’چائے والا جی، چائے پیسٹری جی‘ (4)
اِس تجویز پر کہ صحافی کو اپنے پیشہ ورانہ مشاغل کا تحریری ریکارڈ رکھنا چاہیے، مَیں نے یومیہ ڈائری لکھنے کا سلسلہ جنوری 1987ء میں شروع کیا۔ مشورہ لندن کے پاکستانی اخبار نویس اور یاروں کے یار ہمراز احسن سے اُس وقت مِلا جب مجھے بی بی سی میں کام کرتے دو سال ہو گئے تھے۔ اِسی لیے روزنامچہ کے اندراجات میں برخوردار اسد کی پیدائش کا احوال موجود نہیں، نہ ہی یہ اشارہ کہ موصوف نے پیانو بجانے کی اولین کوشش ڈیوڈ پیج کے ڈرائنگ روم میں کی۔ ڈیوڈ تازہ تازہ پروگرام آرگنائزر سے ترقی پا کر ایسٹرن سروس کے اسسٹنٹ ہیڈ مقرر ہوئے تھے، چنانچہ انہوں نے میری فیملی کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ یہیں اردو سیکشن کی سیکرٹری بھارتی تھامسُو اور بزرگ دوست سعید حسن خان کے سامنے اسد نے پیانو چھیڑا اور ڈیوڈ حیران ہوئے کہ ڈیڑھ سالہ بچہ ’کِی بورڈ‘ کو دوہتڑ مارنے کی بجائے انگلیوں سے سُر نکال رہا ہے۔
اسد میاں تو پیانو بجاتے بجاتے استاد حفیظ خاں تالونڈی کے شاگرد بنے اور پھر میوزک کمپیوٹنگ کی طرف نکل گئے۔ البتہ اُس روز ڈیوڈ پیج کی مردم شناسی سے زیادہ حیرت مجھے اُن کی ایک اور بات سُن کر ہوئی تھی۔ رکاوٹ یہ ہے کہ نصف درجن ایشیائی زبانوں پر مشتمل ایسٹرن سروس کے اندرونی ڈھانچہ پر روشنی ڈالے بغیر یہ حیرت شئیر کرنا ممکن نہیں، سو یہ نکتہ آگے چل کر۔ ہاں، ڈیوڈ کو خوشی تھی کہ نیوز اور حالاتِ حاضرہ کے علاوہ مَیں نے معلوماتی سوال و جواب سے لے کر انگریزی بول چال، سپورٹس اور فن و ادب سے وابستہ پروگرام بھی کیے ہیں۔ اگر حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو سیکشن سربراہ کے طور پر ڈیوڈ نے جو آخری رپورٹ لکھی اُس میں اِن سرگرمیوں کو اجاگر کیا تھا۔ تاہم یہ پہلو بھی کہ ’سائنس کلب‘ کی پروڈیوسر سمندر پار تعطیلات پرگئیں تو شاہد ملک تین ماہ سائنس پروگرام کرنے سے ابتدائی طور پر ہچکچائے تھے مگر مخصوص دلچسپی کے دائرے کو پھیلانے سے گریز تدریسی لوگوں کی پرانی عادت ہے جس پر یہ چاہیں تو قابو بھی پا لیتے ہیں۔
اُسی موسمِ سرما میں جب مَیں اور اہلِ خانہ لندن میں دو سال گزار کر چھٹی پر پاکستان جانے لگے تو نئے پروگرام آرگنائزر سید اطہر علی نے ’نئی نسل اور تعلیم‘ کے نام سے میری مجوزہ سیریز کے لیے آٹھ دن کی ڈیوٹی بھی لگا دی۔ ترغیب اُس وبا کی پہلی لہر سے مِلی تھی جو وطنِ عزیز میں کیمبرج سسٹم کے وائرس سے پیدا ہوئی۔ ذریعہء تعلیم کے تضادات، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، نئی نسل میں فرار کا رجحان، منشیات کا استعمال اور دیگر متعلقہ مسائل۔ آٹھ روز میں درجنوں پالیسی ساز شخصیات، اساتذہ، والدین اور مختلف سماجی، علاقائی اور تعلیمی پس منظر کے طلبہ سے انٹرویو کیے۔ رواں صدی سے پندرہ سال پیشتر پنجاب یونیورسٹی میں میری جان پہچان کا حلقہ دائیں بازو کے اساتذہ تک تھا۔ بہرحال ذاتی رابطے کام آئے جبکہ کراچی میں جید اخبار نویس اقبال جعفری اور اُس وقت کے نوخیز صحافی برادرم مظہر عباس نے بھرپور مدد کی۔
ڈیوڈ پیج کے تعلق سے دیکھوں تو اِس دورے کی افادیت ایک ذاتی حوالے سے ہے۔ جی سی یو کے ہم جماعت اور پُر خلوص دوست ساجد قیصرانی نے میری ’مبینہ‘ صلاحیتوں کا ذکر مجھے بتائے بغیر پی ٹی وی کے ڈائرکٹر نیوز مصلح الدین سے کیا ہوگا۔ چنانچہ ایک صبح میرے اسلام آباد کے نمبر پر مصلح صاحب نے ملاقات کے لیے بلایا اور کہنے لگے کہ لندن میں ہمارے نامہ نگار کے طور پر کام کریں۔ ”مگر اِس کے لیے بی بی سی کی اجازت درکار ہو گی۔“ ”وہ جی، اجازت ہم لے کر دیں گے۔“ لندن واپسی سے پہلے اُن کی ٹیلکس ایسٹرن سروس کے اسسٹنٹ ہیڈ کو موصو ل ہو چکی تھی۔ ڈیوڈ نے خوشی خوشی پہلے تو پیشکش کا پس منظر پوچھا، پھر اِتنا کہا ”احتیاط کرنا، ہماری پالیسی سے ٹکراؤ نہ ہو۔“
