غزہ سے حبیبہ کا عید مبارک پیغام
میں ہوں حبیبہ۔
غزہ کی لٹی پٹی تباہ حال حبیبہ
وہی جس کے ماں باپ بھائی بہن عید سے چند روز پہلے اسرائیل نے مار دیئے تھے۔
آپ تو جانتے ہیں اب میں دنیا میں اکیلی ہوں۔
مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا تھا پر اب نہیں لگتا۔
روشنی ہو گی تو اندھیرا محسوس ہو گا نا۔
مجھے کوئی بتا رہا تھا آج عید ہے۔
آپ کو بتاؤں۔ کبھی میں بھی عید مناتی تھی۔
میرے ابو عید سے قبل میرے لئے مہنگے کپڑے لاتے تو ہم بہن بھائیوں میں لڑائی ہو جاتی سب کہتے حبیبہ کو اتنا مہنگا لباس کیوں۔
سچ یہ ہے میری بہن (وہی جو اسرائیل کی بمباری میں میرے ابو کا ہاتھ تھامے شہید ہو گئی تھی) فاطمہ میرے ابو کی زیادہ لاڈلی تھی، ابو اس کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ میں جانتی تھی پر چپ رہتی، مجھے اچھا لگتا ابو فاطمہ کا زیادہ خیال رکھتے، وہ میری بھی لاڈلی تھی۔ جب وہ خون میں لت پت تھی اور اس کا معصوم جسم تقریباً ادھڑ چکا تھا۔ تو سب نے اسے بلکہ اس کے لاشے کوبا ہوں میں بھر لیا تھا۔ مجھے اب تک سمجھ نہیں آتی فاطمہ کا کیا جرم تھا۔ اس نے اسرائیل یا کسی کا کیا بگاڑا تھا۔ میرا 24سالہ بھائی بلال جسے میں تنگ کرتے ہوئے کہتی تمہاری شادی پر دلہن سے زیادہ مہنگا جوڑا لوں گی اور وہ بھی تم سے۔
آج مجھے میری ماں یاد آ رہی ہے، وہ چاند رات کو میرے بالوں میں تیل لگاتی میری چوڑیوں اور مہندی کا بندوبست کرتی، چاند رات میں اور فاطمہ اور میرا بھائی بلال اپنی ماں سے چمٹ کر سوتے صبح میرا بھائی بلال ابو کے ساتھ نماز عید کے جاتا تو ہم دونوں بہنیں جلدی جلدی تیار ہوتیں، ابو کا دروازے پر کھڑے ہو کر انتظار کرتیں، آج عید ہے۔
میں اپنے تباہ حال گھر کے ملبے پر بیٹھی ہوں، میرے چار سو ملبہ ہے یا اس ملبے پر کہیں کہیں خون کے چھینٹے، کوئی مجھے بتا رہا تھا کہ مجھ جیسی درجنوں بچیاں آج اپنے والدین کو تلاش کرتی پھر رہی ہیں، کیمپ میں باتیں ہو رہی تھیں کہ آج غزہ میں جب مردوں نے نماز عید ادا کی تو ان کی سسکیوں نے ایک اجتماعی فریاد کی شکل اختیار کر لی۔ آج غزہ میں عجیب عید ہے قبرستان آباد ہیں، لوگ اپنے پیاروں کی قبروں سے لپٹ لپٹ کر رو رہے ہیں۔ میں بھی ملبے پر بیٹھی ہوں، لیکن رو نہیں رہی، روؤں کیسے؟ میرے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔ مزید کتنا روؤں، پچھلی عید پر میں نے مہندی لگائی تھی آج بھی میرے ہاتھ سرخ ہیں لیکن مہندی نہیں خون سے، وہ خون جو میری ماں کا ہے، وہ خون جو میرے بابا کا ہے، وہ خون جو بلال اور میری فاطمہ کا ہے۔
