خُلد سے خُدانے اُتاری تھی خُلدیہ!
عافیہ بزمی
زمیں کے تاروں سے ایک تارا فلک کے تاروں کو جا چکا ہے
مگر تری مرگِ ناگہانی کا مجھ کو اب تک یقیں نہیں ہے
کسی بھی انسان کی زندگی میں گذرے وقت کی یادیں بہت قیمتی اور انمول ہوتی ہیں لیکن اگر یہ یادیں بچھڑ جانے والے بہت پیارے رشتوں سے جڑی ہوں تو ان کے ساتھ گذرا وقت بہت یاد آتا ہے اور جانے والوں کی کمی ہوک بن کر دل میں اٹھتی رہتی ہے۔
اگر آپ نے ہوش سنبھالتے ہی گھر میں والدین کے ساتھ ساتھ بڑے بہن بھائیوں کا پیار سمیٹا ہے، ان کو اپنے چھوٹے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نخرے دِکھا ئے ہیں اور انہوں نے بھی اپنے بڑے ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے صرف آپ کے لاڈ اٹھائے ہیں بلکہ خلوصِ دل سے اپنے اور آپ کے رشتے کا بھرم رکھا ہے تو یقین کریں آپ بہت خوش قسمت ہیں۔
یوں تو مجھے لگتا تھا کہ چھوٹے ہونے کے بہت سے نقصانات ہیں، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس ہوا کہ والدین کے ساتھ ساتھ اگر آپ کو زندگی کے معاملات میں رہنمائی کرنے والے، زندگی کے نشیب و فراز سمجھانے والے بڑے بہن بھائی بھی موجود ہیں تو آپ بہت خوش قسمت ہیں اور یوں میرا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے،جنہوں نے بڑے بہن بھائیوں کو نخرے دیکھا کر ان سے اپنے لاڈ بھی اٹھوائے ہیں۔
خلدیہ بزمی مرحومہ میری سب سے بڑی اور بہت پیاری بہن تھی۔ وہ والد ِمحترم کے دنیا سے جانے کے چند سال بعد ہی دنیا سے رخصت ہو گئی تھی۔ وہ کیا تھی اور کیا لگتی تھی مجھے، کہنے کو بڑی بہن تھی میری، لیکن وہ بالکل ماں جیسی تھی۔ ہر غلط بات پر ڈانٹتی، زندگی کے معاملات کے بارے میں سمجھاتی، کبھی لڑتی جھگڑتی کبھی ڈانتی اور کبھی پیار سے سینے سے لگاتی۔ہوش سنبھالتے ہی اس کو اپنی زندگی میں، میں نے بڑے بارعب رشتے اور حیثیت میں پایا۔چونکہ وہ بہنوں میں سب سے بڑی تھی اس لئے والدین اور بڑے بھائی کے ساتھ ساتھ خلدیہ باجی کا بھی ہر حکم اور بات ماننا گویا ہم چھوٹوں کے فرائض میں شامل تھا۔شکل و صورت میں تو بارعب تھی ہی وہ، طبیعت میں بھی بہت رعب تھا اس کے، اس کی وجہ شاید اس کا سب بہنوں میں بڑا ہونا تھا۔میں نے ہمیشہ گھر کے ہر کام میں اس کو اماں مرحومہ کا ہاتھ بٹاتے دیکھا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر رشتے میں بڑی تھی تو وہ ذمہ دار بھی بہت تھی۔بڑی ہونے کے ناتے وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھریلو کاموں کی ہر ذمہ داری کو نبھانا بھی خوب جانتی تھی۔
انتہا سے زیادہ ہنس مکھ، خوش اخلاق اور قدرے جذباتی سی میری یہ بہن شاید دنیا میں خوشیاں ہی بانٹنے آئی تھی۔ ضرورت مندوں اور درد کے ماروں کی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتی تھی۔انتہا سے زیادہ ہمدرد اور دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر ہر ممکن حد تک مدد کرنے کی کوشش کرتی تھی۔رب نے اگر اس کو دوسروں کی مدد کرنے کے وسیلے عطا فرمائے تھے تو اسے دل بھی اتنا ہی خوبصورت دیا تھا۔ کسی کی تکلیف کا سن کر وہ ایسے ہو جاتی کہ جیسے یہ تکلیف اس کے خود پر گذر رہی ہو۔ہمدرد اور پرخلوص سی خلدیہ بہت رحم دل تھی۔اس نے اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں بہت خوبصورتی سے توازن قائم رکھا ہوا تھا۔
اس سے ایک بار ملنے والا اس کی پیاری شخصیت کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکتا تھا کیونکہ وہ تھی ہی بہت پیاری دلکش عادتوں والی۔نماز کی پابند تھی اور بچپن میں ہم سب چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی نماز کی تلقین کرتی رہتی تھی اور اگر ہم سے نماز قضا ہو جاتی تو ہمیں ڈانٹنے سے گریز نہیں کرتی تھی۔ہمیں دین کی باتیں بتانا اور ہر ممکن حد تک ان پر عمل کروانا گویا اس کے فرائض میں شامل تھا۔خدمت ِخلق کیسے کرنی ہے، والدین کا احترام کیسے کیا جاتا ہے، گھر میں آنے والا مہمان اللہ کی رحمت اور ہمارے اچھے سلوک کا حقدار ہے، عورت کا سگھڑ ہونا اور ہر رشتے میں پُر خلوص ہونا، ہم چھوٹی بہنوں نے اس سے ہی تو سیکھا تھا۔جب سے اس نے قرآنِ پاک کو ترجمہ اور تفسیر سے پڑھا تھا وہ اسلام کی بہت سی باتیں ہمیں بتانے لگی تھی۔
