سیلاب انڈسٹری؟
پاکستان میں سیلاب نے ایک مرتبہ پھر بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی، سرکاری طور پر کم تعداد بتانے والے ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق اس سیلاب نے ڈھائی ماہ میں تقریباً چودہ سو افراد سے ان کی زندگی چھین لی بتایا جا رہا ہے کہ اس قیامت صغریٰ سے تین کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے جن میں سے چھ لاکھ اب بھی ریلیف کیمپوں میں ہیں سرکاری طور پر اس سیلاب کے نقصانات کا کم از کم تخمینہ 10 ارب ڈالر لگایا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈی نینٹر جولین ہارنس کا کہنا ہے کہ ابھی صرف 385 ملین بطور امداد وصول ہوئے ہیں۔ سرکاری ادارے بتا رہے ہیں کہ متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو اور بحالی کے عمل میں پانچ برس لگ سکتے ہیں اور یوں یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ پانچ سال میں مزید سیلاب آ سکتے ہیں گویا اگر تعمیرنو اور بحالی کا کوئی کام ہونا بھی ہے تو پاکستان میں تقریباً چار کروڑ افراد بے یقینی میں زندگی بسر کرتے رہیں گے، ہر مون سون سیلاب کا بڑا خطرہ لے کر آ سکتا ہے، دنیا میں یہ آواز بھی سنائی دے رہی ہے کہ پاکستان کو ان ممالک کے گناہوں کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے جو گلوبل وارمنگ کے ذمہ دار ہیں۔ دنیا کے ٹمپریچر میں اضافہ کر کے وہ صنعتی ترقی کر رہے ہیں، اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دے رہے ہیں مگر ان کے یہ اقدامات ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہیں پاکستان کو پہلے مرحلے میں شدید سیلابوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور دوسرے مرحلے میں قحط کے خطرات منڈلاتے رہیں گے مگر یہ ممالک اپنی عالمی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور ان کے رویئے سے شبہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو سیلاب کی صورت میں سزا ملنے سے خوش ہیں، ان کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لئے جو امداد مل رہی ہے وہ واقعی مونگ پھلی کے مترادف ہے۔
پاکستان میں سیلاب کی تباہی کا منظرنامہ بہت خوفناک ہے۔ صوبہ سندھ کو سیلاب نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور 23آفت زدہ اضلاع کی تقریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی سیلاب کے غضب کا شکار ہوئی ہے۔ بلوچستان کے 32 اضلاع میں تقریباً 92لاکھ افراد سیلاب متاثرین میں شامل ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے 33 اضلاع میں 43 لاکھ سے زائد افراد کے سیلاب سے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ معاشی مسائل کا شکار حکومت متاثرین کی بحالی کے لئے کوئی بڑا اقدام کرنے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔
پاکستان میں یہ پہلا سیلاب نہیں ہے ہر چند سال بعد دریا بے قابو ہو کر آبادیوں کو تہس نہس کر دیتے ہیں، بارشیں ندی نالوں کو غضب میں مبتلا کر کے انسانوں پر عذاب نازل کرتی ہیں۔ پاکستان میں مذہبی رہنما سیلاب کو برے اعمال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور کروڑوں انسان بھی صبرشکر کر کے بیٹھ جاتے ہیں کچھ عرصہ بعد پانی اتر جائے گا، لوگ اپنے گھروں میں چلے جائیں گے اور سیلاب سیاست اور میڈیا کے ایجنڈے سے نکل جائے گا۔ سیلاب جہاں عوام کے لئے مسائل لے کر آتا ہے وہاں یہ ناقص تعمیراتی کام کرنے والے بلکہ سرے سے کام ہی نہ کرنے والوں کے لئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوتا ہے، ان کو دولت اکٹھی کرنے کا موقعہ فراہم کرتا ہے بلکہ الزام لگایا جاتا ہے کہ سیلاب متاثرین کے لئے جو رقم حاصل ہوتی ہے اس سے لوگ اپنی نسلوں کی خوشحالی کا انتظام بھی کر لیتے ہیں۔پاکستان میں کروڑوں لوگ چاہتے ہیں کہ سیلاب نہ آئے مگر ایسے خودغرض اور لالچی لوگ بھی ہیں جنہیں ہر سیلاب میں اپنا مستقبل محفوظ اور روشن نظر آتا ہے۔
