شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 31
ندی پار کر کے میں دوسرے کنارے پرنکلا ہی تھا کہ سامنے کی جھاڑیوں میں سے ایک چنکارہ نکل کے بھاگا۔یہ بہت نیک فال ہے۔کم از کم میں اس کو بہت مبارک سمجھتا ہوں۔میں جنگل میں داخل ہو کر آگے بڑھتا گیا۔۔۔چرونجی کا پھل اس زمانے میں بہار پر تھا۔بار بار دل چاہتاتھا کہ ٹھہر کر کچھ پھل کھاؤں ،لیکن اس کا موقع نہیں ملا۔پھر بھی چلتے چلتے میں نے چند پھل توڑ کر منہ میں ڈال ہی لیے۔وہ دن جنگل میں گھومتے ہی گزر ا ۔کئی وادیاں ،پہاڑیاں اور نالے دیکھے ،لیکن وہ جگہ کہیں نظر نہ آئی ،جہاں اس شیرنی کے تازہ ماگھ ملتے۔میں نر اور مادہ کے ماگھ میں تمیز کر لیتاہوں ۔اب تک میں نے جتنے ماگھ دیکھے ،وہ پرانے بھی تھے اور ان میں سے اکثر شیر کے تھے۔تین بجے میں گاؤں کی طرف واپس ہوااور زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ ایک نالے کے کناروں پر ،جہاں نرم ریت اور مٹی پھیلی ہوئی تھی،شیرنی کے بالکل تازہ ماگھ نظر آئے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی چیز گھسیٹی ہو۔
یقیناً شیرنی نے کوئی جانور مارا تھااور اسے گھسیٹ کر لے جارہی تھی ۔میں نے گاڑی کی طرف دیکھا۔تین بج کر دس منٹ ہوئے تھے ۔عام طور سے یہ شیرکے باہر نکلنے اور جانور کو مارنے کا وقت نہیں ہوتا،لیکن یہ شیرنی عام شیرنی نہیں تھی۔یہ آدم خور تھی۔کیونکہ آدم خور شیر ہی سے اس قسم کی خلافِ معمول حرکات کی توقع کی جاسکتی ہے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ماگھ اور گھسیٹنے کے نشانات نالے کی نرم سطح پر آگے بڑھتے گئے تھے۔میں بالکل غیر ارادی طور پر رائفل کے گھوڑے چڑھا کر ان نشانات کی مدد سے شیرنی کا تعاقب کرنے لگا۔نالے کے اندر جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔عام شیر کے تعاقب میں بالعموم اور آدم خور شیر کا تعاقب کرتے وقت بالخصوص اونچے کنارے والے نالے کے اندر ہرگز نہیں جانا چاہیے،کیونکہ ہر لمحہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ شیر کسی کنارے سے اچانک نہ کودپڑے اور اگر ایسا اتفاق ہو تو اس کے حملے سے بچنا انسان کے بس کی بات نہیں ۔
میں نالے کے کنارے کنارے صرف اس لیے جارہا تھا کہ کنارے نہ تو اونچے تھے اور نہ وہاں ایسی جھاڑیاں تھیں کہ شیر چھپ سکے ۔کنارے سے تیس گز کے فاصلے تک کوئی اور چھپنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔نالے کے دونوں کناروں پر میں تقریباً سو گز تک بخوبی دیکھ سکتا تھا۔درخت ضرور تھے،لیکن ایک دوسرے سے فاصلے پر۔
تقریباًایک فرلانگ چلنے کے بعد شیرنی نالے کا کنارا چھوڑ کر جنوب کی طرف مڑگئی تھی۔میں یہاں آکر ٹھہر گیا۔جس جگہ شیرنی مڑی تھی،وہاں گھنی جھاڑیاں بھی تھیں اور کروندے کے درختوں کی جھکی ہوئی شاخوں نے دیوار سی بنا د ی تھی۔جس سے دور تک دیکھنے کا امکان نہیں رہا تھا۔۔۔ادھر شام آرہی تھی اور گاؤں کا فاصلہ یہاں سے کسی طرح چار میل سے کم نہیں تھا۔دو تین لمحے میں تذبذب میں رہا کہ شیرنی کا مزید تعاقب کروں یا واپس چلوں آخرکار اس واپس جانا ہی بہتر معلوم ہوا۔اگرچہ اس واپسی کا افسوس بہت ہوا ۔محض اتفاقاًمیں شیرنی سے بالکل قریب آگیا تھا۔اگر ذرا وقت ہوتا تو اس کو ڈھونڈ کر ہلاک کردینا آسان تھا۔
