بھارت نے دراندازی شروع کر رکھی تھی،تربیت یافتہ دہشتگردوں کو مشرقی پاکستان بھیجا گیا جنہوں نے قتل و غارت گری شروع کر دی
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:87
پاکستانی فوجی جو بنگال (مشرقی پاکستان) میں تعینات تھے ان پر لگائے گئے الزامات کی اب خود بنگالی محققین تردیدیں کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کچھ فوجیوں سے کوئی زیادتی بھی ہوئی ہو مگر کلکتہ یونیورسٹی اور دیگر اہم یونیورسٹیوں کے تحقیقاتی پیپرز میں یہ اعتراف کیا گیا ہے اور بھارت نے طویل عرصہ سے مشرقی پاکستان میں دراندازی شروع کر رکھی تھی۔ تربیت یافتہ دہشت گردوں کو مشرقی پاکستان بھیجا گیا۔ جنہوں نے وہاں پاکستان کے حامی افراد کی قتل و غارت گری شروع کر دی اور وہاں ایسے گروپ بھی پیدا ہو گئے تھے جو اسلام کے نام پر لبرل اور پاکستان مخالف عناصر کو قتل کر رہے تھے۔ پاکستان کے فوجی تو وہاں 24 یا 25 ہزار بنتے تھے۔ باقی جو نوے ہزار فوجیوں کا کہا جاتا ہے سب افتراع بازی ہے۔ باقی کے لوگ پولیس ملازمین، رینجرز اور سول ملازمین تھے۔ جب کسی ملک میں ایسی نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہو تو پھر کوئی فوجی توپ کاندھے پر رکھ کر ہی ایسے لوگوں کے درمیان جا سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں قتل و غارت گری بھارتی در اندازوں نے کی اور انتہا پسندوں نے لوٹ مار کی۔ اس لئے کہ بعد میں بنگلہ دیش حکومت کو امن و امان قائم کرنے میں جو دقت پیش آئی حکومت نے بھی درست معلومات حاصل کیں اور مکتی باہنی کے کارناموں کو وہ لوگ اب بھی تحقیق کر کے علیٰحدکر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے جو بیان دیا تھا وہ بنگلہ دیش میں ہونے والی خوں ریزی کا ایک مثبت جواب ہے۔ انہوں نے کہا تھا:
”ہم نے مسلمانوں سے برصغیر میں ایک ہزار سال حکومت کرنے کا بدلہ لے لیا ہے۔“
بھٹو…… صدر پاکستان
21 دسمبر 1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو اقوام متحدہ سے پاکستان آئے تو پاکستان کے محب وطن فوجی لیڈروں نے اُنہیں دعوت دی کہ وہ باقی ماندہ پاکستان کو سنبھالیں کیونکہ وہ ہی مغربی پاکستان میں عوام کے منتخب اکثریتی لیڈر ہیں۔ ان میں جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان شامل تھے۔ بھٹو صاحب نے جنرل یحییٰ خان سے حکومت کاچارج لیا اور اس کے بعد معاملات کو سنوارنے کے لیے کام شروع کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو بہت ذہین، فطین اور تعلیم یافتہ سیاست دان تھے اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ ایک مقبول عام لیڈر تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی ٹیم میں8برس تک اہم وزارتوں میں کام کر چکے تھے اور عملاً یہ جانتے تھے کہ پاکستان کے عوام کو کیا چاہئے۔ پاکستان کی ریاست کے کیا تقاضے ہیں؟ اور انہیں کس طرح پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے مگر اس سے قبل ہمیں اندازہ لگانا چاہئے کہ ذوالفقار علی بھٹو ان کے کس حد تک ذمہ دار یا شریک کار ہیں یا نہیں۔ اس سلسلہ میں ہم قطعی فیصلے تو نہیں کر سکتے مگر آثار و شواہد کی مدد سے اپنی رائے کا اظہار ضرور کر سکتے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