زمیندار کالج کا روشن نصاب

زمیندار کالج کا روشن نصاب
 زمیندار کالج کا روشن نصاب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سخنوروں کی بستی اور خطۂ یونان کی شہرت رکھنے والے گجرات کی حقیقی شناخت زمیندار کالج ہے، جس طرح تحریک پاکستان کا ذکر ایم اے او کالج علی گڑھ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اسی طرح گجرات کا ذکر بھی اس تاریخی اور تاریخ ساز کالج کے بغیر ممکن نہیں ہوپاتا۔

گجرات کی جدید تاریخ کی تخلیق اس درسگاہ میں ہوئی، اسی نے گذشتہ پون صدی سے گجرات کے شعور کو جلا بخشی ہے۔ اسی لئے علم دوست حلقے گجرات اور زمیندار کالج کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔

گذشتہ دنوں علم پرور، کتاب دوست اور شفیق و خلیق استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال بٹ کی دعوت پر برادرم ڈاکٹر غلام علی کے ہمراہ زمیندار کالج جانے کا اتفاق ہوا۔

یہ درسگاہ میری مادر علمی بھی ہے اور یہیں سے میں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بھی کیا، چنانچہ اس کے درودیوار اور سحر انگیز فضا میرے لئے ہمیشہ ذہنی وفکری جلا اور قلبی طمانیت کا سبب بنتی ہے۔

ڈاکٹر اقبال بٹ کی پر تکلف چائے کی میزپر جواں عزم پرنسپل پروفیسر عبید اللہ سے ملاقات ہوئی تو بے ساختہ ان کے مختصر دور کی ادارہ سازی کی کاوشوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی اصلاح پاکستان کا اہم مسئلہ ہے۔

بد انتظامی اور بدعنوانی ہمارے قومی مسائل ہیں۔ زمیندار کالج گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے قیادت کے تناظر میں قحط الرجال کا شکار رہا اور اپنی ادبی روایات، علمی مزاج اور انتظامی حسن سے محروم ہوتا چلا گیا تھا اور دھیرے دھیرے ایسا دکھائی دینے لگا کہ میرے ایک دوست اس کالج پر’’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشمین ‘‘ کی پھبتی کسنے لگے تھے، لیکن آخر کب تک یہ جاری رہتا۔

قدرت کو اس ادارے پر رحم آگیا اور 12 اپریل 2016ء کو اسی کالج کے شعبہ اکنامکس کے ایک فعال استاد پروفیسر عبید اللہ جو اپنی شرافت، دیانتداری اور دھیمی مسکراہٹ کی بدولت طالب علموں اور اساتذہ میں مقبول تھے، انہوں نے بطور پرنسپل چارج لیا تو ایسے لگا جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آ گئی ہو، انہوں نے کامل دیانت و صداقت سے ہمہ جہت تدریسی و انتظامی اصلاحات کا علم بلند کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف دو سال سے کم عرصے میں کالج کی قابل فخر تاریخ، عظیم روایات اورعلمی و ادبی ماحول کو ایسے مثبت تبدیلی کے عمل سے گزارا کہ سول سوسائٹی ان کے عہد کو ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کا دور کہنے لگی ہے، انہوں نے تھوڑے وقت میں زیادہ کام کیا اور اپنے مخلص ساتھیوں کے ہمراہ شب و روز تعمیر و ترقی کا نیا عہد تخلیق کیا۔


تعلیم، تدریس، تربیت کا امتزاج متعارف کروایا۔ آزادی کو نظم وضبط میں پرویا اور سہولتوں کی فراہمی کا کھلے دل سے اہتمام کیا۔ کالج کی علمی وادبی رونق کو بحال کرکے عظمت رفتہ کی بازیافت کا کارہائے نمایاں سرانجام دیا۔

کالج کی بدلتی فضا اور آگے قدم بڑھاتی تاریخ پر گفتگو جاری تھی کہ پروفیسر عبید اللہ نے کمال محبت سے کالج کے تاریخی مجلے ’’شاہین‘‘ کا تازہ شمارہ پیش کیا۔ شاہین2017-18بذات خود ان کے ذوق سلیم، جمالیات اور وژن کا مرقع تھا۔

