جنگ کیوں ضروری ہے؟  (2)

  جنگ کیوں ضروری ہے؟  (2)
  جنگ کیوں ضروری ہے؟  (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فریقین جنگ میں مندرجہ بالا بڑے فریقوں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے دوسرے ممالک بھی شامل تھے۔ محوری ممالک میں بلغاریہ، فن لینڈ، ہنگری، رومانیہ اور تھائی لینڈ کو بھی شمار کیا جاتا ہے، جبکہ اتحادیوں میں البانیہ، آسٹریلیا، بیلجیئم، برازیل، کینیڈا، چین، ڈنمارک، ایتھوپیا، یونان، ایران، انڈیا، عراق، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، پولینڈ، جنوبی افریقہ اور یوگو سلاویہ شامل تھے…… ان ممالک کو طوعاً وکرعاً اس لئے شریکِ جنگ ہونا پڑا کہ اس کے سوا، ان کے  پاس کوئی اور چارۂ کار نہ تھا۔

ہلاک شدگان اور مجروحین

مندرجہ ذیل گوشوارے میں دونوں فریقوں کے ہلاک شدگان اور مجروحین کی تعداد بالترتیب دی جا رہی ہے، (ان دونوں تعدادوں کو اس گوشوارے میں ہم نے یکجا کر دیا ہے)

محوری ممالک

ملک

آبادی

ہلاک شدگان اور مجروحین

جرمنی

8½ کروڑ

70لاکھ

جاپان

7کروڑ

30لاکھ

اٹلی

4کروڑ 36لاکھ

2لاکھ 50ہزار

بلغاریہ

70لاکھ

50ہزار

فن لینڈ

40لاکھ

42ہزار

ہنگری

ایک کروڑ

40ہزار

رومانیہ

2کروڑ

30لاکھ

اتحادی ممالک

برطانیہ

4کروڑ 80لاکھ

30لاکھ

فرانس

4کروڑ10لاکھ

50لاکھ

امریکہ

13کروڑ

41لاکھ

روس

17کروڑ

2کروڑ50لاکھ

البانیہ

20لاکھ

25ہزار

آسٹریلیا

1کروڑ

30ہزار

بیلجئم

80لاکھ

10ہزار

برازیل

3لاکھ

ایک ہزار

کینیڈا

1کروڑ

40ہزار

چین

70کروڑ

30لاکھ

ڈنمارک

40لاکھ

10ہزار

ایتھوپیا

3لاکھ

5ہزار

ایران

2کروڑ 60لاکھ

45ہزار

عراق

5کروڑ

25ہزار

ہالینڈ

90لاکھ

6ہزار

نیوزی لینڈ

20لاکھ

18ہزار

ناروے

3کروڑ 30لاکھ

5ہزار

اس گوشوارے سے قارئین کو معلوم ہو گا کہ اس جنگ میں اکیلے روس کے ہلاک شدگان اور مجروحین کی تعداد، اب تک لڑی جانے والی دنیا کی کسی بھی جنگ سے زیادہ تھی۔ روس کے بعد جرمنی، پولینڈ، جاپان اور چین کا نمبر آتا ہے…… کل ملا کر اس جنگ میں 5 کروڑ سے زائد انسان لقمہء اجل بنے یا زخمی ہوئے۔ ان میں 75 فی صد باقاعدہ جنگ وجدل میں ہلاک ہوئے، جبکہ کولیٹرل نقصانات کا تخمینہ 25 فیصد لگایا گیا ہے۔ اس جنگ کے مالی اخراجات کا اندازہ 10ٹرلین امریکی ڈالر لگایا گیا تھا۔

 (یہ اعدادوشمار ہم نے انسائیکلوپیڈیا بریٹنیکا، براسی کے انسائیکلوپیڈیا آف ملٹری ہسٹری اور ”اے ڈکشنری آف وار مرتبہ ڈیوڈ ایجن برگر“ سے لئے ہیں۔ یہ تمام کے تمام تاریخی ماخذ دنیا بھر میں اس جنگ پر مصدقہ ماخذ تصور کئے جاتے ہیں۔ جہاں کہیں کوئی معمولی فرق تھا، وہاں ہم نے ”براسی (Brassey) کے انسائیکلو پیڈیا آف ملٹری ہسٹری“ کو ترجیح دی)

