شیخ مجیب پر مقدمہ چلایا گیا، وکیل منتخب کرنے کیلئے کہا گیا تو اے کے بروہی مرحوم کا نام لیا، بروہی نے حکومت کی تحریری یقین دہانی پر وکالت کی
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:85
25 مارچ 1971ء کو انہیں گرفتار کر کے پاکستان لایا گیا۔ پہلے فیصل آباد جیل میں بعد میں میانوالی جیل میں رکھا گیا۔ ان پر مقدمہ چلایا گیا اور اُنہیں وکیل منتخب کرنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے جناب اے کے بروہی مرحوم کا نام لیا۔ جناب اے کے بروہی سے جنوری 1976ء میں لاہور میں انٹرویو کیا گیا۔ ان سے سوالات شروع کئے گئے تو انہوں نے ابتداء میں ہی وضاحت فرمائی کہ:
”مجھے شیخ مجیب الرحمن نے وکالت کے لئے منتخب کیا تھا۔ حکومت پاکستان نے کہا تھا کہ شیخ صاحب پر مقدمہ چلانا ہے۔ اُنہیں وکیل کی ضرورت ہے اور وہ آپ کو اپنا وکیل بنانا چاہتے ہیں۔ جس پر میں نے حکومت پاکستان کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ شیخ مجیب الرحمن نے اگر مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے تو میں اُن کا ممنون ہوں۔ مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ شیخ مجیب کا مقدمہ لڑنے کے بعد حکومت مجھ سے محاسبہ شروع کر دے۔ اس لئے مجھے بتایا جائے کہ اس مقدمہ کی وکالت کرنے کے بعد میرے ساتھ حکومت کا رویہ کیا ہو گا؟“
اس پر حکومت کی طرف سے جناب بروہی کو یقین دلایا گیا کہ شیخ مجیب کی وکالت کرنے کے سلسلہ میں اُن پر کوئی ذمہ داری نہ ہو گی۔ حکومت چاہتی ہے کہ آپ اُنہیں قانونی مدد فراہم کریں۔ جناب اے کے بروہی مرحوم نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کی تحریری یقین دہانی پر شیخ مجیب الرحمن کی وکالت کی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جب شیخ مجیب الرحمن سے ملے تو شیخ نے بڑی گرم جوشی سے میرا استقبال کیا اور کہا کہ حکومت نے ان کا مطالبہ مان لیا ہے۔ جناب اے کے بروہی نے بتایا کہ شیخ مجیب الرحمن سے جب میں نے کہا کہ آپ اپنا بیان مجھے ریکارڈ کرائیں تو شیخ صاحب نے کہا:
1:میں غدار نہیں ہوں۔
2:میں کسی کاغذ یا وکالت نامہ پر دستخط نہیں کروں گا۔
3:میں آپ کا کلائنٹ ہوں، آپ نے مجھے مکمل دفاع فراہم کرنا ہے۔
اس پر جناب بروہی نے متعلقہ حکام کو اس صورتحال سے آگاہ کیا تو حکومت کی طرف سے اُنہیں اجازت دی گئی کہ وہ اپنے کلائنٹ کی خواہش پر اپنا کام کریں۔
شیخ مجیب الرحمن آخر وقت تک یہ کہتے رہے کہ وہ غدار نہیں مگر انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا وہ بنگلہ دیش کی تخلیق کو پسند نہیں کرتے بلکہ انہوں نے اپنے معاشی ماہر ڈاکٹر تاج الدین کو کہا کہ پاکستان کی حکومت کے لئے ان تمام محرومیوں کی فہرست اور معاوضہ کے اعداد و شمار بنائے جائیں جن کی بنیاد پر پاکستان سے معاوضہ طلب کیا جا سکے اور جناب تاج الدین نے اس سلسلہ میں جو مالی طومار باندھا تھا وہ کئی ہزار ارب ڈالرز کا تھا۔ اس وقت کے ایک ماہر معیشت نے اس طومار کا حساب کرتے ہوئے بتایا کہ یہ رقم پاکستان کے 25 سال کے مجموعی بجٹ سے بھی کئی گنا زائد تھی بلکہ شیخ مجیب الرحمن کا ایک بیان پاکستان اور عالمی اخبارات کے ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو صدر پاکستان کے ایک بیان کے جواب میں کہا کہ اگر پاکستان کے لیڈروں نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا تو میں مغربی پاکستان کے صوبوں کے گورنر نامزد کر کے بھیج دوں گا۔ جس کا مغربی پاکستان کے لیڈروں نے خیر مقدم کیا مگر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ حتیٰ کہ جب بھٹو مرحوم بنگلہ دیش کے دورہ پر آئے تو وہ برصغیر کے ممتاز شاعر اور ترقی پسند لیڈر جناب فیض احمد فیض کو ہمراہ لے کر آئے تاکہ اگر شیخ مجیب الرحمان کی حکومت ذرا نرمی دکھائے تو بنگلہ دیش میں پاکستان کا پہلا سفیر یا ہائی کمشنر جناب فیض احمد فیض کو نامزد کر دیا جائے مگر شیخ مجیب نے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لئے بھی مزید وقت مانگا اور فیض صاحب سے باتیں کرتے ہوئے درخواست کی کہ آپ کچھ شاعری ہمارے لئے بھی کریں جس پر فیض صاحب نے ایک غزل اس سلسلہ میں لکھی۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش بنانے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ البتہ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے نائبین کو زیادہ نمایاں کیا اور خود اُن کے پیچھے چلتے رہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