اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کی ضرورت

اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اسرائیل  دہشت گرد ریاست ہے،اس نے انسانیت سوزی کی تمام حدیں عبور کر لیں،جس طرح شامی سرحد پر دہشت گردوں کا راستہ روکا،مسجد اقصیٰ کی جانب اسرائیل کے بڑھتے ہاتھ توڑ دیں گے،پوری دُنیا خاموش بھی ہو جائے ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔حکمران جماعت انصاف و  ترقی پارٹی کے نمائندوں سے وڈیو کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے صدر اردوان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جارحیت پر خاموش رہنے والوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ اسرائیل کی جانب سے بہائے جانے والے خون پر خاموش رہنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اُن پر بھی یہ وقت آ سکتا ہے، اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانا ہر حساس دِل انسان پر فرض ہے،انہوں نے اقوامِ عالم سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف بلا امتیاز متحد ہو جائیں۔
فلسطین میں ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر نظر آ رہے ہیں ایک ہفتے کی بمباری میں بچوں اور خواتین سمیت170 سے زائد شہادتیں ہو چکی ہیں،لیکن دُنیا میں بعض ایسے ”انصاف پسند“ بھی ہیں جن کا دِل چند اسرائیلی بچوں کی موت پر تو دُکھی ہو جاتا ہے،لیکن جو فلسطینی پون صدی سے اسرائیلی مظالم کا شکار ہیں اُن کے لئے اُن کی ہمدردی کی رگ نہیں جاگتی،اب بھی اُنہیں یہ تو نظر آتا ہے کہ حماس اگر راکٹوں سے حملے کرے گی اور ان حملوں سے اسرائیلی بچے مریں گے تو جواب میں اسرائیل کو بھی تو کارروائی کا حق ہے،دُنیا کے اکثر ممالک میں ایسے انصاف پسند بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں،جنہیں تڑپتے ہوئے فلسطینی بچے نظر نہیں آتے۔ اسرائیل مظالم کی مذمت کے لئے عالمی ادارے کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، اسرائیل  کی مذمت کے لئے اگر کوئی قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کی جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی مُلک اسے ویٹو کر دیتا ہے، یہاں سے ناکامی کے بعد مذمتی قرارداد جنرل اسمبلی میں منظور کرانا پڑتی ہے جہاں بڑی طاقتوں کا بس نہیں چلتا اور قرارداد منظور ہو جاتی ہے،لیکن ایسی قراردادوں نے آج تک اسرائیل کا کیا بگاڑا ہے وہ توسیع پسندی کی پالیسی پر بدستور گامزن ہے۔ فلسطین کے علاقوں میں یہودی بستیاں بسائی جا رہی ہیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل نے اپنے منصوبے کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھے ہوئے ہیں،حالات کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ کی مختصر سی پٹی پر بمباری کے لئے160 سے زیادہ اسرائیلی طیارے حصہ لے رہے ہیں،عمارتیں مکینوں سمیت زمین بوس ہو رہی ہیں اور اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں،جن عرب ممالک نے حالیہ برسوں میں بڑے ارمانوں سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے اور جن کے شہری اب تجارتی مقاصد کے لئے اسرائیل آ جا رہے تھے اُنہیں بھی خفت کا سامنا ہے۔اِن عرب ممالک کو فلسطینی صدر نے متنبہ کیا تھا کہ اگر مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر تعلقات قائم کئے گئے تو اس کا سارا فائدہ اسرائیل اٹھائے گا،لیکن یہ عرب مُلک غالباً بیرونی دوستوں کے دباؤ پر تصویر کا ایک ہی رُخ دیکھ رہے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم ہوں گے تو مسئلہ فلسطین کا حل بھی نکل آئے گا،ایسے ہی خوش فہم لوگ برصغیر میں بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو بھول کر، یا طاقِ نسیاں پر رکھ کر، بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کر لئے جائیں اور لوگوں کے درمیان معمول کا میل ملاپ شروع ہو جائے تو کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا،غالباً اُن کے نزدیک مسئلے کا حل یہ ہے کہ لوگ مسئلے کو  بھول جائیں اور کشمیر سے آنکھیں بند کر کے تعلقات استوار کر لیں،لیکن جس طرح اسرائیل نے ثابت کیا ہے کہ اسے عالمی برادری کے جذبات کی کوئی پروا نہیں اور وہ پوری دُنیا کی رائے کو پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں دیتا، اسی طرح بھارت بھی کشمیر کے بارے میں عالمی ادارے کی قراردادوں کو نظرانداز کر کے کشمیر کو غیر قانونی طور پر اپنا حصہ بنا چکا ہے اور اب اس کے سارے اقدامات اس قبضے کو مستحکم کرنے کے لئے ہو رہے ہیں۔
عالم ِ اسلام کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے،لیکن اگر اس کے اجلاس میں اسرائیل کی زبانی کلامی مذمت کرنے پر اکتفا کیاگیا تو یہ اجلاس اٹھک بیٹھک سے زیادہ حیثیت نہیں رکھے گا۔اِس وقت تو ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری مسلم دُنیا کسی متفقہ لائحہ عمل پر اتفاق کر کے آگے بڑھے تاکہ اسرائیل کو ہوش کے ناخن لینے پر آمادہ کیا جا سکے،اِس وقت پورے عالم اسلام میں رجب طیب اردوان ہی اسرائیل کو للکار رہے ہیں،اُنہیں پوری مسلم اُمہ کے ممالک کا اجلاس بلُا کر اسرائیل کے خلاف متحدہ اقدام کا اعلان کرنا چاہئے، جو مسلمان ممالک فلسطینی صدر کو فون کر کے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اُنہیں اس سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات پر غور کرنا چاہئے، کیونکہ اسرائیل پر کلامِ نرم و نازک کا کوئی اثر نہیں ہو رہا اور نہ  ہونے کا کوئی امکان ہے،کیونکہ بڑی طاقتیں اس کی پشت پر ہیں اور اُن کے نزدیک اسرائیل جارحیت نہیں کر رہا،بلکہ فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کے جواب میں اپنا دفاع کر رہا ہے،جہاں سوچ کے زاویئے یہ ہوں وہاں فلسطینیوں کو کیا انصاف مل سکتا ہے،جو مسلمان مُلک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں وہ  تو زبانی کلامی مذمت سے بھی گریز کر رہے ہیں،ان حالات میں ترکی واحد مُلک ہے جس نے اگرچہ اسرائیل کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا،لیکن اب وہ اسے ایک دہشت گرد ریاست قرار دے رہا ہے امید کرنی چاہئے کہ او آئی سی کے اجلاس میں اسرائیل  کے خلاف عملی اقدامات کا فیصلہ کیا جائے گا، کیونکہ اِس کے بغیر اسرائیل کے ظلم کا راستہ روکنے کا کوئی دوسرا طریقہ نظر نہیں آتا۔

مزید :

رائے -اداریہ -