واقعات

یہ جنگ جن محاذوں پر لڑی گئی ان میں چار بڑے محاذ یعنی 1 یورپ۔ 2۔ افریقہ (اور مشرق وسطیٰ) 3۔ بحراوقیانوس۔ 4۔ بحرالکاہل (اور مشرق بعید) شامل ہیں۔ جدید عسکری اصطلاح میں محاذ کا حجم اگر ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو اس کو ”تھیٹر آف وار“ کہا جاتا ہے، بنابریں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ جنگ چار بڑے ”جنگی تھیٹروں“ میں لڑی گئی…… البتہ سوویت مورخین محاذ اور تھیٹر میں کوئی فرق نہیں کرتے اور ان تھیٹروں کو، محاذ (Fronts) ہی کا نام دیتے ہیں۔

زمانی اعتبار سے اس جنگ کو کئی مراحل (Phases) میں تقسیم کیا جاتا ہے…… پہلا مرحلہ ستمبر 1939ء میں جرمنی کے پولینڈ پر حملہ کرنے سے شروع ہوا۔ پھر چھ ماہ بعد مئی 1940ء میں جرمنی نے فرانس پر بھی حملہ کر دیا……دوسرا مرحلہ جرمنی کی طرف سے روس پر حملے سے شروع ہوا، جس کا آغاز جون 1941ء میں ہوا۔ روس کے خلاف یہ جنگ 1945ء کے اوائل تک مسلسل جاری رہی…… 1940ء ہی میں تیسرے مرحلے کا آغاز بھی بحیرۂ روم میں معمولی جھڑپوں سے ہوگیا تھا، جو 1943-44ء میں سرزمین اٹلی کے خونریز معرکوں میں بدل گیا…… چوتھا مرحلہ اس مرحلے کو کہا جاتا ہے جب جاپان نے دسمبر 1941ء میں پرل ہاربر پر حملہ کیا اور آن کی آن میں سارے مشرق بعید کو روندتا ہوا ایک طرف انڈیا اور دوسری طرف آسٹریلیا تک جا پہنچا۔ امریکہ کو جاپان کے ان مقبوضات سے بے دخل کرنے میں ساڑھے تین سال لگ گئے۔ 

ان تمام مراحل میں بحراوقیانوس اور بحرالکاہل میں آبدوزوں کی خوفناک جنگ بھی جاری رہی اور محاذ کی تمام فضائیں جنگی طیاروں کی گھن گرج سے بھی گونجتی رہیں …… بعض مورخین کے نزدیک ان مراحل کی تعداد چھ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ان کی کچھ  مزید تفاصیل درج ذیل ہیں:

پہلا مرحلہ

جنگ کا باقاعدہ آغاز جرمنی نے یکم ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر حملہ کر کے کیا۔ 3 ستمبر 1939ء کو برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا، لیکن جرمنی  پولینڈ پر قبضہ کرنے کے بعد چھ سات ماہ تک خاموش رہا۔ روس اس وقت تک جرمنی کا اتحادی (حلیف) تھا۔ اس نے بھی مشرقی پولینڈ پر قبضہ کر لیا۔ یعنی پولینڈ کو ہٹلر اور سٹالن نے آپس میں آدھا آدھا بانٹ لیا۔ اس چھ ماہ کی مدت میں روس نے فن لینڈ پربھی حملہ کر دیا۔ فن لینڈ روس کے مقابلہ میں بہت چھوٹا ملک ہے۔ تاہم اس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آخر میں گو شکست کھا گیا۔ لیکن 

مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

انہی ایام میں اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی نے ہٹلر کا ساتھ دیا اور جنگ میں شریک ہو گیا۔  افریقہ میں اٹلی کے بہت سے مقبوضات تھے اور یہی حال برطانیہ کا بھی تھا۔ اس مرحلے میں برطانیہ اور اٹلی کے درمیان (افریقہ میں) معمولی لڑائیاں ہوتی رہیں، جن میں برطانیہ کا پلہ بھاری رہا۔

