سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 30

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 30
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 30

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس کے پہیے لو ہے کے تھے لیکن ان پر لوہے کی چادریں اس طرح چڑھی ہوئی تھیں کہ وہ آگ سے محفوظ ہو گئے تھے۔ یہ ”دبابہ “ بھی رچرڈ کی منجنیق سے لمبائی میں کچھ ہی چھوٹا تھا لیکن حجم میں اس سے کافی زیادہ تھا ۔ نائیٹوں کے اسکوائر اور اسلحہ بردار اور خدمت گار اپنے خیموں کے سامنے جن پر ان کے آقاﺅں کے نشان اڑ رہے تھے۔ بیٹھے ہوئے بکتر کے فولادی آئینوں پر صیقل کر رہے تھے۔ تلواروں پر باڑھ رکھ رہے تھے ۔ نیزوں کی انی چمکار ہے تھے اور گھوڑوں کے فولادی پاکھروں کی ٹوٹی ہوئی کڑیاں جوڑ رہے تھے۔ اب ٹمپلرز اور ہاسپٹلرز کے ان شہسواروں کی قیام گاہیں تھیں جو رچرڈ سے وابستہ تھے۔ ان کے دروازوں میں اونی پردے طنابوں میں بندھے ہوئے تھے اور گھوڑے اونی پردوں میں لپٹے سنہنا رہے تھے۔ کہیں کہیں شہسوار اپنے ہتھیاروں کی نمائش کے نشے میں چور مرغوں کی طرح سینے پھلائے مسیحی لشکر کی قوت و شوکت کا سستا اظہار کر رہے تھے۔ پھر رچرڈ نے اسے اپنے شکاری چیتے ، باز ، شکر ے اور کتے دکھلائے۔ ان کے نسب اور کارنامے بتلائے۔ یہاں تک کہ مغرب کا وقت آگیا۔ ظہر اور عصر کی طرح رچرڈ کے خیمہ خاص میں وزیر ابو بکر نے اذان اور خود اس نے نماز پڑھائی۔
رچرڈ کے خیمہ خاص پر خود اس کا ذاتی علم اڑ رہا تھا جس کے سرخ پھر یرے پر ایک شیر تاج پہنے، ایک ہاتھ میں تلوار،دوسرے میں صلیب لئے پچھلے پیروں پر کھڑا دہاڑ رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف قنات بندی کے سامنے مسلح سوار پہرے پر کھڑے تھے اور دروازوں کے سامنے دیوداراور شاہ بلوط کے گدے جل رہے تھے جن کی روشنی اور گرمی میں بہت سے ملازمانِ خاص اونی چرمی اور سمور کی انوچی چست قبائیں ، ایک ایک پیر میں ایک ایک رنگ کے موزے پہنے، مہمیزیں لگائے، نمدے کی اونچی اور پھیلی ہوئی ٹوپیوں پر عقاب کے پروں کی کلغیاں لگائے ہجوم کئے کھڑے تھے۔ اندر پھیکے رنگوں اور بھدے نقوش کے پتلے قالین بچھے تھے۔ وسط میں چاندی کی اونچی بدشکل کرسیاں ایک ہشت پہلی منیر کے گرد پڑی تھیں۔ ان کے پاس لکڑی کے چمکیلے تختوں پر کانسی کے گول برتنوں میں انگار ے دہک رہے تھے ۔ مشرقی اونی دیوار کے نیچے اونچی مسہری کے پردے بندھے ہوئے تھے۔ سرہانے کانسی کی ایک الماری رکھی تھی جس پر چاندی کے عوددان میں عود سلگ رہا تھا۔ شمالی دیوار میں ایک چوڑا چکلا دروازہ تھا جس پر ریشمیں مہین پردہ پڑا تھا۔ چاروں کونوں میں آبنوس اور چاندی اور چاندی کی برہنہ، بدہیت عورتوں کے سروں پر رکھے طشتوں میں پیوست موٹی خوشبودار شمعیں جل رہی تھیں۔ اس کے علاوہ شمعدانوں کا ایک حلقہ کرسیوں کے چاروں طرف بھی کھڑا تھا۔ جن کی لویں بھاری پردوں کے باوجود لرز رہی تھیں۔ خیمے کے ننگے شہتیروں کی ساری کھونٹیوں میں ننگی تلواریں ، تکونی ڈھالیں اور نیزے لٹک رہے تھے۔ ایک کراہت پر اس نے چونک کر دیکھا۔ مسہری کے نیچے سے ایک غیر معمولی قدوقامت کا زرد کتا نکلا اور دونوں پیروں پر کھڑا ہو کر رچرڈ سے لپٹ گیا ۔ جو اس سے بیٹھنے کی گزارش کر رہا تھااور شریر بچوں کی طرح بہلا رہا تھا اور اس کے دور تک چرے منہ پر پیار سے تھپکیاں دے رہا تھا۔ اس کے بیٹھنے کے ساتھ ہی لی سسٹر کا ارل اندر آیا اور رچرڈ کی کرسی کے پہلو میں گھٹنوں پر کھڑا ہو گیا۔ رچرڈ نے اسے اپنا کان پیش کیا۔ پھر ارل اٹھ کر باہر چلا گیا۔ رچرڈ تھوڑی دیر نگاہیں جھکائے بیٹھا رہا پھر بولا۔
”ہمارے عزیز دوست تو ہمارے خیمہ خاص میں آرام فرمائیں گے لیکن محافظ دستے کے افسر اسلامیوں کے مشہور سپہ سالار تقی الدین نے مہمان خانے میں جانے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آراستہ گھوڑوں کے ساتھ بغیر کمر کھولے آرام کریں گے۔ کیا یہ فیصلہ ہمارے عزیز دوست کی مرضی سے کیا گیا ہے ؟ “

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 29

”نہیں ۔۔۔یہ سلطانِ اعظم کا حکم ہو گا۔ “

”سلطانِ اعظم جو بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔ ایک دوسرے بادشاہ کے قول پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟ “
”اس لئے کہ بادشاہوں نے جو آپ کے لشکر میں اپنے خدم و حشم کے ساتھ تلواریں ہلاتے ہیں۔ سلطان اعظم کے ساتھ پیمان شکنی کی ہے ۔ہمارے خیموں میں انجیل پر ہاتھ رکھ کر کھائی ہوئی قسموں کو فراموش کر دیا ہے ۔ “
”مثلاً ؟ “
”شاہ یروشلم ۔۔۔اور صور کا ہالیان۔“
”یہ تو دیسی عیسائیوں کی بات ہوئی ۔ مغرب کے سورماﺅں نے تو کوئی ایسی نظیر نہ پیش کی ہو گی۔ “
”بڑے بڑے مغربی نوابوں اور نائیٹوں نے جن کی جانیں ان کی بیویوں اور بہنوں کی سفارش پر ہمارے سلطانِ اعظم نے بخش دی تھیں، انہیں بادشاہوں کے لشکر میں شامل ہو کر عیسائی افواج کی قوت بڑھائی ہے۔ “
”ہو سکتا ہے کہ اس بیان میں صداقت ہو لیکن اس کا بھی امکان ہے کہ عکہ کی شکست کے بعد سلطان اعظم زیادہ محتاط رہنے لگے ہوں گے۔“
”ہمارے عزیز دوست کے ندیم اور سفیر جس دھوم دھام سے عکہ کی فتح کا ذکر کرتے ہیں وہ ان کو زیب دیتا ہے لیکن ہمارے میزبان کی شاہی زبان سے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ “
”کیوں؟“
”ہمارے میزبان بادشاہ نے پانچ ملکوں کی پانچ لاکھ فوج اور سارے یورپ کے بحری بیڑے کی مدد سے ایک عکہ فتح کر لیا ہے ۔ عکہ جس میں ہماری بیس ہزار محصور فوج لڑ رہی تھی اس کو اس طرح فتح کیا گیا کہ ہزاروں جانیں تلف کر لیں ، بڑے بڑے نواب ، نائٹ اور امیر کھو دیئے۔ جب کہ ہمارا کوئی قبالِ ذکر آدمی ضائع نہیں ہوا۔ یہی نہیں بلکہ آپ کو عکہ اس وقت مل سکا جب ہمارے سلطان اعظم کی موت کی جھوٹی خبر محصور ین میں پھیلا دی گئی اور انہوں نے بدحواسی میں ہمت چھوڑ دی۔ معز ز بادشاہ ! عکہ تو ایک مورچہ تھا جسے آپ نے لے لیا ۔ اصل لڑائی تو ابھی شروع نہیں ہوئی۔ لڑائی تو بیت المقدس کے دروازوں پر لڑی جائے گی اور اس طرح لڑائی میں شریک ہونے والی افواج کو طلبی کے فرمان تک نہیں لکھے گئے۔ ابھی توہم۔۔۔“
”کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ عزیز دوست کہ ہم اپنی خون آلود تلواریں نیام کر لیں۔ ایک دوسرے کے ہاتھ میں دوستی کا ہاتھ دے کر کوئی ایسی تجویز ڈھونڈ نکالیں جو ہمارے عظیم مذاہب اور سلطنتوں میں ہمیشہ کے لئے امن و آشتی کی صورت پیدا کر دے۔ ہمارے درمیان کھڑی ہوئی دیوار ڈھادے، صدیوں کی بھڑکتی ہوئی آگ بجھا دے ، آنے والی صدیاں آنے والی نسلوں کے خون سے محفوظ ہو جائیں۔ “
”اسی تجویز کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے توہم انگلستان کے بادشاہ کے خیمے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ “
شمالی دیوار کے ریشمیں پردے پر ایک نسوانی سایہ ابھرا جو رچرڈ کی پشت پر اور اس کی آنکھوں کے سامنے تھا جسے ترجمان کنکھیوں سے بھی دیکھنے کی جسارت نہیں کر رہے تھے۔ رچرڈ نے بارگاہ کے وسط میں جھولتے ہوئے فانوس سے نگاہ ہٹالی اور اپنی دونوں نیلی آنکھیں اس کی گود میں ڈال دیں۔
”ہم نہیں جانتے کہ ہماری شرط سن کر ہمارے عزیز دوست کا جلیل المرتبت بھائی کیا کہے گا،کیا سوچے گا۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارے جھنڈے کے نیچے کھڑی لاکھوں تلوار یں اسے کس طرح انگیز کریں گی لیکن پھر بھی ہم اپنا دل اپنے دوست ، اپنے بھائی کے سامنے نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ مشرق و مغرب میں دائمی دوستی کی سچی بنیادیں قائم ہو جائیںاور خون کی ندیاں سوکھ جائیں ۔“
”ہم ہمہ تن گوش ہیں۔“
”آپ صقلیہ کے مرحوم بادشاہ کو جانتے ہوں گے۔“
”ہاں وہ ہمارے حلیف تھے۔ “
”ان کی بیوہ ہماری بہن ہے ۔“
”ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس کے رشتے سے ہمارے قریب ہو جائیں ۔ ہمارے عزیز ہو جائیں۔ “
”میں۔۔۔یعنی ملک العادل یا۔۔۔“
”ہاں آپ ۔۔۔سیف الدین ملک العادل نائب السلطنت سپہ سالارِ اعظم۔“
”ہم اپنی بہن جین کے جہیز میں صور اور عکہ دے ڈالیں گے۔ آپ سلطان اعظم سے بیت المقدس اور اس کے مضافات مانگ لیں۔ اس طرح جو سلطنت وجود میں آئے گی اس پر آپ بادشاہت کریں گے ۔ یروشلم پر دونوں مذاہب کا قبضہ رہے گا۔ مسلمانوں کے تحت ان کے مقامات مقدسہ ہوں گے اور عیسائیوں کے عمل میں ان کے عبادت خانے ہوں گے اور فلسطین مشرق و مغرب کاسنگم قرار پائے گا۔ آپ کی پشت پر یعنی صقلیہ پر آپ کے بیٹے کی حکومت ہو گی جس کی تلوار یں آپ کی حفاظت کریں گی۔ اور مشرق میں آپ کا عظیم الشان بھائی ہو گا۔ دنیا کی کوئی طاقت آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گی۔“
رچرڈ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آنکھیں جھک گئیں۔ دونوں دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔
”اگر آپ کو ذاتی طور پر یہ بات پسند ہو تو ہم سرکاری طور پر یہ گفتگو چھیڑ دیں۔ اگر آپ سلطانِ اعظم کو رضا مند کر لیں تو ہم یورپ کو ہموار کر لیں۔ “
اس نے دیر کے بعد جواب دیا۔
”سلطان اعظم سے مشورہ کئے بغیر فیصلہ کن جواب نہیں دیا جا سکتا۔“
”ہماری ملاقات کو چند گھنٹے ہوئے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہم ایک دوسرے کو مدت سے جانتے ہیں۔ ایک زمانے سے چاہتے ہیں۔ آپ کو شخصیت میں ایسی نرمی ، نیکی اور خلوص ہے کہ ہم نے بے تکان وہ بات کہہ دی جسے یورپ کے بادشاہ اپنی زبان پر تو لانے کا کیا ذکر اپنے کانوں سے سنتے ہوئے بھی جھجکتے ہیں ۔ ہم ایک اور زاویئے سے بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہمارے علم میں ہے کہ سلطانِ اعظم کی تمام فتوحات پر آپ کی ، صرف آپ کی تلوار کا سایہ رہا ہے۔ تاہم آپ صرف ایک نائب السلطنت ہیں۔ کتنی ہی بڑی سلطنت نائب السلطنت ہو لیکن وہ ۔۔۔نائب السلطنت ہوتا ہے ۔ کیسی ہی چھوٹی سلطنت کا بادشاہ ہو لیکن وہ بادشاہ ہوتا ہے۔ ہم کو یقین ہے کہ آپ کے سلطان اعظم کی وفات کے بعد انہیں کا کوئی بیٹا تخت پر بیٹھے گا۔ اور اس کا امکان ہے کہ مشرق کی درباری سازشوں کے چکر میں آپ اس جلیل القدر منصب سے بھی ہاتھ دھولیں۔ اس لئے دور اندیشی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ آپ یورپ کی اس عظیم الشان فوج کی موجودگی میں فلسطین کا تاج پہن لیں اور زمامِ حکومت سنبھال لیں۔ ہم یہاں تک کہہ دینے میں کوئی باک نہیں سمجھتے کہ اگر سلطان اعظم اس پر رضا مند نہ ہوں تو آپ اپنے خاص لشکر کی طاقت پر ان کا ساتھ چھوڑ دیں۔ ہمارے قول پر ایک سچے بادشاہ ابن بادشاہ کے قول پر بھروسہ کر کے بنفس نفیس صلحنامے پر دستخط کر دیں باقی سب کچھ آپ کی اور ہماری فوجیں طے کر دیں گی۔
”میرے دوست اور میرے بھائی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ملک العادل سلطان اعظم کے صدہا خادموں میں سے ایک ادنیٰ خادم ہے ۔ ملک العادل کا سارا جاہ و جلال سلطان اعظم کے مراحم خسروانہ کا محتاج ہے ۔ جس وقت سلطانِ اعظم نے نگاہ پھیرلی اس وقت سارا زمانہ ملک العادل کے خلاف ہو جائے گا ۔ اور اس میں شک ہے کہ مغرب کا یہ عظیم الشان لشکر ملک العادل کے لئے ایک گاﺅ بھی بحال کراسکے گا۔ ہمارا سلطان ایک آفتاب ہے جس کے عطا کئے ہوئے نور نے بہت سے ذروں کو چاند ستاروں کی خلعتیں پہنا دیں۔ اگر یہ سورج اپنی کرنیں سمیٹ کر رکھ لے تو تمام چاند ستارے بے نور ہو کر رہ جائیں گے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ سلطانِ اعظم اس مشورے پر ہمدردی کے ساتھ غور فرمائیں گے اور توقع ہے کہ شرط کو تسلیم فرما لیں گے۔“
پھر اس نے تالی بجائی اور غیر مسلح خدمت گار آکر کھڑے ہو گئے۔ اورحکم کی تعمیل میں بارگاہ کی شمالی دیوار کے دروازے پر غروب ہو گئے۔(جاری ہے)

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں