سیاسی کارکردگی اور بلا امتیاز عوامی خدمت
پاکستان میں تعلیمی استعداد کی شرح تاحال عملی طور پر تو پچاس فیصد سے زائد نہیں لگتی، لیکن اکثر حکومتی وزراء اور حکام اس بارے میں کچھ مبالغہ آرائی کا مظاہرہ کرکے اپنی تقریروں اور ذرائع ابلاغ میں زیادہ اعلانات کر دیتے ہیں، جبکہ اگر کسی جگہ ایسے اعلانات کی منصفانہ طور پر جانچ پڑتال کی جائے تو حقیقت حال جلد واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ ان کے دعوؤں کے مطابق کسی شعبہ ء زندگی میں اور بیشتر شہری اور دیہاتی علاقوں میں آئین و قانون، انسانی حقوق کے تحفظ اور انصاف و اعلیٰ اقدار کا صحیح طور پر ادب و احترام، نفاذ و اجراء اور عوام کی زندگی میں بہتری، شائستگی اور متعلقہ قوانین و اصولوں کی پابندی اور پاسداری کے اثرات اور نتائج اکثر اوقات دیکھنے اور پڑھنے یا سننے میں نہیں آتے، بیشتر لوگ تاحال اپنے مختلف نوعیت کے مسائل اور مشکلات میں الجھے اور پریشان و بدحال نظر آتے ہیں۔
حکومتی وزراء بلا تخصیص کسی سیاسی یا غیر سیاسی حکومت، زیادہ تر سابقہ حکمرانوں کی سرزنش، ان پر سخت تنقید اور عوام کی خدمت کے حوالے سے محض روایتی بیان بازی میں قیمتی مالی وسائل کو اپنے ذاتی مفادات پر ضائع کرنے پر ترجیح دیتے چلے آ رہے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ انداز فکر و عمل آج کل بھی جاری ہے، کیونکہ موجودہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں عرصہ سات ماہ کے دوران بیشتر وزراء صاحبان، شب و روز سابقہ وزیراعظم میاں نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کی کارکردگی کو کسی طرح درست تسلیم کرنے کی بجائے مالی لوٹ مار اور بددیانتی سے خوردبرد کرنے کے الزامات ہی بار بار دہرا رہے ہیں۔ سیاسی شعبے میں یہ روش مثبت سمت میں درست کرکے جلد تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
جب حکمران جماعتوں کے وزراء یا دیگر رہنما کسی سابقہ حکمران جماعت کے قائدین پر بے بنیاد الزامات لگائیں گے تو پھر مخاطب حضرات اور خواتین کیونکر خاموش رہ کر ایسی غلط بیانی یا بدزبانی کو برداشت کر لیں گے؟ لہٰذا بہتر انداز کار یہ ہے کہ ہر حکمران جماعت کے رہنما اپنی مثبت کارکردگی پر مبنی عوامی خدمات کے منصوبوں کی عملی تکمیل کے ثبوتوں سے حریف تنقید کاروں کی الزام تراشی کے غلط اور بے بنیاد ہونے کا ٹھوس مواد فراہم کرکے دیکھنے اور جاننے والے لوگوں کی تائید و حمایت حاصل کریں۔
محض مخالف رہنماؤں پر بدعنوانیوں کی مسلسل الزام تراشیوں سے لوگوں پر ہرگز مثبت اثرات نہیں پڑتے، کیونکہ جب تک الزام لگانے والے حضرات کی اپنی کارکردگی، عوام کے مفادات پر مبنی نہیں ہوگی اس وقت تک ان کی قیادت کو اپنے وعدوں کے مطابق نہ ہونے کی بناء پر عزت و احترام سے نہ دیکھا جائے گا اور نہ مانا جائے گا، لہٰذا موجودہ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے سچائی ،محنت، دیانت ، سادگی اور خلوص نیت سے حریفوں کا عزت و احترام کرنے اور قائم رکھنے کے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ جمہوری ایوانوں میں پُرامن طور پر کارروائیاں چلیں۔
پولیس دفاتر میں مصالحتی کمیٹیوں میں حکمران جماعتوں اور روایتی چاپلوسی کرنے والے افراد کو شامل کرنے کی بجائے انصاف پسند، غیر جانبدار اور بے لوث صفات کے حامل لوگوں کو نامزد کیا جائے، تاکہ سیاسی اور ذاتی انتقامی دشمنیوں کی بجائے، لوگوں کی باہمی کدورتیں اور رقابتیں جلد ختم کرنے کی کوششیں کی جا سکیں اور معاشرے میں امن و سکون کے حالات قائم ہو سکیں۔