سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 29
وہ اپنے حقیقی ایک حد تک ہم شکل اور ہم عمربھائی کی صورت اور شباہت پہنے کھڑا تھا۔ فولادی زیر جامے پر کشمیری چادر کا ازار اور سفید اونی صدری پہنے تھا جس کے کف اور گریبان اور دامن زرد تھے ۔ اس پر بخارا کے سمور کا کفتان تھا۔ جس کے تکمے مسلم یا قوت کے تھے۔ آستینوں اور دامن اور شمسوں پر سونے کے تاروں کے جال میں نورتن کی جواہر دوزی تھی۔ مرصع کمر بندمیں ایک ڈال کے پکھراج کے قبضے کی تلوار خالص سونے کا نیام پہنے لٹک رہی تھی۔ آہنی ٹوپی، سفید عمامہ تھا جس کے قلب میں وہ ہیرا جگمگا رہا تھا جو یورپ کے کئی تاجروں کے جواہرات خرید سکتا تھا۔ اس نے قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر آخری بار تنقیدی نگاہ ڈالی اور ملک العادل کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
ملک العادل نے گردن جھکا کر عرض کیا۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 28 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’آفتاب نے ایک ذرہ کا بھیس تو بنا لیا لیکن یہ آنکھیں جن کے سامنے الموت کے ظالم عقابوں کی آنکھ جھپک گئی اور تیوروں کا یہ جلال جس نے بڑی بڑی حکومتوں کے کار خانے الٹ دیئے اسی طرح روشن ہیں، اسی طرح شعلہ زن ہیں۔‘‘
’’لشکر ؟‘‘
’’تیار ہے۔۔۔‘‘
’’سوڈان سے کر دستان تک اور یمن سے مصر تک تمام نامور قبیلوں اور خاندانوں کے ایک ہزار چشم و چراغ خاص برداریوں کا لباس پہنے درگاہ سلطانی پر حاضر ہیں ۔ بیس ہزار بے خطاتیر انداز ایک ہزار اونٹوں پر تبر لادے رچرڈ کے خیمے کو زد میں لئے پہاڑی مورچوں پر مستعد ہیں ، پچاس ہزار جانباز کفن پہنے بجلی کی تلواریں علم کئے ہوا کے گھوڑے پر حکم کے منتظر ہیں اور یہ غلام دس ہزار منتخب سواروں کے جلو میں بادشاہی علم اٹھائے سلطانی گھوڑے پر سوار کھڑارہے گا جب تک اسلامیوں کا تاجدار رچرڈ کے خیمے سے واپس نہیں آجاتا۔‘‘
’’کتنے آدمیوں کو ہماری اس روانگی کا علم ہے جو ہمارے شایانِ شان نہیں۔ ‘‘
ؔ ’’صرف سات سرداروں کو وہ بھی اس لئے کہ اگر نصیبِ دشمناں کو ئی بداقیالی ظہور میں آئے تو ہم ایسی خونریز لڑائی لڑ سکیں جو تاریخ عالم میں بے مثال ہو ۔‘‘
’’ایک التماس اور سلطان اعظم ۔
’’تقی الدین اور اس کے خاص آدمیوں کے پاس کچھ کبوتر ہیں۔ وہ اس لئے ہیں کہ اگر غداری کا شبہ ہو تو چھوڑ دیئے جائیں اور جس وقت وہ ہمارے لشکر میں آئیں اسی گھڑی ہم رچرڈ کے خیمے پر جا پڑیں۔
’’تقی الدین اور اس کے خاص سواروں کو حکم ہے کہ وہ رات میں بھی اپنی کمر نہ کھولیں اور کسے ہوئے گھوڑوں کے ساتھ آرام کریں۔ ‘‘
پھر وہ برآمد ہوا۔ رکاب میں پاؤں ڈالتے ہی نقارے پر چوٹ پڑی۔ نیلے شیشے کے آسمان پر چمکیلے سورج کی تیز دھوپ میں برف پہاڑیاں جگمگا اٹھیں اور وہ ایک ہزار خاص برداروں کے حلقے میں چلا جن کی رانوں میں تڑپتے ہوئے ایک ایک سفید عربی گھوڑے کی قیمت جزیرہ انگلستان کے ایک ایک صوبے کے لگان سے زیادہ تھی۔ وہ سر سے پاؤں تک سفید اونی زردوز لباس میں طبوس تھے اور ان کی جواہر نگار زریں کمر بندوں میں جڑاؤ قبضے کی تلواریں خاص چاندی کے نیام پہنے جھول رہی تھیں۔ کمسن سواروں کے بے ریش و بروت چہرے شجاعت و جلاوت کی آگ سے دہک رہے تھے جب وہ ارسوف کی شہر پناہ کے نیچے پہنچا تو سپہ سالار تقی الدین نے ملک العادل کے مشہور علم کو جس کے سبز پھر یرے پر سنہرا شیر بنا تھا تکان دی اور خاص بردار دو قطاروں میں تقسیم ہو گئے اور چار چار گھوڑے اس کے دونوں بازوؤں پر چلنے لگے۔ باقی لشکر تا جداران کیفا اور ماردین کی کمان میں ٹھہر گیا اور پھیل کر مورچہ بندی کرنے لگا۔ باجے کے اونٹوں کا دستہ عقب میں آگیا جن کی اپنی گردنوں میں سونے کے گھنگھروؤں کی ہمیلیں ، ماتھے پر سونے کے چاند، پیروں میں چاندی کے کھنکتے جھانجھن اور بدن پر زرد اطلس کی جھولیں پڑی تھیں جن کے حاشیے پر چاندی کے گھنگھر و ٹنکے تھے فصیل پر کھڑے ہوئے ہزاروں بچے اور عورتیں اور بوڑھے اس کا جلوس دیکھ رہے تھے۔ اس نے نصف چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو برابر کر لیا۔ اب رچرڈ کے سوار اپنے اونچے گھوڑوں پر جن کی پاکھریں سموں تک لمبی تھیں اس کے راستے کے دونوں طرف کھڑے تھے۔ ان کا ایک ایک رواں آہن پوش تھاصرف آنکھیں خود میں لگے چشم پوش کی جالی سے جھانک رہی تھیں۔ وہ اپنے ہاتھ میں بھاری نیزے الٹے کئے ہوئے بیچ سے تبر تھامے، بائیں ہاتھ میں لگام کی زنجیریں لئے ، بائیں شانے پر تکونی ڈھال لگائے ساکت کھڑے تھے۔ وہ ان کی قطاروں سے گزرتا ہوا اس مقام تک آگیا جہاں ایک بلندی پر فرنگی باجے بج رہے تھے ۔ اس کے سامنے دیوار کی طرح کھڑے ہوئے نائیٹوں کے گھوڑے دو بازوؤں میں تقسیم ہو گئے۔ غم کے سائے میں رچرڈ کھڑا تھا۔ وہ کھجور کی طرح اونچا اور حبشی پہلوانوں کی طرح تندرت تھا ۔ وہ مجلی بکتر پر زعفران اون کی تنگ قبا پہنے تھا جس کے دامنوں کے نیچے سرخ چمڑے کے موزے تھے۔ ان میں سونے کے پھول جڑے تھے۔ کمر کی جڑاؤ پیٹی میں وہ بھاری سیدھی تلوار لٹک رہی تھی جس کا قبضہ صلیب کی شکل کا تھا۔ سینے پر مرصع صلیب تھی جس کا آخری حصہ پیٹی کو چھوڑ رہا تھا ۔ سر پر سونے کی ایک پٹی سی بندھی تھی جس پر نیلم کا حاشیہ تھا۔ اس کے سفید رنگ پر نیلی آنکھیں اور سنہرے بال چمک رہے تھے۔
اس نے رچرڈ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور دفعتاً رچرڈ اپنے گھوڑے سے اتر پڑا۔ اس کے ساتھ ہی اس کا سارا لشکر پیدل ہو گیا۔ اب اس نے بھی رکاب سے پاؤں نکالا۔ سونے کی زنجیروں کی لگام قراقوش کے منتظر ہاتھوں میں دے کر رچرڈ کی طرف بڑھا جو اپنے دونوں ہاتھ شانوں تک اٹھائے بغل گیر ہونے کے لیے آرہا تھا ۔اسے بازوؤں میں لے کر محسوس ہوا گویا وہ دشمن فوج کو سپہ سالار بادشاہ نہیں اس کا بیٹا افضل ہے ۔ جب تک سرکاری آداب نے اجازت دی وہ رچرڈ کو اپنے آغوش میں لئے رہا۔ پھر اس کا داہنا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں لے کر اس بار گاہ کی طرف بڑھا جس کے سامنے کھڑا ہوا نائیٹوں کا پردہ ہٹ چکا تھا اور جس کے سر پر مغرب کے پانچ بادشاہوں کے جھنڈے لہرا رہے تھے رچرڈ نے ذرا جھک کر ترجمان کی زبان سے کہا۔
’’قیصر۔۔۔فریڈرک کے جانشین۔۔۔ہونے والے شہنشاہ۔‘‘
نائیٹوں کا زرکار فولادی لباس پہنے خود میں ہیرے کی کلغی لگائے ایک دراز قد نوجوان نے عصائے شاہی کو الٹے ہاتھ میں منتقل کیا اور ننگا ہاتھ پیش کر دیا۔
بادشاہ صقلیہ۔‘‘
ایک کمسن بادشاہ جو تاج پہنے تھا اور عصائے سلطانی پکڑے تھا جھک کر ہاتھ بڑھا دیا۔
’’یروشلم کے قانونی بادشاہ بالڈون۔‘‘
بالڈون نے جس کی دوبار جان بخشی کی گئی تھی شرمناک مشرق کے انداز میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔
ُُ’’آسٹریا کے لیوپو لڈ۔‘‘
’’برگنڈی کے ڈیوک اور فرانسیسی افواج کے سپہ سالار۔ ‘‘
’’لی سسٹر کے ارل ۔‘‘
’’چھوٹے چھوٹے والیانِ ملک، ڈیوک ، ارل ، بیرن ، پادری اور ملکوں ملکوں کی فوج کے سپہ سالار
’’اور آپ مشرق کی سب سے بڑی سلطنت کے نائب السلطنت عاس کر اسلامی کے سپہ سالار اعظم اور فاتح بیت المقدس کے چھوٹے بھائی۔ ‘‘
قلمکار مخمل کے سرخ ایوان میں جس کی مغربی دیوار سے لگے بہت سے سونے چاندی کے علم کھڑے تھے، ایک چاندی کا تخت پڑا تھا ا ور چند سیمیں کر سیاں پڑی تھیں۔رچرڈ نے اسے تخت پر بٹھادیا اور خود دوسرے بادشاہوں کے ساتھ کر سیوں پر بیٹھ گیا۔ باقی تمام حاضرین کھڑے رہے ۔ رسمی باتیں ہوتی رہیں ۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے کانٹے ٹٹولتے رہے۔ وہ رچرڈ کی ڈینگیں سنتا رہا جن پر چار لاکھ فوج کی موجودگی نے یقین کا سایہ ڈال رکھا تھا۔ اور رچرڈ کو دیکھتا رہا جس پر ایلینور کے ایک ایک روئیں کے مہر لگی تھی۔ وہ بوجھل سرکاری گفتگو کو بے دلی کے ساتھ سنتا رہا۔ پھر رچرڈ اسے کھانے کے لیے اٹھا لے گیا۔ کھانے کے بعد رچرڈ اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جنگی مجلس کی اس بارگاہ سے نکلا اور اپنی قیام گاہ خاص کی طرف ایسے راستوں سے چلا جن پر مغرب کے کاریگر قلعہ شکن آلات تعمیر کر رہے تھے ، مرمت کر رہے تھے۔ یہیں اس نے وہ منجنیق بھی دیکھی جو لکڑی کی ایک سات منزلہ عمارت کے مانند تھی اور تین طرف بھیگے ہوئے چمڑے سے منڈھی ہوئی تھی ۔ اسے پانچ سو آدمی اور سو گھوڑے گھسیٹتے تھے یہی وہ منجنیق تھی جسے رچرڈ نے اپنے اہتمام میں بیت المقدس کی فتح کے لئے بنوایا تھا اور جس نے عکہ پر پانچ پانچ من کے پتھر پھینکے تھے۔ اس کو دیکھتے ہوئے رچرڈ نے تن کر کہا تھا۔
’’اس کا نام فاتح یروشلم ہے ۔ ‘‘
وہ خاموش رہا اور اس ’’دبابے کو دیکھنے لگا جسے فرانس کا شہنشاہ اپنے ساتھ لایا تھا اور جیسے اس کے مشہور سپہ سالار الہکاری نے بڑی تدبیروں سے غارت کیا تھا اور اب جسے نئے سرے سے تعمیر کیا جا رہا تھا۔
(جاری ہے)