شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 30
میں نے اس موقعے کو تائید غیبی خیال کیا اور فورََا ہی شیر کی گردن اور شاخوں کے جوڑے کے قریب کا نشانہ لے کر ٹریگر دبادیا۔شیر نے ایک گرج دار آواز نکالی اور زمین سے چار پانچ فٹ اْچھلا۔میں نے جھٹ ہاتھ کی خالی رائفل رکھ کر تین سو پچھتر میگنم اْٹھالی۔اْدھر شیر زمین پر گرا،ادھر میری رائفل سے نکلی ہوئی دوسری گولی اس کے سینے میں اتر گئی۔چشم زدن میں مَیں نے بولٹ کھینچا۔دوسرا کارتوس چمبر میں آیا اور میں نے دل کی طرف جانے والی لائن کا اندازہ کر کے تیسرا فائر کر دیا۔لیکن میرے آخری دونوں فائر غیر ضروری تھے۔کیونکہ شیر پہلی گولی ہی سے ختم ہوچکاتھا۔
گاڑی بان نے کود کر بیلوں کی ناتھیں پکڑلیں۔حالانکہ میں چیختا ہی رہا کہ کم بخت گاڑی سے نہ اْتر ،لیکن وہ شیر کو گرتے دیکھ کر نڈر ہو چکا تھا۔ذرا دیر تو میں گاڑی پر گم سم بیٹھا رہا۔
اس کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ چارسو پچاس رائفل اٹھا کر دوبارہ لوڈ کی اور گاڑی سے اترا۔شیر بے حس وحرکت پڑا تھا۔پھر بھی دلاور نے تین چار پتھر پھینک کر اطمینان کر لیا۔یہ آٹھ فٹ نو انچ لمبا نوجوان شیر تھا۔دوسراشیر جسے میں نے اس سے پہلے مارا تھا،وہاں سے پچاس گز دور پڑا ملا۔وہ آٹھ فٹ چھ انچ لمبا تھا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 29 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان کی ماں یا تو ساتھ تھی ہی نہیں یا بچ کر نکل گئی۔اگرچہ سارے فساد کی جڑوہ بڑی بی ہی تھیں اور ان کی ہلاکت ان دونوں کی ہلاکت سے زیادہ ضروری تھی۔
دونوں شیروں کو ہم تینوں نے مل کر بمشکل تمام گاڑی پر ڈالا اور جھولابن کی طرف روانہ ہوگئے۔اب گاؤں تھا ہی کتنی دور۔فائروں کی آواز سن کر دس بارہ مسلح آدمی واقعہ معلوم کرنے کی غرض سے ادھر آرہے تھے۔انھوں نے شیروں کو دیکھا تو خوشی سے ناچنے لگے اور میرے انتباہ کے باوجود وہ نوجوان شور کرتے اور شیروں کی گزشتہ و آئندہ پشتوں کو رسوا کرتے گاؤں کی طرف بھاگے تاکہ گاؤں والوں کو یہ خوشی خبری سنائیں۔چنانچہ جب ہم گاؤں کے قریب پہنچے تو وہاں ایک ہجوم جمع تھا جو ہم لوگوں کو جلو س کی شکل میں گاؤں لے گیا۔یہاں شیروں کو چوپال میں ڈال دیا گیا اور گاؤں کے ہر نوجوان ،بوڑھے،بچے اور عورت نے ان کی زیارت کی۔
گاؤں کے کچھ لوگوں کا میرے بارے میں خیال تھا کہ صاحب کو یقیناً کوئی جادو یا عمل آتا ہے،جس سے صاف شیر کامنہ ’’کیل ‘‘دیتے ہیں۔
میں گاؤں کے مکھیا جگن ناتھ کے گھر ٹھہرا تھا۔اس نے آبادی کے کنارے سے اپنا ایک مختصر ،لیکن صاف ستھرا مکان میری رہائش کے لیے خالی کرادیاتھا۔ایک دن رات کی نیند نہ آنے کی وجہ سے میں بستر پر لیٹا ایک رسالہ دیکھ رہا تھا کہ تقریباً دو میل کے فاصلے پر ایک شیرنی کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔آواز پھر آئی اور میں نے اندازہ کیا کہ شیرنی قریب کے جنگلوں میں اپنے ساتھی کو تلاش کرتی پھر رہی ہے۔وہ بہار کا زمانہ تھا۔اس زمانے میں مادہ کو نر کی جستجو ہوتی ہے۔ممکن ہے وہ دونوں شیر جن کو میں نے اسی روز ہلاک کیا تھا،یہ نعرہ سن کر لبیک کہتے ہْوئے حاضر ہو جاتے ،لیکن ان کو عین وقت پر موت نے آدبوچا۔