اس رات شیرنی کی آواز نہیں آئی ۔۔۔میرا خیال ہے کہ گزشتہ شام اچھی طرح سیر ہوکر کھالینے کے بعد اس نے کسی دوسرے علاقے کوتاکا ہوگا۔۔۔دوسرے روز بھی میں جنگل میں گھومتا رہا۔لیکن کوئی نیا ماگھ نظر نہیں آیا۔اسی طرح جب پانچ روز گزر گئے تو مجھے بے چینی شروع ہوئی۔۔۔میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔۔۔
میں نے گاؤں سے ایک بچھڑا خریدا اور میں اور دلاور بچھڑے کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف چل دیے۔اب یہی سہل ترکیب رہ گئی تھی۔گاؤں سے تین میل جنوب مشرق کی طرف ایک نالہ تھا۔نالے کے کنارے پیپل کا درخت تھا۔اس درخت سے ذرادور،جانوروں کی ایک گزرگاہ پر میں نے بچھڑا بندھوادیااور پھر گاؤں واپس آگیا۔
دوسرے روز صبح صبح وہاں اس امید کے ساتھ پہنچا کہ گارا ہوگا،لیکن بچھڑا صحیح سالم موجود تھا۔دلاور نے بچھڑے کو کھول کر چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔اور میں ایک درخت کے تنے سے پشت لگا کر بیٹھ گیا۔سہ پہر تک ہم لوگ وہیں رہے ۔پھر بچھڑے کو گزشتہ شب والی جگہ پر باندھا اور گاؤں واپس آگئے۔۔۔غرض کہ اسی طرح سات روز امید وبیم کے عالم میں گزرے۔ایک روز تو شیرنی بچھڑے سے صرف چار گز کے فاصلے سے دو مرتبہ گزری ،لیکن خدا جانے اس بچھڑے کو کیوں نہیں مارا۔
آٹھویں روز تنگ آکر میں نے بچھڑے کو وہاں سے کھلوا کر ڈیڑھ میل آگے ایک شاداب وادی میں چھوڑ دیا اور دلاور کو گاؤں واپس روانہ کرکے خود تمام دن ایک درخت کی آڑ میں چھپ کر انتظار کرتا رہا۔بچھڑا بھی کم بخت ایسا نڈر اور لاپروا تھاکہ شام کے وقت کھاپی کر ایک کھلی جگہ آرام سے بیٹھ کر جگالی کرنے لگا۔
شام ہوتے ہی مجھے کسی کمین گاہ کی جستجو شروع ہوئی۔ارد گرد کوئی بڑا درخت نظر نہیں آیا۔چونکہ بچھڑا اس جگہ بیٹھ گیا۔اس لیے ضروری تھا کہ میں بھی کہیں بیس پچیس گز کے اندر ہی رہوں۔جب کوئی اور صورت نظر آئی تو میں ایک چھوٹے سے شریفے کے درخت پر چڑھ گیا اور گھنے پتوں پر چھپ کر بیٹھ گیا ۔جس شاخ پر میں بیٹھا تھا وہ زیادہ موٹی نہیں تھی،لیکن میرا وزن سنبھال سکتی تھی۔اس تگودومیں کافی وقت گزر گیا۔اور جب میں شاخ پر بیٹھا تو اندھیراہوگیاتھا۔
میں تقریباًنیم دراز تھا۔۔۔دونوں پیر سامنے کی شاخ میں اڑے ہوئے تھے اور میں ان دونوں شاخوں کے درمیان پھنسا ہوا رائفل دونوں ہاتھوں میں سنبھالے بچھڑے کو دیکھ رہا تھا ۔وقت اس قدر سست رفتاری کے ساتھ گزر رہا تھا،جیسے زمین کی حرکت میں اچانک کمی آگئی ہو۔ایک دفعہ درخت کے نیچے سے آٹھ دس جنگلی سُورگزرے ۔بچھڑے کو دیکھ کر رکے،پھر ذرارخ بدل کر نکلے چلے گئے۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ بچھڑے پر نہ تو جنگل کے سناٹے کا اثر تھا نہ کسی جانور کے آنے جانے کا۔ممکن ہے ،اس نے مجھے دیکھ لیا ہواور جانتا ہو کہ اس کا محافظ کہیں قریب ہی موجود ہے۔(جاری ہے )