والد ِمحترم پروفیسر خالد بزمی نے اس کا نام بھی اپنے نام کے ساتھ ملا کر بہت خوبصورت اور پیارا رکھا تھا۔ یوں تو ہم سب بہنوں کے نام منفرد اور بہت پیارے معنی والے تھے، لیکن ان سب ناموں میں مجھے ذاتی طور پر خلدیہ باجی کا نام سب سے زیادہ پسند تھا۔والد ِمحترم اس کو اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ میری (ملکہ) بیٹی ہے۔ہم سب بہن بھائی وہ خوش قسمت بچے تھے کہ جن پر ہمارے والد ِمحترم نے ہماری شخصیت اور عادتوں کے حساب سے نظمیں لکھیں۔ یہ نظمیں والد ِمحترم کے بچوں کے لئے لکھے گئے مجموعات میں شامل ہیں۔
خلدیہ مرحومہ پر لکھی نظم میں والد صاحب لکھتے ہیں کہ
پھولوں کی طرح سے وُہ شگفتہ مزاج ہے
میں تو کہوں گا بادِ بہاری ہے خُلدیہ
ہر روز پانچ وقت کی پڑھتی ہے وہ نماز
ہم فخر سے کہیں گے ہماری ہے خُلدیہ
بزمی! مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں
ہاں خُلد سے خُدا نے اُتاری ہے خُلدیہ
جی بالکل اسی لئے تو دنیا میں ایسے کام کرنے کی کوشش کرتی رہتی تھی جس کے بدلے میں اسے اگلے جہان میں جنت ملے۔اس کی زندگی کی سانسیں کم تھیں اسی لئے تو اللہ نے اس کا ہر کام جلد جلد ہی لکھا تھا اس کے نصیب میں۔ کوئین میری کالج سے بی اے کا امتحان دیا تو فوراََ اس کی شادی ہو گئی۔بی اے کا رزلٹ بھی شادی کے بعد آیا تھا۔ میں تب سکول کی طالبہ تھی۔ بہت دھوم دھام سے شادی ہو کر کے پیا دیس سدھاری تھی۔شادی کے کچھ ہی ماہ بعد اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان سے بحرین جا بسی تھی۔بہنوئی میکنیکل انجینئر تھے۔ اللہ نے اسے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔
اللہ پاک نے بارہا اس کو اپنے گھر کی زیارت کی سعادت بخشی تھی۔ دنیا سے رخصت ہونے سے چند دن پہلے بھی یہ اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کر کے لوٹی تھیں۔بچے بہت چھوٹے تھے جب یہ بلڈ پریشر بڑھ جانے کی وجہ سے برین ہیمرج ہو جانے کے باعث دنیا سے رخصت ہو گئی تھی۔
اِنَّا لِلَّہِ وَاِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ
دل یہ ماننے کو تیار ہی نا تھا کہ گھر بھر کی لاڈلی، والدین کی آنکھوں کا تارا، بڑے بھائی سے لڑنے جھگڑنے اور روٹھنے منانے والی دوست اور ہم چھوٹے بھائی بہنوں کی ماں جیسی پیاری بہن، اپنے بچوں پر جان نچھاور کرنے والی ماں اور بہترین بیوی اب ہم میں نہیں رہی تھی۔
ہر سال خوشی خوشی چھٹیوں میں پاکستان آنے والی میری پیاری بہن جب مردہ حالت میں پاکستان لائی گئی تو اتنی جوان موت پر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار تھی، لیکن کہتے ہیں نا کہ وقت ہر حال میں تیزی سے گذرتا ہے، بس جانے والے ہی کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔آج ماشاء اللہ اس کے دونوں بیٹے حافظ ِقرآن اور انجینئر ہیں اور بیٹی بھی صاحب ِاولاد ہے، لیکن ان کی زندگی میں چھوٹی عمر میں ماں کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا کوئی دوسرا رشتہ پُر نا کر سکا۔اِس لئے کہ ماں کا رشتہ سب رشتوں سے انوکھا، نرالا اور لاڈلا رشتہ بنایا ہے رب نے۔آہ بہت جلدی چلی گئی وہ دنیا سے۔ہمیشہ کے لئے میری یادوں میں مہکنے والی میری پیاری بہن جس کو دنیا سے گئے برسوں تو بیت گئے، لیکن وہ آج بھی کہیں میرے آس پاس ہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ والد صاحب کی طرح خلدیہ باجی بھی آج تک ایک لمحے کے لئے میرے دِل و دماغ سے نہیں نکلیں۔میری باتیں اس کی یادوں سے جڑی ہیں
میری ہر کہانی میں اس کا ذکر ہے
ستر اور اسی کی دہائی میں بچوں کے مشہور رسالے (تعلیم و تربیت ) میں باقاعدگی سے کہانیاں لکھنے والی میری یہ بہن پہلے خلدیہ فردوس اور پھر خلدیہ بزمی کے نام سے آج بھی لوگوں کی یاداشت میں ہے۔ ”تعلیم و تربیت“ میں چھپی اس کی کہانیوں کو والد ِمرحوم نے بہت دِل سے کتابی صورت دی تھی اور جب وہ پاکستان آئی تو اپنی کتاب (خیرو بابا) دیکھ کر خوشی سے ابو جی کے سینے سے لگی تھی۔اس کی یہ کتاب مکتبہ تعمیر انسانیت سے شائع ہوئی تھی۔
اللہ تعالیٰ میری پیاری بہن خلدیہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے، آمین
ہاں! 8 نومبر کو ہی تو بچھڑی تھی وہ ہم سے
٭٭٭