ملکی بحرانی حالات اور جماعت اسلامی کامؤقف
پاکستان، مملکت خداداد اور اسلامی جمہوری ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے آزادی، وسائل، جغرافیائی اہمیت، زراعت اور انسانی صلاحیتوں سے مالا مال کیاہے۔ اس وقت ملک کو آئینی، سیاسی،اقتصادی اور پارلیمانی استحکام کی بجائے انتشار اور بحران در بحران کاشکارکردیاگیاہے۔ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دشمن قوتوں نے قومی سلامتی کے لئے خطرات مسلط کئے ہوئے ہیں، امریکہ، مشرق وسطیٰ میں حیلے بہانوں سے جنگ مسلط کررہاہے، لیکن یہ امر پریشان کن اور المناک ہے کہ ملک کااندرونی شیرازہ بکھراہواہے۔ سیاست،حکومت اور ریاست کا باہم مفاداتی ٹکراؤ ملک وملت کے لئے ناقابل برداشت مشکلات پیداکررہاہے۔ جولائی 2018ء کے قومی انتخابات دھاندلی زدہ اور متنازعہ تھے، لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف کو حکومت مل گئی، لیکن عملاً جولائی 2018ء سے اب تک وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں یہ حکومت نا اہلی، ناتجربہ کاری، تکبر،غرور، بدزبانی و بدکلامی کاشکارہے۔ ”اسٹیٹس کو“کو نہ ٹوٹنا تھا اور نہ ٹوٹا……گڈ گورننس دینے کے دلفریب نعرے، نعرے ہی رہے اور اب تک ناکام اور آزمودہ گلے سڑے نظام کو بدلنے کاکوئی وژن اور لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا حکومت بُری طرح ناکامیوں سے دوچار ہے۔ حقیقت میں یہ ناکامی قومی المیہ ہے۔
ان حالات میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے، جو بااختیار پالیسی ساز ادارہ ہے، تین دن طویل غورو خوض اور سوچ و بچار کے بعد حکومت کو چارج شیٹ کیاہے…… حکومت نے ملک کی اسلامی نظریاتی شناخت اور کردار کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ ریاست مدینہ کا نظام دینے کا اعلان کرکے عملاً مکمل انحراف کا راستہ اختیار کیا ہے۔ معاشرے میں بدتہذیبی، بدکلامی کے ذریعے سماجی قدروں کوبُری طرح متاثر اور سیاسی و پارلیمانی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب تک آئین کے رہنما اصولوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو منظم منصوبے اور سازش کے تحت سیکولر ریاست بنانے کے اقدامات جاری ہیں جو اسلامیان پاکستان کے لئے کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں ہیں۔
غیر ذمہ دارانہ رویوں اور طرزِ حکمرانی نے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کوعملاً مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کی بجائے آرڈی ننسوں کے ذریعے ایڈہاک ازم مستحکم اور مضبوط کیاجارہاہے۔ ملک کو غیر طبقاتی نظام تعلیم پر استوارکرنے، مدارس کے نظام کے استحکام و اصلاح اور قومی زبان اردو کے نفاذ کی بجائے ا ن کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیاگیاہے۔ عملاً ملک کوآئینی اور پارلیمانی لحاظ سے خطرناک بحران کا شکارکردیا گیاہے، اِسی وجہ سے ابھی تک الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تقرریاں نہیں ہوپائیں۔ فوج جیسے قومی اور ناگزیر ادارے کے سربراہ کی تقرری پر بھی حکومت نے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی انتہا کردی۔ اب آرمی چیف کی توسیع و تقرری پر نظرثانی کی اپیل صریحاً محل نظر ہے۔ نظر ثانی صرف سیکرٹری دفاع ہی دائر کرتے تو ملک جگ ہنسائی سے محفوظ رہتا۔سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت خصوصی عدالت کا فیصلہ آئینی اور قانونی ہے۔یہ ملک کی سیاسی تاریخ کا اہم فیصلہ ہے۔