لگ بھگ اڑھائی سو صفحات پر مشتمل شاہین اپنے سرورق سے لے کر آخر تک پکار پکار کر کہہ رہا تھاکہ ’’وہ ایک پیکر کہ تو بھی رشک کرے۔‘‘ مدیر اعلیٰ پروفیسر سید وقار افضل کا اداریہ کھولا تو تسلی ہوئی کہ وہ بھی میرے ہم خیال تھے۔

رقم طراز ہیں کہ ’’اداروں کی بقا کا عمل جہاں ہر فرد کے احساس ذمہ داری سے منسلک ہے، وہاں اعلیٰ قیادت بھی اس کا اوّلین جزو ہے۔ گورنمنٹ زمیندار کالج اس حوالے سے ہمیشہ خوش قسمت رہا ہے کہ اس ادارے کو ایسے سربراہان (پرنسپلز) ملے جو اپنے کام اور ادارے کے ساتھ مخلص تھے، زمیندار کالج کے موجودہ پرنسپل پروفیسر عبید اللہ جس لگن اور دیانتداری کے ساتھ کالج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے عمل میں مصروف ہیں وہ نہ صرف قابل ستائش ہے، بلکہ قابل تقلید بھی،انہوں نے مجلس ادارت کو ’’شاہین‘‘ کی اشاعت یقینی بنانے کے لیے ممکنہ سہولتیں فراہم کیں۔

اس لئے اس سال کے شمارے میں طلبہ کی تحریروں کی تعداد اس بات کی غماز ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی زمیندار کالج کے شاہینوں کو اس ادارے کے اندر ایک ایسی نئی تخلیقی فضا میسر ہے جو انہیں قلم اور کتاب کی طرف مائل کر رہی ہے ‘‘۔

مجھے بر ادرم وقار افضل کے بارے میں یقین ہے کہ وہ بلا جواز تعریف کرنے کے عادی نہیں، اس اداریے کا حرف حرف کالج میں ’’احیائے نو‘‘ کی کہانی کا گواہ ہے۔

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ پروفیسر عبید اللہ نے اصلاحات کا یہ عمل کرتے ہوئے بطور منتظم خود کو غیر جانبدار اور ذاتی مفادات سے بالا تر رکھا۔یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔

تعلیمی اداروں کے مجلے عمومی طور پر طلبہ اور اساتذہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کے عکاس ہوتے ہیں، لیکن ہماری تعلیمی روایت میں یہ طالب علموں کی علمی زندگی ، تہذیبی تربیت اور مذاق لطیف کی پرورش کا ناگزیر جزو سمجھے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر سلمان شاہجہاں پوری ان کے مقصد تصنیف و تالیف میں طلبہ کی تربیت اور تنقید و تحقیق میں ان کی رہنمائی بتاتے ہیں۔ بلاشبہ کسی کالج کا میگزین اس ادارے سے وابستہ طلبہ و اساتذہ کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

یہ مجلے نئے لکھنے والوں کے لئے گہوارے کا کام دیتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں۔ یہ میگزین ایسی تجربہ گاہ ثابت ہوتے ہیں، جن میں نوخیز تصورات پرورش پاتے ہیں اوربعض اوقات تو ادب کی نئی روایات کا نقطہ آغاز ثابت ہوتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں اس روایت کو علی گڑھ میگزین اور پنجاب یونیورسٹی نے پروان چڑھانے میں سرگرم حصہ لیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے ’’راوی‘‘ اور اسلامیہ کالج کے’’ کریسنٹ ‘‘کے ساتھ ساتھ زمیندار کالج کا مجلہ’’ شاہین ‘‘بھی قیام پاکستان سے قبل ہی شہرت عام حاصل کر چکا تھا۔ یہ مجلہ اس پُر شکوہ کالج کی عظیم الشان روایت ہے ۔

مزید :

رائے -کالم -