میں نے یہ اس لیے بتایاکہ میں شیر کی مخلف آوازوں میں تمیز کر سکتا ہوں۔بچھڑے ہوئے ساتھی کو بلانے کی آواز دوسری ہوتی ہے اور شادی کے ارادے سے کسی سر پھرے عاشق کو پکارنے کی آواز دوسری جو آواز میں سن رہا تھا،وہ بچھڑے ساتھی کو پکارنے کی آواز نہیں تھی ،بلکہ بیاہ رچائے کی آواز میں ڈوبی ،جذبات حیوانی سے مملو اور نشہ شباب سے سر شار آواز تھی۔
شیر اگر مادہ کی ضرورت کی تکمیل کر سکتا ہے اور اس کو بھی قدرت کسی رفیقہ کی ضرورت پر اکسارہی ہوتی ہے تو وہ فورََا اس نعرے پر لبیک کہتا ہے۔میں نے محض ایک اتفاق کی بنا پر ایک عجیب وغریب واقعہ دیکھا ہے۔ایک دفعہ ایک شیرنی کے نعرہ مستانہ کے جواب میں دو شیر جمع ہو گئے اور ان میں محبوبہ کے حصول کے لئے تمام رات نہایت خوفناک جنگ ہوئی۔صبح سے ذرا قبل ایک دعوے دار شدید زخمی ہو کر پسپا ہو گیا۔اور دوسرافورََا شیرنی کو ساتھ لے کر ایام غسل منانے کسی اور قطعہ صحرا کی طرف چل دیا۔اس آواز کو سن کر یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ یہ وہی خونخوارو عیار بڑی بی ہیں ،جن کے تین آدم خور بچوں کو میں ہلاک کر چکا ہوں یا کوئی اور شیرنی ہے۔اگر بڑی بی ہی تھیں تو بار بار باسی کڑھی میں اْبال آنا تعجب خیز تھااور اگر کوئی دوسری شیرنی تھی تو پھر بڑی بی کدھر نکل گہیں ؟
رات کو میں کسی دفعہ سوتے سوتے جاگ اْٹھا۔اس دوران میں ایک دوبار شیرنی کی آواز آئی اور مجھے یہ جان کراطمینان ہوا کہ وہ ان ہی جنگلوں میں موجود ہے۔صبح سے ذراپہلے میری آنکھ کھلی تو شیرنی کی آواز ندی کے دوسرے کنارے سے آئی جس کا فاصلہ مشکل چھ فرلانگ ہوگا۔اس کے بعد نہ میں سویا نہ آواز ہی آئی۔
فجر کی نماز سے فارغ ہو کر میں جنگل جانے کو تیار ہوگیا۔دلاور کو معلوم تھا کہ میں نماز کے بعد ہی ناشتا کرتا ہوں،لہذا چند ہی منٹ بعد ناشتا آگیا۔خالص گھی میں تلے ہوئے نرم وگرم پراٹھے ،انڈوں کا آملیٹ ،بھنے ہوئے مرغ کے گوشت کی دس بارہ بوٹیاں ،ناشتا کیا کھانا ہی تھا،کیونکہ شکار کے دوران میں ہمیشہ بھاری ناشتاکرتا ہوں تاکہ اگر تمام دن جنگل میں رہنا پڑے اور کھانے کو کچھ میسر نہ آئے توتکلیف نہ ہو۔
ناشتے سے فارغ ہوکر میں نے اپنی چارسوپچاس بور کی رائفل میں کار تو س رکھے۔کوٹ کے کالر کے نیچے لگے ہوئے کارتوسوں پر ایک نظر ڈالی۔کمر کی بیلٹ میں لگے ہوئے چھرے کو دیکھا۔ریوالور میں گولیاں بھر کر اس کو کمر میں لگایا اور گاؤں کے کھیتوں میں سے گزرتا ندی کی طرف چل دیا،جس کے دوسرے کنارے پر پھیلے ہوئے جنگل سے کل رات شیرنی کی آواز آئی تھی۔(جاری ہے)