وہ وقت جب ’دیامیر‘ میں نذرآتش کیاگیالڑکیوں کا سکول صرف پانچ دن میں بحال کرکے وہیں تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردی گئیں
گلگت (ویب ڈیسک) ضلع دیامر کی وادی داریل میں نامعلوم شرپسندوں کی طرف سے رات کی تاریکی میںنذرآتش کیاگیا سکول صرف پانچ روز میں بحال کردیاگیا، یہ بحالی گزشتہ سال وسط نومبرمیں کی گئی تھی ۔
تفصیلات کے مطابق دیامر پولیس ایمرجنسی کنٹرول روم نے بتایا تھاکہ تین شرپسند سکول کو آگ لگاکر فرار ہوگئے تھے جس کے نتیجے میں فرنیچر اور دیگر سامان مکمل طور پر جل کر راکھ ہو گیا۔طالبات کاکہناتھاکہ ’ ہم پڑھنا چاہتی ہیں، ہمارے سکول کو کس نے آگ لگائی، موسم جیسا بھی ہو، ہم پڑھنا چاہتی ہیں، ہم تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر اور ٹیچر بنیں گی ، حالات جیسے بھی ہوں تعلیم کا حصول ترک نہیں کریں گی‘۔
حکومتی ترجمان علی تاج کے مطابق اس وقت کے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے اس واقعے کی تحقیقات اور سکول کی فوری مرمت کر کے تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کا حکم دیا جبکہ سکول جلانے کے باوجود طالبات کی پڑھائی کا سلسلہ جاری ہے اور گرلز کوسکول کے قریبی ہی ہیڈماسٹر کی رہائشی عمارت میں منتقل کردیا گیا تھا تاکہ ایک دن بھی تعلیم کا حرج نہ ہو۔
انتظامیہ اور مقامی افراد نے سکول کی جلی ہوئی عمارت کی بحالی کے کام کا آغاز کیا اور پانچ دن میں ہی اسی سکول کے اندر تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوگئیں۔اس وقت کی پارلیمانی سیکریٹری ثریا زمان نے بتایا کہ 2018ءمیں ہمارے 12سکول جلے تھے لیکن کسی نے مذمت ہی نہیں کی ، اس دفعہ لوگ آگے آئے اور احتجاج کیا، یہ سکول پانچ دن میں ہی آپریشنل ہوگیا۔چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے بتایا کہ ہم نے نہ صرف سسٹم میں خلل نہیں آنے دیابلکہ پہلے سے بہتری لائے ہیں، پہلے آئی ٹی لیب اور لائبریری نہیں تھی ، اب وہ بھی بن گئی، خوبصورتی بھی بڑھ گئی ، اس سکول کا شمار گلگت کے چند اچھے سکولوں میں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کاوش سے ایک بچی بہت خوش ہوئی کہ اپنے گھر سے کام کرنیوالے تما م لوگوں کے لیے چائے بنا لائی جو اس کی طرف سے چھوٹا سا تحفہ تھا۔
ان کاکہناتھاکہ سکول کی حفاظت کے لیے ’تحفظ کمیٹیاں‘ بنادی ہیں جس میں مقامی نمائندگی ہے اور لیویز کی ڈیوٹی بھی لگادی ہے ، سکاﺅٹس کی بھی پٹرولنگ میں اضافہ کردیاگیا۔