آدم خوری کا زمانہ شروع ہوجاتاہے۔
پھر بھی ہر شیر کا اس عمر میں آدم خور ہوجانا ضروری نہیں ۔کیونکہ آدم خوری کی وجوہ عمر کی زیادتی کے علاوہ اور بھی ہوسکتی ہیں ،جیسا کہ جھومری کے آدم خور کے قصے میں آپ پڑھیں گے کہ وہ شیر صرف اتفاق سے انسان کو مارنے پر مجبور ہوا اور جب اس کے خون اور گوشت کے ذائقے اور کم طاقتی کا راز اس پر کھلا تو پھر اس کے آدم خور ہوجانے میں دیر نہیں لگی۔(جاری ہے )