پاکستان میں سیلاب کو کنٹرول کرنے کا کام سیاستدانوں اور میڈیا کے ذمہ ہے سیاستدانوں کو سیلاب سیاست کرنے کا موقعہ دیتا ہے اور میڈیا کو سنسنی خیز خبروں کی کمی کی شکایت نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جو سیلاب کو کنٹرول کر سکتے ہیں، نقصانات کو کم کر سکتے ہیں انہیں خود بھی کام کرنے کا شوق نہیں ہوتا مگر اس سے بھی زیادہ انہیں کام کرنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔
پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک یہ مسئلہ سائنسدانوں اور انجینئروں کے سپرد نہیں کیا جاتا انہیں فنڈز اور اختیارات نہیں دیئے جاتے اور اس معاملے میں سیاسی مداخلت کو ختم نہیں کیا جاتا۔ ہالینڈ کی زمین کا بڑا حصہ سطح سمندر سے نیچے ہے مگر وہاں سمندر کے پانی کو بھی انسانی آبادیوں پر چڑھ دوڑنے کی جرات نہیں ہوتی کیونکہ وہاں کے سائنسدانوں اور انجینئروں نے سمندر کے پانی کے جنون کو قابو میں کیا ہوا ہے۔
پاکستان میں دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی تباہی مچاتا ہے۔ اکیسویں صدی کی دنیا میں اسے قدرتی آفت سے زیادہ قومی نالائقی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سیلاب کے متاثرین کی بحالی کا کام تو ہو گا مگر مستقبل کے سیلابوں کو روکنے کے لئے قومی پالیسی اور منصوبوں کی خبر سننے کی حسرت ہی ہے۔ پاکستان میں ایک قومی کمیشن بننا چاہیے جس میں ایسے سائنسدان اور انجینئر شامل ہوں جو سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جو یہ بتا سکتے ہوں کہ کس طرح سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کر کے بنجر علاقوں کو آباد کیا جا سکتا ہے، کس طرح اس پانی سے بجلی پیدا کر کے قومی ترقی کی رفتار تیز کی جا سکتی ہے پہلے مرحلے میں ایسا سروے یا سٹڈی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس کے بعد سیاستدانوں اور میڈیا کا فرض ہے کہ وہ ذاتی مفادات اور ایجنڈے سے بالاتر ہو کر قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ماضی میں انجینئرنگ کے مسائل کو سیاسی بنایا جاتا رہا ہے اس سے ووٹ بھی حاصل کئے جاتے رہے ہیں مگر اکیسویں صدی میں کروڑوں عوام کو اب گمراہ کرنا ممکن نہیں ہے اور عوام کو جب سمجھ آ گئی کہ سیلاب ان کے گناہوں کا نتیجہ نہیں اور ان سے کہیں بڑے بڑے گناہ بڑے شہروں میں ہوتے ہیں اور گناہ کرنے والے اپنے لالچ اور نالائقی کی سزا عوام کو دیتے ہیں تو اس سے قومی سطح پر بے چینی پیدا ہو گی۔ حکومت اور سیاستدانوں کو سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سیلابوں پر قابو پانے کے لئے جامع منصوبے بنانا ہوں گے۔ پاکستان میں سیلاب کو انڈسٹری سمجھنے والوں اور اسے چالو رکھنے والوں کی وارداتوں اور گھاتوں کو سمجھنا ہو گا اکیسویں صدی میں وقت کی رفتار ماضی کی نسبت کچھ زیادہ ہی تیز ہو گئی ہے اور اب نہ تو وقت کو ماضی کی طرف دھکیلنا ممکن ہے اور نہ ہی وقت کی رفتار کو نظرانداز کرنا۔ سیاست دان اور میڈیا اپنے مفادات کو نظر اندازنہ کریں مگر سیلاب سے متاثرہ افراد کے مفادات کو پس پشت ڈالنے اور سیلاب انڈسٹری کو ترقی کرتے رہنے کی اجازت نہ دیں۔ وگرنہ کسی سیلاب کا رخ ان شہروں کی طرف بھی ہو سکتا ہے جن میں واقعی بڑے بڑے گناہ ہوتے ہیں۔