اس فیصلے پر بھی حکومت نے اداروں کے درمیان احترام کی تمام حدود پامال کردی ہیں …… اگر حکومت پہلے سے شرمناک غیرآئینی مؤقف رکھتی تھی تو خصوصی عدالت سے وفاق کی پٹیشن واپس لے لیتی، مگر حکومت ایسا کرنے کی تو جرأت نہ کرسکی،عملاً یہ بھی حکومتی نااہلی اور بے عملی کا بین ثبوت ہے۔ اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ملک کو آئینی،جمہوری، پارلیمانی اقدار کے ساتھ چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ عوام کو توقع تھی کہ ماضی کے ناکام اور بدنام طرز حکمرانی کو بدلاجائے گا، جس سے اقتصادی حالات بدلیں گے، عوام سکھ کا سانس لیں گے، غریب اور متوسط طبقے کی حالت سنبھلے گی، لیکن یہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ اس عرصے میں قرضے، سود اور سرکلرڈیٹ کا بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔افراطِ زر، پیداوری لاگت، مہنگائی، بے روزگاری بے قابوہوگئی ہے۔ بجلی، گیس،تیل، ٹیکسوں کا ہوشربا اضافہ اور آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر قومی اقتصادی نظام میں خوف و ہراس کا عنصر خطرہ بن گیا ہے، جس سے تجارت، صنعت اور زراعت کا پہیہ جام ہے۔
قرضوں کا بڑھتابوجھ، اسٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے اقتصادی بحران میں اضافے کے اشارے قومی معیشت کے لئے جان لیوا بن سکتے ہیں۔ خودانحصاری اور اسلامی معاشی نظام سے انحراف کر کے 70سال سے آزمائے اور ناکام معاشی حربے عوام کی مشکلات میں اضافے اور حکومت کی ناکامی کا واضح ثبوت ہیں۔ ملک کو اقتصادی بحران کے گرداب سے نکالنا اور عوام کے لئے سہولت کا بندوبست کرنا موجودہ حکومت کے بس میں نہیں ہے۔آئی ایم ایف کی مسلط کردہ معاشی ٹیم کے ہاتھوں اقتصادی تباہی کی ذمہ دارسراسر حکومت ہے۔اس میں شک نہیں کہ ”سب کا احتساب“ قومی مطالبہ ہے، کرپشن ملک و ملت کے لئے کینسر کی حیثیت رکھتی ہے۔ پانامہ زدہ 436 افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایاجانا سب کے احتساب کا نقطہ آغاز تھا،اس کے برعکس نیب کو احتساب کے لئے آزادانہ ماحول فراہم کرنے کی بجائے حکومتی دباؤ کے ذریعے سیاسی بندوبست کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔کرپٹ مافیا کو مصنوعی مظلوم بنایا جا رہاہے۔ احتساب کے لئے حکومت کے نعرے، دعوے اور اعلانات خالی ڈھول پیٹنے کے مترادف ہیں۔حکومت ”سب کے احتساب“ میں ناکام ہو چکی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی ٹیم کی طرح قانونی ٹیم بھی بار بار ناکام ہوئی ہے۔ آرڈی ننس کے ذریعے نیب کے قوانین کو بہتر بنانے کی بجائے کرپٹ مافیا کو نوازنے اور بچانے کے لئے نظام احتساب کا دم نکال دیا گیا ہے۔ حکومت گومگو اور ہر لمحہ رنگ بدلتی پالیسی کے باعث کرپشن،رشوت اور بدعنوانی، بدترین شکل اختیار کرگئی ہیں۔
