غیر جمہوری 9سالہ سابق دور،کرپشن پر گرفت کی جائے
چند ہفتے قبل ایک قومی روزنامہ میں صفحہ اول پرایک رپورٹ تیار ہونے کا تذکرہ ہے، جس میں اسے آئندہ ہفتے وزیراعظم آفس میں جمع کرانے کا کہا گیا ہے،جبکہ رپورٹ مذکورمیں اربوں روپے کی کرپشن کے ارتکاب کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس کی تیاری میں اطلاعا9ماہ کا عرصہ لگ گیا ہے۔ خبر کے مطابق یہ رپورٹ سال 2008ء تک کے گزشتہ تقریبا عرصہ 10سال کے دوران،غیر ملکی قرضوں کے غلط استعمال میں کئی ترقیاتی منصوبوں میں کک بیکس اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے بڑے پیمانے پر مالی رقوم کی خوردبرد اور چوری کی نشاندہی کے انکشافات ظاہر کرتی ہے۔ انکوائری کمیشن کی اس رپورٹ میں 420غیر ملکی قرضوں کا مکمل ریکارڈ حاصل کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔ راقم رپورٹ میں شامل دیگر حقائق،اعدادو شمار اور منصوبوں کی تفصیل کے تذکرہ میں جانے اور ان کی تصدیق یا تردید کے بارے میں اپنی کوئی رائے اور تجویز دینے سے گریز کر کے یہ عرض کرنا چاہتا ہے۔ کہ اس رپورٹ پر وزیراعظم عمران خان از خود کوئی فیصلہ کریں۔ یا اسے وفاقی کابینہ میں پیش کر کے،کوئی حتمی حکم جاری کریں۔یہ اختیار بلا شبہ ان کی قیادت کو حاصل ہے کہ وہ اس پر مزید کیا کارروائی کرنے کو ترجیح دیں گے تا کہ ملک بھر میں کرپشن کی بڑی وارداتوں میں ملوث،ملزمان کو قانونی گرفت میں لا کر سخت سزائیں دلانے کے اقدامات کریں۔ستم یہ ہے کہ کرپشن کا ارتکاب بدقسمتی سے وطن ِ عزیز میں سالہا سال سے ایک مسلسل اور منظم انداز پر مبنی رجحان ہے،جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کوئی مؤثر اور قابل ِ ذکر کمی ہونے کی بجائے۔ اضافہ ہی دیکھنے اور سننے میں آیا ہے، کیونکہ بددیانت عناصر بعض گروہوں اور کاروباری اداروں کی سرگرمیوں کو نمایاں کر کے، متعلقہ حکومتی محکموں سے اپنے غیر قانونی مطالبات، متعلقہ حکمران سیاست کاروں اور سرکاری افسروں سے منظور یا تسلیم کرانے کی کوششیں کرتے ہیں۔
ان مطالبات میں ٹیکسوں کی کمی عدم ادائیگی سابقہ قرضوں کی معافی یا بعض مروجہ قوانین پر عمل داری میں رعایت یا تخفیف کے لئے ان کی درخواستوں یافائلون کو طویل مدت تک دبائے رکھنا اور خاموش رہنا بھی شامل ہے۔ مذکورہ بالا عوامل میں کامیاب ہونے کی خاطر،درخواست گزار حضرات یا خواتین،ہزاروں لاکھوں یا کروڑوں روپے کی رشوت یا دیگر املاک،مثلا گاڑیاں پلاٹ اراضی یا دوکانات وغیرہ بھی متعلقہ حکمرانوں یا اعلیٰ افسران کو دینے کی کارروائیاں بروئے کار لاتے ہیں۔ ایسے مفادات پرست بڑے نام کے لوگ غیر قانونی مفادات کے حصوں کے لئے بذاتِ خود پس ِ پردہ رہ کر اپنے ملازمین یا دیگر بظاہر غریب و مفلس افراد کو آگے کر کے،بھاری رقوم اور قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے کے حربے اپناتے ہیں۔ اس طرح وہ سرمایہ کاری کر کے نسبتاً کئی گنا بڑے مفادات حاصل کرنے کی ڈگر پر چلتے ہیں۔ ایسی کارروائیاں زیادہ تر غیر قانونی حرکات اختیار کر کے آگے بڑھانے اور پروان چڑھانے کامروجہ رجحان، بہت افسوس ناک اور شرمناک ہے۔ ہرذی شعور اور ذمہ دار شخص کو مذکورہ بالا انداز کی کاروائیوں کا ارتکاب کرنے سے قبل اپنے ہوش و حواس کے استعمال سے خوب سوچ لینا چاہئے،کیونکہ منفی عزائم اور ناجائز مفادات کے حصول کی کوششوں میں ناکام ہونے سے وہ اپنے لئے کئی مسائل مشکلات اور پریشانیوں کی منصوبہ سازی سے مستقبل میں اپنے ملک علاقہ اہل خانہ،دوست احباب یا دیگر قرابت داروں کی عزت و شہرت کو خراب اور داغدار کر سکتا ہے۔
کیونکہ جرائم پر قانونی گرفت کسی وقت بھی ہونے سے کئی ماہ یا برسوں کی قید اور ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں ورپے کا جرمانہ بھی انہیں ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اپنی زندگی راہ راست پر لانے اور گزارنے کے لئے ہمیں اسلامی تعلیمات سیرت رسول ﷺ اور مہذب معاشروں کی مثبت اقدار و اخلاقیات پر خلوص نیت سے عمل پیرا ہونے میں کوئی بہانہ سازی اور حجت بازی نہیں کرنی چاہئے۔ سطور بالامیں ایک رپورٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے درست حقائق اور اعدادوشمار سے کوئی اعتراض اور اختلاف کسی انصاف پسند اور محب وطن شخص کو نہیں کرنا چاہئے،لیکن اس میں اگر کوئی بد نیتی،سیاسی منافرت تعصب اور دانستہ الزام تراشی،بے قصور لوگوں پر عائد کی گئی ہے تواس غلط کاری پر رپوٹ تیار کرنے والے حضرات کو متاثرہ افراد سے معذرت کرنی چاہئے،کیونکہ سیاست کاری کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے حامی لوگوں پر بے بنیاد یا جھوٹے اور من گھڑت نوعیت کے واقعات کے ارتکاب میں ملوث ہونے کے قصے اختراع کیے جائیں تاکہ انہیں ملک معاشرے اور بین الاقوامی سطح پر چور،ڈاکو اور لٹیرے کہہ کر ذرائع ابلاغ میں شب و روز بد نام کیا جاتا رہے۔ کیا وطن ِ عزیز میں تا حال مختلف سیاسی اور سرکاری امور کی کارکردگی میں حریف راہنماؤں اور کارکنوں پر بے بنیاد الزامات کی الزام تراشی نہیں کی جاتی؟یہ غیر قانونی اور منفی روش کب ختم ہو گی؟یہاں ہر سیاسی حکومت اور راہنما کو اپنی کارکردگی ملکی اور اجتماعی مفاد کو ترجیح دے کر بہتر اور سود مند کرنا ہو گی۔مروجہ باہمی طعنہ زنی اور تلخ کلامی،دور جاہلیت کی روایت ہے اس کو یکسر جلد ترک کرنا ضروری ہے۔ آخر میں وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف کے نوسالہ دور اقتدار کی بھی غیر ملکی اور بیرونی مالیاتی اداروں کے قرضوں اور مالی امداد کے استعمال کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انکوائری بھی کرائی جائے اور اس طویل دور میں بھی حکمران طبقے سرکاری افسران اور دیگر مفاد پر ستوں کی کرپشن پر باز پرس کر کے متعلقہ مجرموں کو سزائیں دلائی جائیں۔