ادارہ معارف اسلامی کی تحقیقی سرگرمیاں
گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں، جب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ کے ذریعے اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا تو اس وقت سے ان کی خواہش ایسا علمی ادارہ قائم کرنے کی تھی، جو عصری مسائل کا اسلام کی روشنی میں حل پیش کرے،لیکن جماعت اسلامی کے قیام، سیاسی جدوجہد اور کارکنان کی اخلاقی تربیت کے کاموں میں ان کی یہ خواہش بالآخر1963ء میں پوری ہوئی۔انہوں نے کراچی میں ادارہ معارف اسلامی(اسلامک ریسرچ اکیڈمی) قائم کیا۔ اس کے بعد1979ء میں اسی نام سے ایک ادارہ لاہور میں بھی تشکیل دیا۔اس کے پہلے ڈائریکٹر مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم تھے۔ ان کے بعد حافظ محمد ادریس اس منصب پر فائز ہوئے۔آج کل ڈاکٹر حافظ انور ساجد مذکورہ ادارے کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔یہ ادارہ منصورہ میں جماعت اسلامی کے مرکزی دفاتر سے ملحقہ ایک عمارت میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
مَیں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ ادارہ معارف اسلامی سے کس قسم کا لٹریچر شائع ہو رہا ہے، وہاں سے12صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ (بعنوان ہماری کتابیں) حاصل کیا۔ ادارے کی کتابوں کے نام ان20عنوانات میں تقسیم ہیں: قرآن و تفاسیر، حدیث، سیرت النبیؐ، سیرت صحابہؓ، سیرت تابعین، فقہ و قانون، مولانا مودودیؒ، تحریک اسلامی، سوانح، اسفار، فضائل، پاکستان، خواتین، تاریخ، ادب و صحافت، عالم اسلام، تقابل ادیان و مذاہب، علم الکلام، علوم جدیدہ اور اسلام، بچوں کا ادب، جہاد، مسلم اقلیتیں اور متفرق۔
اڑھائی سو کے لگ بھگ یہ کتابیں کارکنانِ جماعت اور عام قارئین کے لیے یقینا بیش بہا علمی سرمایہ ہیں۔ان سے کارکنان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لئے بہت کام لیا جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کا مقصود زندگی نظام اسلامی برپا کرنا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ نظام لانے والے لوگ ہر طرح سے اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ہوں۔ یہ لوگ اتنے دیانتدار اور باشعور ہوں کہ اُن پر عوام بھروسہ کر سکتے ہوں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اس لٹریچر سے اعتقادات مضبوط ہوتے ہیں اور قارئین کا اسلام کی حقانیت پر یقین بڑھ جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ یہ ادارہ چلا رہے ہیں وہ اس حقیقت سے بالکل بے خبر معلوم ہوتے ہیں کہ ہمارے پاکستانی معاشرے کو شروع دن سے جو روگ لگے ہوئے ہیں ان کی تفہیم بھی تو ہونی چاہئے جب تک مسائل کی ماہیت واضح نہ ہو، اس وقت تک حل کیسے نکل سکتا ہے۔مثلاً پاکستان میں برطانوی دور سے جو زمینداری اور جاگیرداری کا نظام چلا آ رہا ہے،وہ اندر اور باہر سے کیا ہے، اس سے معاشرے اور ملک کو کیا فائدے یا نقصان ملے ہیں۔
ادارہ ایسے ریسرچرز کو جاگیروں پر بھیجے، جو وہاں جا کر دیکھیں کہ مزارعین کس حال میں رہ رہے ہیں۔ان کے دُکھ سُکھ کیا ہیں، خود جاگیردار لوگ کیا ہیں،وہ اپنے مزارعین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں،ان کے حقوق کا کس حد تک خیال رکھتے ہیں۔قیامِ پاکستان کے بعد جب کاروبار کا دائرہ وسیع ہوا، کارخانے کھلنے شروع ہوئے تو مزدور طبقہ وسعت پذیر ہوا تو اس کے مسائل و معاملات کیا تھے۔ان کی محنت کا کیا عالم تھا اور جو انہیں معاوضہ ملتا تھا وہ کس حد تک صحیح ہوتا تھا۔ پھر یہ اسٹیبلشمنٹ جو مولانا مودودی کو پھانسی کے تختے تک لے گئی اور جس نے جماعت پر سال بھر پابندی بھی لگائے رکھی، اس کے اپنے مفادات کیا تھے،اس کو جماعت سے کیا خطرہ تھا۔ تعلیم پرائیویٹ ہونے سے آج سرا سر کاروبار بن گئی ہے تو کیوں ایسا ہوا۔یہ کاروبار ہماری نئی نسلوں کو کیا دے رہا ہے؟جماعت اسلامی اپنے بیانات اور لٹریچر میں تو دن رات مغربی تہذیب کو کوستی رہتی ہے،لیکن اس کے سامنے اسی تہذیب میں ڈھلنے والی نئی نسلوں پر ادارہ معارفِ اسلامی کی طرف سے کوئی معروضی رپورٹ سامنے نہیں آ رہی۔
اسی ادارہ معارف اسلامی کی طرف سے پاکستانی عدالتی نظام پر کبھی کوئی کتاب،بلکہ پمفلٹ تک نہیں چھپا،آخر اس حوالے سے ریسرچ کون کرے گا؟یونیورسٹیوں میں پاکستانی اداروں پر جو تحقیقی مقالے لکھے جاتے ہیں، وہ لائبریریوں میں پڑے گل سڑ جاتے ہیں،ادارہ انہی مقالات کو نظرثانی کروا کر چھاپ سکتا ہے،لیکن اس ادارے نے کبھی یونیورسٹیوں میں ہونے والی ریسرچ پر توجہ ہی نہیں دی۔
اس وقت پاکستانی معاشرے کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں دولت کی تقسیم اتنی غیر متوازن اور غیر منصفانہ ہو چکی ہے کہ حرام اور حلال کے درمیان فرق ختم ہوتا جا رہا ہے۔فرد اپنے کنبے کا پیٹ پالنے کے لئے غلط ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
بیرونی قرضوں پر انحصار خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔اس مکروہ عمل سے اسلام کی اخلاقی اقدار بے وقعت ہو کر رہ گئی ہیں۔ہمارے پالیسیاں بنانے اور نافذ کرنے والے ادارے عالمی مالیاتی ایجنسیوں کے مطالبات کے سامنے بے بس ہیں۔اس طرح سے پاکستان کی خود مختاری کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ حکومتی رویے کچھ اس طرح کے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے ذہن تیار کئے جا رہے ہیں۔اس حوالے سے بار بار شکوک و شبہات سر اٹھاتے ہیں اور ساتھ ہی تردیدی بیانات آنے لگتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے اجتماعی مسائل ادارہ معارف اسلامی کی ریسرچ کا موضوع نہیں بنتے۔سوال یہ ہے کہ عملی حالات سے آنکھیں بند کر کے محض نظریاتی مسائل ہی پر بحث مباحثہ کرتے چلے جانا کہاں کی عقلمندی ہے!