آپ جانتے ہیں پچھلے سال عید پر اتنے لباس نہیں بکے تھے جتنے اس عید پر کفن، غزہ میں کفن بیچنے والوں کی چاندی ہے، جسے دیکھو کفن اٹھائے پھر رہا ہے۔ چلیں چھوڑیں ہمارا کیا ہے مجھ پہ جو قیامت گزرنی تھی گزر چکی آپ سلامت رہیں، آپ کے بچے سلامت رہیں۔ میں نے سکول میں حدیث پڑھی تھی کہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہوتے ہیں۔ سچ بتائیں کیا میں بھی آپ کے جسم کا حصہ ہوں؟ کیا آپ میرا دکھ محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ کو میرے زخموں کا اندازہ ہے؟ سچ بتائیں، کیا عالم اسلام اہل غزہ پر گزرنے والی قیامت کا اندازہ ہے؟ اگر آپ میرا دل رکھنے کو ہاں کہیں گے تو پھر مجھے بتائیں پاکستان سعودی عرب ایران، شام، عراق، ترکی، تیونس، مصر، لیبیا میں اتنے تزک و احتشام کے ساتھ عید کیوں منائی جا رہی ہے۔ کیا آپ مجھے بھول گئے میری بہن فاطمہ کی لاش کو بھول گئے۔ آپ سن لیں۔ آج میں بالکل تنہا ہوں میرے سر پر کوئی ہاتھ رکھنے والا ہے نہ میرے ہاتھ پر عیدی رکھنے والا، یہ عالم اسلام کس چیز کا نام ہے؟ کوئی مجھے بتا رہا تھا کہ عالم اسلام بہت امیر ہے، عرب ممالک کے پاس بہت دولت ہے ان کا تیل پوری دنیا کی معیشت چلاتا ہے۔ کوئی مجھے بتا رہا تھا کہ یہ اسرائیل عالم اسلام کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔ تو پھر مجھے بتائیں کہ اسرائیل میری بہن فاطمہ بھائی بلال جیسے سینکڑوں بچوں کا قاتل کیوں ہے؟ اسرائیل ہمارا خون کیوں بہا رہا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ہمیں موت بانٹ کر چلا جاتا ہے۔ ٹھہریں یہ شور سا بلند ہو رہا ہے۔ میں دیکھ آؤں …… ایک جنازہ تھا ملبے میں سے درجنوں لاشیں برآمد ہو رہی ہیں، کچھ دیر بعد ایک جنازہ برآمد ہوتا ہے۔ کیسی عجیب عید ہے نا، ہر طرف آہیں سسکیاں فریادیں، الا امان الامان کی دہائی، دفناتی میتوں پر بے بسوں کی چیخیں، میں سہی ہوئی ہوں ابھی میں نے اپنے بابا کی قبر پر جانا ہے پر وہ مجھے عیدی تو نہیں دے سکیں گے۔ ماں کی قبر پر بھی جاؤں گی، اسے کہوں گی ماں اٹھو میرے سر پر تیل لگا میرے بالوں کی مینڈھیاں بناؤ، میرے پاس ایک گڑیا ہے اس کی آنکھیں نہیں اس کی ایک ٹانگ بھی غائب ہے یہ گڑیا میرا بھائی فاطمہ کے لئے لایا تھا۔ لیکن میں نے اسے چھین لیا تھا۔ آج میں یہ گڑیا فاطمہ کو واپس کر دوں گی۔ ہر سال میں اسے عیدی بھی تو دیتی تھی۔
اچھا چلیں آپ عید منائیں مجھے بھول جائیں، تاریخ میں جب مسلمانوں کی کھو پڑیوں کے مینار بنتے تھے تو اس میں فاطمہ جیسی کئی معصوم سر بھی ہوتے تھے۔ ایک بار پھر اگر مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ میں سوچتی ہوں ہم تو مجبور ہیں لیکن عالم اسلام بھی کئی صدیوں سے مجبور رہی ہے۔ میرا دل کرتا ہے اسرائیل والے مجھے بھی مار دیں اب میں اکیلے رو کر کیا کروں گی۔ چلتی ہوں اٹھتی ہوں مجھے اپنی پناہ گاہ پہنچنا ہے۔ آپ کو عید مبارک!