اب آئے گا گھریلو ملاقات میں ڈیوڈ پیج کا بیان کردہ وہ حیران کُن نکتہ جس کا شوشہ ذرا اوپر چھوڑ چکا ہوں۔ تناظر یہ ہے کہ ہماری ایسٹرن سروس کا ہر لینگویج سیکشن ایک نہ ایک پروگرام آرگنائزر کی نگرانی میں کام کر رہا تھا۔ اِن میں سے بعض سیکشن دو، دو یا اِن سے زیادہ زبانوں پر بھی مشتمل تھے، جیسے اردو، پشتو کا ایک سیکشن تھا اور ہندی، تامل اور سنہالہ کا دوسرا۔ سروس ہیڈ جِم نورِس تھے جنہیں آپ وِکٹورین عہد کا ایک مرنجاں مرنج انگلش جنٹل مین سمجھ لیں۔ ہمارے ابتدائی دنوں کے انتظامی ڈھانچے میں وہی واحد شخصیت ہیں جنہیں اُن کی غیر موجودگی میں بھی سب نے مسٹر نورِس کہا۔ وگرنہ اُس وقت کے اسسٹنٹ ہیڈ آف سروس ولیم کرالے ہمارے لیے صرف ولیم اور ڈیوڈ پیج محض ڈیوڈ۔ دونوں اوکسفرڈ سے تاریخ میں ڈی فِل تھے ہی، مگر مسٹر نورِس نے بھی ایک محفل میں ہولے سے انکشاف کر دیا کہ افغانستان کے موضوع پر اپنی طبع شدہ کتاب آسٹریلیا کی ایڈی لیڈ یونیورسٹی میں جمع کرائی تھی جس پر پی ایچ ڈی مِل گئی ہے۔
تو جِم نورِس کی ڈاکٹریٹ پر حیرت کیسی؟ میری حیرت مسٹر نورِس کی ڈاکٹریٹ سے نہیں، اُن کی ریٹائرمنٹ سے جُڑی ہوئی ہے۔ یہ تو علم تھا کہ جِم نورِس کی پوسٹ پر ولیم فائز ہوئے ہیں اور ولیم کے عہدے پر ڈیوڈ۔ آج نئی پود شاید چالیس سال پرانی میری اِس سوچ کا مذاق اڑائے۔ پر مَیں توڈیوڈ کی زبان سے یہ جان کر ہکا بکا رہ گیا کہ ہیڈ آف سروس کے لیے وہ اور ولیم دونوں ایک دوسرے کے حریف تھے، اگرچہ انٹرویو میں ولیم کامیاب ہوئے۔ ہکا بکا اِس لیے کہ ولیم، ڈیوڈ سے عمرمیں بڑے تھے اور اسسٹنٹ ہیڈ کی حیثیت سے زیادہ تجربہ کار، پھر دونوں گہرے دوست بھی تھے۔ صدمہ اِس سبب ہوا کہ جنوبی ایشیا کے لوگ عہدے کے لیے دوستوں سے مقابلے نہیں کرتے۔ ہمیں تو یہ کہانی بچپن سے ازبر رہی کہ جب ایک زیرِ تعمیر بلڈنگ کی مچان بوجھ سے گِرنے والی تھی تو بوڑھے مستری خدا نخش کے احتجاج کے باوجود نوجوان کریم بخش نے یہ کہہ کر نیچے چھلانگ لگا دی کہ نہیں استاد، بیوی بچوں کی خاطر تمہارا زندہ رہنا ضروری ہے۔
خدا بخش اور کریم بخش کے برعکس، ولیم کرالے اور ڈیوڈ پیج کی عمودی حرکت پذیری کے باوجود مچان اور دوستی دونوں سلامت رہِیں بلکہ پہلے سے مضبوط ہو گئیں۔ یہی نہیں، مچان پر ایک سے زیادہ معانی میں بھاری تن و توش کے مالک سید اطہر علی کے لیے بھی گنجائش پیدا ہو ئی جنہیں بطور اردو پروگرام آرگنائزر ڈیوڈ کی کرسی پیش کر دی گئی۔ خبر سُنتے ہی جب رضا علی عابدی صاحب اور مَیں خوشی سے اطہرصاحب کی طرف لپکے تو انہوں نے بھی حیران کر دیا ”مجھے اب بھی امید نہیں تھی کیونکہ تیس سال میں اِس سے پہلے میرے تئیس انٹرویو ہو چکے ہیں۔“ خدا جانتا ہے کہ ادارتی پرکھ، ممکنہ حد تک معروضی صحافت اور کام کے سلسلے میں خوش دلانہ ربط و ضبط کا جو معیار عوامی افسر ڈیوڈ پیج کے زمانے میں تھا، اطہر صاحب نے اپنا روایتی رعب داب قائم رکھتے ہوئے بھی اُسے بڑھاوا دیا۔ ’سیربین‘ اور ’شب نامہ‘ سے فارغ ہو کر جب علی الصبح ٹرانسمیشن ’جہاں نما‘ کے پروڈیوسر کے لیے پیشگی مسودات ایڈیٹ کر لیتے تو پھر وہی ”یار، ایک ایک ہو جائے۔“
٭٭٭٭٭