بیساکھیوں کی حکومت، جمہوری نہیں ہوتی

  بیساکھیوں کی حکومت، جمہوری نہیں ہوتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پاکستان کے قیام کو 75 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود تا حال یہاں جمہوری نظام حکومت کو استحکام کیوں حاصل نہیں ہو سکا؟ اس بارے میں اہل فکر و دانش گاہے بگاہے قومی ذرائع ابلاغ میں کچھ حقائق پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں۔ ملک میں محب الوطن غیر جانبدار حضرات اور سیاسی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار آئین و قانون، سویلین بالا دستی اور جمہوری اقدار کے فروغ و تحفظ کی حمایت میں اپنے دلائل دیتے رہتے ہیں۔ تاکہ یہاں تعمیر و ترقی کے اقدامات سے منصوبے روبہ عمل ہو اور متعلقہ اداروں کی جانب سے عوام کے مسائل حل اور ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داریاں ادا کی جاتی رہیں۔ مذکورہ بالا بیشتر دانشور حضرات کی اکثریت اس رائے سے اتفاق کرتی ہے کہ اگر جمہوری اقدار کے رواں دواں رہنے کا تسلسل بلا کسی رکاوٹ جاری رہے تو ملکی حالات میں معیشت کی بہتری محنت و دیانت کی کارکردگی سے چند سال میں قابل ذکر حد تک ثمرات اور نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں جمہوریت کی بنیاد پر قائم اداروں اور حکومتوں کو بعض مفاد پرست عناصر کی چالبازیوں سے چلنے نہ دیئے جانے سے ملکی ترقی کے تسلسل میں رکاوٹیں ڈالنے کے حربے افسوس ناک ہیں۔ اس بارے میں عملی سیاست میں حصہ لینے والے حضرات کو بھی اپنے اقتدار و اختیار کے حصول کی خواہش کا شوق پورا کرنے کے لئے اکثریتی ووٹروں کی مطلوبہ حمایت کے لئے اپنی بہتر سیاسی کارکردگی سے مقبولیت کا گراف بلند کرنے کی مثبت سرگرمیوں اور کوششوں پر انحصار کرنا ہوگا یہ امر بطور خاص یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے اقتدار کی حرص و ہوس میں سرکرداں  سیاست کار بیساکھیوں کے سہارے سے عوام کے نمائندے بننے کی روش میں مبتلا   روایتی عمل کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہی در اصل جمہوری اقتدار سے انحراف کر کے آمرانہ طرز حکمرانی کے قیام و تسلسل کو یہاں رائج کرنے کے قصور وار ہوتے ہیں۔ اس طرح غیر جمہوری عناصر کو بھی سیاسی کارکردگی میں مداخلت کی دعوت دے کر کوئی کردار ادا کرنے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ یوں وہ سیای عمل میں شامل ہو کر اپنی من مرضی سے اقتدار کی ذمہ داریاں نبھانے لگتے ہیں۔ بیشک غیر جمہوری عناصر اسی سرزمین کے باسی اور اپنے وطن کے حضرات ہی ہوتے ہیں لیکن آئین و قانون کے تحت ان کی ذمہ داری ملکی دفاع کے ہر وقت تحفظ اور امن و امان کے قیام میں بوقت ضرورت اور طلب کرنے پر حکومت کو مدد فراہم کرنا ہے۔+

ملک کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے قارئین کرام کو علم ہے کہ عرصہ ساڑھے چار سال قبل جولائی 2018ء میں منعقدہ عام انتخابات کے بعد عمران خان کو وزیر اعظم کے منصب پر اقتدار میں کیسے لایا گیا تھا ان حالات کا تذکرہ قومی ذرائع ابلاغ میں آئے روز ہوتا رہتا ہے۔ اس امر سے یہ حقیقت واضح ہوئی تھی کہ ان کے عہدہ مذکورہ بالا پر تقرری غیر جمہوری حضرات کی کوشش سے بیساکھیوں کے سہارے قائم کی گئی اور صوبہ پنجاب میں عثمان بزدار بھی بطور وزیر اعلیٰ اسی انداز کی کارروائی سے اقتدار میں لائے گئے۔ یوں اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اور نمائندے وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو سلیکٹڈ، جعلی اور ناجائز کہتے پکارتے اور آئینی طور پر درست تسلیم کرنے سے آج تک انکار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عوام کی غالب اکثریت بھی بطور ووٹرز اور مشاہدہ کار اس حقیقت کا تا حال اپنے بیانات میں واضح الفاظ و انداز میں اعتراف کر رہی ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں حکومتوں کی تشکیل کے بعد عمران خاں اولین دنوں سے سابقہ حکمرانوں جماعتوں کے رہنماؤں اور قائدین کو چور، ڈاکو اور لٹیرے کہنے اور دہرانے کی گردان تسلسل سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) کے نمائندے عمران خان کی زیر قیادت وفاقی حکومت اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے تحت پنجاب حکومت کو غیر سیاسی عناصر کی مدد سے وجود میں لانے کی بنا پر غیر جمہوری قرار دے رہے ہیں۔ اس حقیقت کو غیر جانبدار سیاسی جائزہ کار کی اکثریت بھی درست تسلیم کرتے ہوئے اپنے نتائج اخذ کر کے عوام کو آگاہ کرتی رہتی ہے۔


ملک بھر میں کرپشن کے بھی متعدد واقعات رونما ہوئے یاد رہے کہ اپریل 2022ء میں وفاق میں اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے عمران خان کی زیر قیادت حکومت ختم ہو گئی جبکہ اشیائے ضرورت کی مہنگائی کا تسلسل آج تک جاری ہے۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اس مہنگائی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی غیر ذمہ دارانہ کارکردگی اور دانستہ چشم پوشی کی وجہ سے قرار دے رہے ہیں۔ مصنوعی مہنگائی کے ذمہ دار مافیاز آج کل بھی اپنی گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کی غیر قانونی حرکات کے ارتکاب سے باز نہیں آ رہے اور وہ عوام کی غالب اکثریت کو مہنگائی کے عذاب اور اذیت سے حالات سے دو چار کر رہے ہیں جبکہ عمران خان موجودہ وفاقی حکومت کو بار بار امپورٹڈ کہہ کر اپنے اقتدار سے محروم ہونے کا انتقام ظاہر کر رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت مقررہ مدت میں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کا حکم جاری کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس حکم کی تعمیل بروقت ہو گی یا اس حکم کے خلاف کوئی توجہیات دینا چیلنج کرنے کی کارروائی متعلقہ بالا عدالتی فورم پر اختیار کی جائے گی ملک کے سیاسی رہنماؤں سے گزارش ہے کہ سیاست میں ذاتی اقتدار و اختیار کے حصول کی بجائے قومی مفاد کے حصول کو ہر ممکن انداز اور سعی کاری سے جلد ترجیح دینے کی روایت اپنائی جائے۔

مزید :

رائے -کالم -