ہم خواتین کے دشمن یامحافظ؟
جب عورت کانام لبوں پرآتاہے تو پھرہمیں ماں،بہن،بیٹی کاتصورکیوں نہیں آتا،معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی کے تناظرمیں جب جائزہ لیاجائے توایسا کیوں لگ رہاہے کہ عورت کوصرف جنسی تسکین کاہی آلہ سمجھ لیاگیاہےاوریہ تسکین بھی مرداپنی مرضی کے وقت اورخواہش کے مطابق عورت سے حاصل کرناچاہتاہے چاہے اس کے لیے اسے اپنی درندگی ہی کیوں نہ دکھاناپڑے،چاہے اس کے لیے اسے صنف نازک کوقتل ہی کیوں نہ کرناپڑے اورانسانیت کی تمام حدیں عبورکرکے حیوانیت کوبھی شرمسار ہی کیوں نہ کرناپڑے۔
موجودہ حالات میں معاشرے کے بعض افرادکایہ بھیانک چہرہ آنے والے خوفناک بگاڑ کی طرف اشارہ کررہاہے۔ ویسے توالیکٹرانک،پرنٹ میڈیا اورسوشل میڈیا کے صفحات ایسی دلخراش خبروں سے ہمہ وقت بھرے نظرآتے ہیں مگرکچھ واقعات زیادہ اجاگرہوجاتے ہیں اورپھر ہرطرف یہی داستان غم کانوں میں پڑتی ہے ،پھرعجیب سی کیفیت ہوجاتی ہے اوردانشمندانسان سوچنے پرمجبورہوجاتاہے کہ آخر بنت حوا کواتناکمزورسمجھ کرزیادتیوں کے پہاڑ کیوں گرائے جارہے ہیں؟
جب سے سانحہ موٹروے ہواہےمجھے موٹروے سے رات کے سفرسے خوف آناشروع ہوگیاہے کیوںکہ میری عادت ہے کہ ویک اینڈپرلانگ ڈرائیوپرنکل جانا اورپھرمنزل پررات کے اندھیرے میں پہنچنا،اس افسوسناک واقعہ کے بعدمیری ہمت نہیں پڑرہی کہ کبھی رات کاسفرکروں مگررات کے سفربعض دفعہ انسان کی اپنی خواہش سے نہیں ہوتے،کبھی مجبوری اورکبھی انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں بھی ہوتے ہیں جب آپ کو کسی لمبے سفرپرنکلنا پڑتاہے،یہ سفرموٹروے کاہوسکتاہے یاپھرجی ٹی روڈاورلوکل سڑکوں پربھی ہوسکتاہے،بعض دفعہ یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ سفر دن کے اجالے میں ہی ختم ہوجائے ،کبھی انسان دن رات مسلسل بھی سفرمیں ہوسکتاہے،تویہ ایک پریشان کن صورتحال ہے کہ پھرکیاکریں؟
کیاہم سفرچھوڑدیں؟سفرچھوڑنے کامطلب پھریہی ہوگا کہ آپ تارک الدنیا ہوجائیں،آپ کی زندگی میں نہ کوئی رشتے دار ہو،نہ کوئی دوست ہو،نہ آپ سسرال جائیں،نہ بہن بھائیوں کی خوشی غمی میں جائیں،گویا کہ آپ سب سے قطع تعلق ہوجائیں مگراس دنیامیں کیاایسا کرناممکن ہے؟۔۔یقینا ایساکرنانہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے،جب تک زندگی ہے سب رشتے ناطے نبھانے پڑتے ہیں اور اس کے لیے سفرمجبوری ہے،اس مجبوری میں تحفظ بھی ضروری ہے جس کااحساس حالیہ واقعہ کے بعدختم ہوچکاہے،اوپرسے پولیس کے اعلیٰ افسرکے غیرسنجیدہ بیانات نے مزیدعدم تحفظ کی فضاقائم کردی ہے۔کیاہی اچھا ہوتا جب ایک خاتون پٹرول ختم ہونےکی وجہ سےرات کےوقت پریشان تھی توکوئی شہری اس بہن کی مددکرتے،اسےپٹرول لانےمیں مدد کرتے یاپھر مدد آنے تک اس کی حفاظت کی خاطر اپناکردار اداکرتےمگریہاں توانسان ہی انسان کی عزت کادشمن ہے،جوکسی انسان کی بہن ہے،بیٹی ہے اور کسی کی ماں ہے اسے بھی وہی عزت دیتے،مگررات کے اندھیرے میں مجبوراورتنہاپاکرصنف نازک کیساتھ وہ کھیل کھیلاگیاکہ جس کے بعدان عناصرکوانسان کہنابھی مناسب نہیں کیوں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ رتبہ اسے ایسے گناہ سرزدہونے کے بعددینا تو بالکل مناسب نہیں،جسے اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے وہ یوں کسی کی بہن ،بیٹی کو بے آبرونہ کرتے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں قوم میں شعورنام کی کوئی چیزنہیں،انسانیت ختم ہوچکی ہے اور اوپرسے قانون کی گرفت ایسے عناصر پراتنی کمزورہے کہ مجرم کو سو فیصدیقین ہوتاہے کہ وہ بڑے سے بڑا جرم کرکے بھی خود کومعصوم ثابت کرلے گالہذا جو دل میں آئے کرتے پھرو۔۔ پھرہمارے پاس کیاحل ہے؟ہم ایسے واقعات کی روک تھام کیسے کرسکتے ہیں؟کیاہم ہرایسے واقعات پراپنے حصے کارونا روکر،سوشل میڈیاپردوچارپوسٹیں ڈال کر،کسی کولعن طعن اورکسی کوگالیاں دے کراپناکرداراداکریں گے اورپھراگلے کسی سانحہ کاانتظارکرتے رہیں گے؟کیاصرف پولیس کوگالیاں دینے،سسٹم کوبرا بھلاکہنے ،یامتاثرہ خاتون کی اپنی غلطی، اس کے اہل خانہ کی غفلت کہہ کرکے ساراگناہ اسی کاقراردیتے رہیں گے؟
کیاہم کچھ ایسانہیں کرسکتے جس سے آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو؟ہم نے گزشتہ کئی سالوں کے دوران بے شمارایسے غم سہے،ہم نے قصورمیں بچوں کی زیادتیوں کوبھی نظراندازکردیا،ہم نے زینب کے قاتل کی پھانسی کے بعدخاموشی اختیارکرلی،کیاہم نے یہ کبھی سوچا کہ ایسی سوچ اورایسے جرائم کاہمیشہ کے لیے راستہ روکنے کے لیے کچھ کرناہے؟ممکن ہے کہ کچھ اجلاس ہوئے ہوں،ممکن ہے کچھ تجاویز آئی ہوں،ممکن ہے اداروں کوسخت احکامات جاری ہوئے ہوں اوراس حوالے سے خبریں بھی آپ کی نظرسے گزری ہوں لیکن وقت نے ثابت کردیاہے کہ ہم اپنے ہی بچوں کی حفاظت نہیں کرسکتے،ہم اپنی بہنوں اوربیٹیوں کو درندوں کے سامنے بے بس چھوڑرہے ہیں۔
ہم نے سیف سٹی پروجیکٹ پراربوں روپے تولگادیئےلیکن مانیٹرنگ کانظام ایسانہ بناسکے کہ جس کے ذریعے ہمارے اہلکارمجرم کوفوری پکڑسکیں اورمظلوم کی عزت تارتارہونے سے قبل ہی اس کی داد رسی کرسکیں،ہم ایسانصاب نہ تیارکرسکے کہ جس سے کم ازکم ہم نئی نسل کویہ شعور دے سکیں کہ خواتین ہماری عزت ہیں،وہ صرف جنسی ہوس کانشانہ بنانے کے لیے کوئی بے جان شےنہیں،یہ ہماری مائیں ہیں،بیٹیاں ہیں،بہنیں ہیں اورانہیں خواتین میں سے ہم اپنی بیویاں نکاح میں لیتے ہیں جب وہ ہماری زندگی میں خوشیوں کی بہارلاتی ہیں،،،ہمیں ان کادشمن نہیں بلکہ ان کامحافظ بنناہے۔
(بلاگرمناظرعلی مختلف اخبارات اورٹی وی چینلز کےنیوزروم سے وابستہ رہ چکےہیں،آج کل لاہور کےایک ٹی وی چینل پرکام کررہے ہیں۔عوامی مسائل اجاگر کرنےکےلیےمختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ان سےفیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