دوسرا مرحلہ

دوسرا مرحلہ 1940ء کے موسم بہار میں شروع ہوا۔ جرمنی نے ڈنمارک، ناروے اور ہالینڈ کو روند کر ان پر قبضہ کر لیا اور ساتھ ہی فرانس پر بھی چڑھائی کر دی۔ برطانیہ کی ایکس پیڈ نشری (سمندر پار) افواج جو فرانس میں مقیم رہتی تھیں، وہ بھی میدان میں اتر آئیں، لیکن جرمنی نے فرانس اور برطانیہ دونوں کو شکست فاش دی اور برطانیہ کو ڈنکرک کی راہ واپس اپنے انگلستان کی طرف بھاگنا پڑا۔ جرمنی نے جون 1941ء میں فرانس پر مکمل قبضہ کر لیا۔ اس طرح سارا مغربی یورپ (ماسوائے برطانیہ)  محوری طاقتوں (جرمنی، اٹلی، روس) کے زیر نگیں ہو گیا۔ (جیسا کہ پہلے کہا گیا اس وقت تک روس، جرمنی کا حلیف تھا جو بعد میں اتحادیوں میں شامل ہو گیا) ان ایام  میں ساری دنیا کو توقع تھی کہ جرمنی اب انگلستان پر چڑھائی کر دے گا اور براعظم یورپ کا یہ آخری ملک بھی محوریوں کے تسلط میں چلا جائے گا، لیکن ہٹلر نے برطانیہ پر گراؤنڈ اٹیک کی بجائے ائیر اٹیک کو ترجیح دی۔ جرمنی اور برطانیہ کی اس فضائی جنگ کو تاریخ میں ”برطانیہ کی لڑائی“ (بیٹل آف برٹن) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس فضائی لڑائی میں جرمنی کے 1400 طیارے تباہ ہوئے،جبکہ برطانیہ کا نقصان 800 طیارے تھا۔ ہٹلر نے شائد اسی کثیر فضائی نقصان کی بناء پر برطانیہ پر زمینی چڑھائی کا ارادہ ملتوی کر دیا اور اپنا رخ مشرق کی طرف موڑ لیا۔

تیسرا مرحلہ

1941ء کے آغاز میں جرمنی نے بلقانی ریاستوں پر حملہ کر دیا اور یوگو سلاویہ اوریونان پر قبضہ کر لیا۔ برطانیہ نے جو فورسز یونان کی مدد کو بھیجی تھیں، ان کو جرمن افواج نے شکست دے کر وہاں سے نکال دیا اور بحیرۂ روم میں داخل ہو گئیں اورپھر اسے عبور کر کے شمالی افریقہ میں جا پہنچیں۔ یہاں جرمنی کا حلیف اٹلی اپنے مقبوضات کو بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔

جرمنی جو اب تک روس کا اتحادی تھا، یکایک روس کا دشمن بن گیا اور 22 جون 1941ء کو جرمن فوجیں روس میں داخل ہو گئیں۔ روسی حیران و پریشان تھے۔جرمن افواج منزلیں مارتی ماسکو کے دروازوں تک پہنچ گئیں اوراگر 1941ء کا موسم سرما وقت سے دو تین ہفتے پہلے شروع نہ ہو جاتا تو جرمنی کا ماسکو پر قبضہ کر لینا یقینی تھا۔ جب 1942ء کا آغاز ہوا تو جرمن فورسز ماسکو اور سٹالن گراڈ تک پہنچ کر رکنے پر مجبور ہو گئیں …… جرمن سپاہ پر جنگ کی تکان (Fatigue) بھی اپنا اثر دکھا رہی تھی۔

یہی وہ ایام بھی تھے، جب جرمن آبدوزیں (یو بوٹس) بحراوقیانوس میں اتحادی بحری جہازوں پر کامیاب حملے کر رہی تھیں۔ برطانیہ کا تو سارا دارومدار ہی بحری تجارت پر تھا۔ اس کے سمندر پار مقبوضات، بحراوقیانوس کے پانیوں کی بین الاقوامی آزادی کے مرہونِ احسان تھے۔ 1943ء تک برطانیہ کو جرمن گراؤنڈ یا ائیر فورسز سے کوئی بڑا خطرہ نہ تھا، بلکہ خطرہ تھا تو صرف جرمن یو بوٹس سے تھا۔ 1939ء کے اختتام پر برطانیہ کی بحری تجارت کا حجم بہت کم ہوگیا۔ لیکن جب دسمبر 1941ء میں امریکہ جنگ میں شامل ہوا تو جرمن آبدوزوں کا مقابلہ کرنے کے آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ اس مشکل وقت میں امریکہ کی بحری جہاز سازی کی صنعت نے اتحادیوں کو بہت سنبھالا دیا۔ 1942ء کے اواخر میں جرمن آبدوزوں کے بیڑے کو دفاع پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ اتحادیوں کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -