شروعات ترے ابے ّ نے کیتی سی
ایثار رانا،پریشر گروپ
یقین کریں مریم اور نگزیب آ پی کی جانب سے صحافیوں کا مقدمہ لڑنے پر دل گارڈن گارڈن ہوگیا۔مریم اورنگزیب کی صحافیوں اور صحافت سے محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں میں تو اسکا انہہ واہ آئی وٹنس ہوں اور ایسے ہی گواہ ہوں جیسے خواجہ کا گواہ ڈڈو ہوتا ہے۔مریم آپی نے شیر کی حکومت آتے ہی جس اخلاص اور اپنائیت کی چاشنی سے پی ٹی وی سے چن چن کر مجھ سمیت درجنوں صحافی نکالے پروگرام بند کئے اس سے ہم رل تو گئے لیکن چس بھی بڑی ائی۔میں جب اس عید پر اپنے بجٹ کے مطابق بکرے کے بجائے مرغی کی قربانی کی تو اسکا ثواب بھی مریم آپا کو بخش دیا۔اطلاع یہی ہے کہ پی ٹی وی سے نکالے جانے والے صحافیوں کے گھر جب بھوک جھینگا لالا گاتی ہے تو انکے بچے ریاست پاکستان کی وزیر اطلاعات کو جھولیاں چک چک کے دعائیں دیتے ہیں۔
جتنا مرضی الیکشن الیکشن کھیل لو بھائی جی یہ بات یاد رکھیں ”دلہن وہی جو پیا من بھائے“اور اپنے کپتان کے پیا تو کب کے روٹھ کر رنگون چلے گئے جہاں سے اب فون بھی نہیں کرتے۔پوری پی ٹی آئی پنڈی کی طرف منہ کر کے کہتی پھرتی ہے ”ایویں رسیا نا کر میری جان سجنا“لیکن سوہنیا سجنا نے تو کسی اور کے ساجن کی سہیلی بننا تھا۔اس لئے جتنا مرضی کپتان زور لگا ئے الیکشن کی کھوتی ”بوڑھ“سے آگے نہیں جائے گی۔خیر سے اب تو پاکستانی بھی ذہین ہو گئے ہیں۔وہ صرف قیمے کے نان اور بریانی کے پیکٹ پر نہیں بکیں گے۔وہ ان کے ساتھ جوس کا ڈبہ بھی مانگتے ہیں تا کہ پینے کے بعد اس پر پاؤں مار کر ٹھاہ کر سکیں۔یوں ہمارے غیور پاکستانیوں کا کمائی سیزن چل رہا ہے۔اگر امیدوار جیبیں بھر کر پھر رہے ہیں تو ووٹر بھی شناختی کارڈ تھامے کہتے پھر رہے ہیں ”مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے“ہم غیور لوگ ہیں جناب کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے جب بھی کرتے ہیں اصولوں کوسائیڈ پر رکھ دیتے ہیں۔1947سے الیکشن کے نام پر”کوکلی چھپاکی“کھیلی جاتی ہے وہ اب بھی کھیلی جائے گی اور کھیل میں ”کٹی کٹا“وہی نکلے گا جو مہربان چاہیں گے۔اگر بڑے بھیا نے ووٹ کو ہی عزت دینی ہوتی تو پھر رجیم کی کیوں چینج ہوتی۔سنتا سنگھ کی بیگم بولیں سنیں آپ بہت معصوم ہیں آپ کو ہر کوئی بے وقوف بناتا ہے،سنتا سنگھ بولا شروعات ”تے تیرے ابے نے ہی کیتی سی“۔ جو شروعات 1947سے ہوئی ہے ”کیویں اور کنج رکے“۔لیکن اب تو ہنستے ہنستے وکھیاں بھی دکھنے لگی ہیں۔جیسے مرد کی ایک زبان ہوتی ہے ویسے ہی پاکستان میں محفوظ مچانوں پر بیٹھے شکاریوں کی ہے وہ ہر بازی اس شرط پر کھیلتے ہیں کہ ”جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری“۔”چن جنجر“کے اس کھیل میں سکے کے دونوں پاسے ان کے۔لیکن میں ایوں سوچ سوچ کے ہلکان ہوں کہ اس سے قوم کو کیا ملا ہے اربوں ڈالر کے قرضے،مہنگی بجلی،سود پر چلنے والی معیشت،بدترین مہنگائی،بے روزگاری، ٹھیک ہے چھوٹے بھیا ہم امریکہ سے پنگا نہیں لے سکتے لیکن امریکہ ہماری کشکول میں کھل کر بھیک بھی تو نہیں ڈالتا۔بنتا سنگھ سے کسی نے پوچھا بنتا جی یہ پنگا کیا ہوتا ہے۔وہ سوچ کے بولا یار مطلب تو پتہ نہیں لیکن بندہ کبھی نہ کبھی لیتا ضرور ہے۔ ہمارے خان ساحب کو کون سمجھائے کہ زمینی خداؤں سے پنگے چنگے نہیں ہوتے۔لیکن انہوں نے خود بنی گالہ میں لکھ کے لگا رکھا ہے ”ضد نہ کر سوہنیا خان تے آپ بڑا ضدی ہے“۔
یار ہم یعنی کلین شیو رانے اور جو ہمارے ثناء اللہ ہیں وہ پوری اور چڑھی مونچھوں والے ہیں اس لئے جو وہ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں۔ان کی تو بیک گراؤنڈ میوزک پر بھی ٹون چل رہی ہوتی ہے ”اؤے میں دشت کٹ کے آیا تے نشت مار دیاں گا“ ہم ٹھہرے کاٹھ کے الو ہمارے رانے پر آپ چرس ڈال دیں،ہیروئن ڈال دیں ہمارے ثناء اللہ کے پاس سب مشکلوں کی ساری چابیاں ہیں۔نہ ان پر کبھی الزام ثابت ہو گا نہ ان پر الزام لگانے والوں سے تحقیق۔میرا خیال ہے کہ رانا صاحب کی وارننگ پر سب کو”کن ولیٹ“کے نیوے نیوے نکل جانا چاہئے۔ہونٹوں پر جندرے لگا لینے چاہئے،اب کون چور چور کہنے پر اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کروائے شکر کریں آپ کو سیاسی آزادی کی قیمت پر رانا صاحب زن بچہ کو ہلو میں نہیں پسوا رہے۔لہذٰا اپنے شناختی کارڈ کو بلاک ہونے سے بچائیں۔اونچی آواز میں چور چور کہیں مڑ کے آپ کو ٹکور کرنی پڑ جائے وہ بھی پولی تھاں کی۔ایک رانا ساحب بھاگتے ہوئے جا رہے تھے کسی نے رو ک کے پوچھا تو بولے گھر میں چور آگیا تھا مجھے دیکھ کر دوڑ لگا دی،بندے نے کہا چور کہاں ہے رانا صاحب بولے وہ پیچھے آرہا ہے۔پھر بولے ”اک تے چوری اتوں رانے نال ریساں“شاوا ساڈے رانا جی تسی پی کم چک کے رکھو،بچوں،خواتین پر ایکسپائری آنسو گیس پھینکو ان کی منجی ٹھوکو آپ کو کس نے پوچھنا ہے۔