حکومت کرپشن، رشوت بڑھانے اور کرپٹ مافیا کو تحفظ دینے کے جرم میں ملوث ہے۔ حکومتی عرصہء اقتدار میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ حکومت اور ریاست ایک پیج پر ہیں، مگر عملاً ریاستی اور آئینی اداروں میں غلط فہمیاں اور ٹکراؤ برابر بڑھتا جارہاہے۔ تحریک انصاف نے ریاستی اداروں کو جس طرح متنازع بنایا ہے،ماضی میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا معاشرے کی رہنمائی کے لئے کردارنہ ہونے کے برابر ہے۔ وکلاء اور ڈاکٹروں کے درمیان تناؤ کے خاتمے کے لئے حکومت بروقت اقدامات میں بھی بری طرح نااہل ثابت ہوئی ہے۔لاپتہ افراد کی بازیابی ہنوز حل طلب اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے بھی عملاً کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا،میڈیاکی آزادی پر قدغن عائد کرنے کے خفیہ اور اعلانیہ اقدامات حکومتی نا اہلی کامنہ بولتا ثبوت ہیں،جو عملاً فاشزم کی طرف پیش رفت ہے۔ سیاسی جمہوری محاذ پر بڑھتے فاصلے اور دوریاں، تناؤ میں اضافے کا سبب اور ملک کے لئے خطرات کا باعث ہیں۔اِس بحرانی صورت حال کی ذمہ دار حکومت ہے۔
پاکستان اس وقت خارجی محاذ پر تنہائی کا شکار ہے۔حکومتی خارجہ حکمتِ عملی انتہائی ناتجربہ کاری، بزدلی اور مفاداتی دباؤ کا شکار ہے۔ مشرقی اور مغربی محاذ پر خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔کوالالمپور سمٹ کے ذریعے پاکستان کے لئے آزادانہ باوقار کردار کا موقع حاصل ہوا، لیکن اِسے بھی حکومت نے اپنی عجلت اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے ضائع کردیا اور پاکستان کی رسوائی میں اضافے کا سبب بنی۔تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق مسئلہ کشمیر پر پاکستان حق پر ہے، مگربھارت، جھوٹ فریب اور ظلم کے ذریعے مسلمہ عالمی اصولوں کو مسلسل پامال کر رہا ہے، اس کے باوجودحکومت نے ملک کی کوئی متفقہ،قومی کشمیر پالیسی اور مؤثر خارجہ حکمت عملی نہیں بنائی۔مفادات، لالچ اور کشکول کی حکمت عملی نے ملک کے سفارتی محاذ کو کمزور ترین کردیا ہے۔ امریکی کیمپ کا قیدی بن کر پاکستان کے لئے نئے سفارتی محاذوں کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستان کے معتمد اور قابل اعتماد دوستوں کو دور کیاجارہا ہے، اسی لئے سی پیک کے لئے خدشات واضح طور پرظاہر اور عیاں ہورہے ہیں۔
حکومت خارجہ محاذ پر مکمل طور پرناکامی سے دوچار ہے۔ غلط سفارتی اقدامات سے پاکستان کو رسوائی، بدنامی، مفاد پرستی اور ناقابل اعتماد ملک کا عنوان دینے کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ پولیس، بیوروکریسی اور ریاستی امور میں ناجائز و سیاسی مداخلت نہیں کرے گی، سرکاری ملازمین کی عزتِ نفس کا تحفظ کیاجائے گا، مگر عملاً صورت حال یہ ہے کہ کہ نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن شتر بے مہار ہوکر تمام اداروں میں خوف کی کیفیت مسلط کرچکے ہیں، جس سے سرکاری اداروں میں کام ٹھپ ہے۔ عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے خواری میں اضافہ ہواہے۔ دوسری جانب سرکاری افسران کی پسند و ناپسند اور سیاسی مداخلت کی بنیاد پر تقرریوں و تبادلوں، خوف، گھبراہٹ اورعجلت میں کی گئی اکھاڑ پچھاڑ نے سول انتظامیہ کو مفلوج اور بے بس کر دیاہے، اسی لئے سول اورحساس اداروں کا ٹکراؤ خوفناک شکل اختیار کررہاہے۔ یہ حکومتی نااہلی اور بری طرز حکمرانی کے بدترین شواہد ہیں۔تبدیلی کے دعویدار ٹولے سے یہ بھی توقعات تھیں کہ بااختیار بلدیاتی نظام لائیں گے اور نوجوانوں کو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اپنا جمہوری حق دیتے ہوئے طلبہ یونین پر سے پابندی ا ٹھالی جائے گی۔
نوجوان طلبہ ملک و ملت کا مستقبل ہیں، اُن کو اُن کا جمہوری حق لوٹا دیا جائے۔ بلدیاتی ادارے قومی سیاست کی اہم ترین بنیاد ہیں۔صورت حال یہ ہے کہ حکومت بلدیاتی اداروں کے انتخابات و نظام کو بااختیار بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اور قومی سیاست کو نئی قیادت دینے کے قومی فریضے سے بھی انحراف کررہی ہے۔ بلدیات اور طلبہ یونینیں سماجی و سیاسی خدمت و اصلاح کے اہم مراکز ہیں، حکومت اِن پر تالابندی کے جرم کی ذمہ دار ہے۔
زراعت قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن موجودہ حکومتی عرصہء اقتدار میں زراعت مزید زبوں حالی کا شکارہوئی ہے۔گندم، چاول، گنا، کپاس، باغات اور سبزیوں کے کاشتکار حکومتی عدم توجہی، مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کے شکارہوئے ہیں۔حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے جھک جانے میں ہی عافیت سمجھی اور ساراوقت اور زوراسی پر صرف کیا۔ضرورت تھی کہ حکومت خود انحصاری کاراستہ اپناتی اور خودانحصاری کا راستہ اختیار کرنے کے لئے زراعت پر توجہ دی جاتی، جو نہیں دی گئی، جس کی ذمہ دار سراسر حکومت ہے۔ خواتین، نوجوان طلبہ وطالبات قومی آبادی، ملک کے استحکام و ترقی کا اہم ترین ذریعہ اور قابلِ اعتماد اثاثہ ہیں، لیکن عمران خان حکومت نے خواتین اور طلبہ کی ترقی، روزگار، باوقار زندگی کے لئے کوئی ٹھوس اور مضبوط قدم نہیں اٹھایا، بلکہ ماضی کی حکومتوں کے ناکام تجربات اور منصوبوں کے نام بدل کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے سب سے زیادہ نوجوان مایوس ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ قومی قیادت، حکومت اور اپوزیشن غیر سنجیدہ رویے ترک کرتے ہوئے ملک کودرپیش خطرات اور بحرانوں، خصوصاً بدترین اقتصادی صورت حال اور عوام کی حالت زار کا ادراک کریں۔
قومی ترجیحات پر حکومت، سیاست اور ریاست کا ازسرِ نومتفق ہونا قومی سلامتی کے لئے وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ملک اس وقت کسی ایڈونچر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ عمران خان تسلیم کر لیں کہ وہ بحیثیت وزیراعظم ناکام ہیں۔ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے قبل از وقت انتخابات یا لیڈر آف دی ہاؤس کی تبدیلی قابلِ قبول ہوسکتی ہے، لیکن آئین سے ماوراء کوئی اقدام جماعت اسلامی کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا اور ہر غیر آئینی اقدام کی مزاحمت کی جائے گی۔ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت وطن عزیز میں اسلامی نظام کے قیام، ملک کو اسلامی، خوشحال اور مستحکم پاکستان بنانے کی جدوجہد، وسیع رابطہ عوام مہم کے ذریعے گراس روٹ لیول پر عوام کو منظم کرنے،انتخابی نظام کی خرابیوں کی اصلاح اور شفاف و غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے عوامی جدوجہد کو بنیاد بنائے گی۔ عوام الناس نے سب پارٹیوں اور ان کی قیادتوں کو آزماکر دیکھ لیا ہے۔
اب وہ جماعت اسلامی کا ساتھ دیں، تاکہ ملک کو اہل، دیانتدار،بااعتماد،جرأت مندقیادت اور انقلابی لائحہ عمل کے ذریعے بحرانوں سے نجات دلائی جا سکے۔ جماعت اسلامی کشمیریوں کے ساتھ عہد کرتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو تنہا اور لاوارث نہیں چھوڑا جائے گا۔ کشمیریوں کے جائز حقوق اور حق خودارادیت کے لئے ہر ممکن اقدام ہمارا قومی اور دینی فریضہ ہے۔ حق خودارادیت کے حصول کے لئے مبنی برحق جدوجہد کا ساتھ دینا ہمارے قومی و ملی وقار کا تقاضا ہے۔ ہمارا اللہ پر کامل بھروسہ ہے کہ ایک دن کشمیریوں کی لازوال قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