تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 49
شہباز خان نے اس حملہ کو جو موت کی طرح کاری تھا،ہزاروں جانیں دے کر روکنا چاہا لیکن راجہ اس کی صفوں کو پھاڑ کر مراد کے ہاتھی تک پہنچ گیا اور خود مراد کے زخمی اور مردہ سواروں کے نیزے چھین کر مراد پر پھینک پھینک کر مارنے لگا۔کم عمر شہزادہ ایرج زخمی ہو کر رونے لگاتو مراد نے اس کے خود پوش سر پر پاؤں رکھ کر بیٹھا دیا۔پھر راجہ کے پھینکے ہوئے نیزے سے زخمی چہرے سے ابلتی ہوئی خون کی دھار دونوں ہاتھ سے چہرے پر مل کر تیروں کی بارش شروع کر دی۔اب راجہ زخمی چیتے کی طرح گنج سلطان پر چڑھ آیا تھا۔فیل بان ماراجا چکا تھااور راجہ نے تلوار سونت کر حقارت سے کہا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 48 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’تم صاحب عالم کے سامنے بادشاہ بننا چاہتے ہو۔‘‘
جملہ مکمل ہونے سے پہلے اتنا زبردست وار کیا کہ شاہزادہ مراد کی نادر ڈھال ٹوٹ گئی اور انگلیاں زخمی ہوگئیں۔اتنی دیر میں گنج سلطان نے راجہ کوسونڈ سے دھکا دے کر پھینک دیا ، اب راجہ مرا د کی عماری رسیاں کاٹ رہا تھا،سن اور ریشم سے بنی ہوئی رسی کٹنے ہی والی تھی کہ مراد نے کمان تیر سے جوڑا،کان تک چلہ کھینچ کر بے خطا نشانہ لیااور تیر راجہ کا سینہ توڑ کرنکل گیا،راجہ کے گرتے ہی ہمر کابوں نے ایک بار پھر سمٹ کر مجنونانہ حملہ کیالیکن مراد کے سپاہیوں کی ہمتیں بڑھ چکی تھیں۔فتح کے باجے لگے اور شہبازخان اپنے ہاتھ سے مہاراجہ مرزا رام سنگھ کا سرکاٹ کر نیزے پر چڑھ چکا تھا۔
جب سر بلند نے دو ہا تھیوں کے ساتھ راجہ رام سنگھ پر یلغار کی ہے۔اس وقت خان دوراں ناصری خان اپنے ہاتھی سے اتر کرگھوڑے پر سوار ہو چکا تھا اور مراد کی کمک پر باگ اٹھانے والا تھا کہ خبر آئی کہ راؤ چھتر سال ہاڑا بارہ ہزار لشکر لئے بڑھتا چلا آرہا ہے ۔
اورنگ زیب نے پہلا کا م یہ کیا ،خان دوران کو اپنی رکاب میں روک لیا ۔خان زماں اسلام خاں کو حکم بھیجا کہ وہ اپنے پورے لشکر کے ساتھ حرکت کرے اور راؤ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر راستہ روک لے،ذوالفقار کو فرمان ملا کہ پہلا توپ خانہ دھکیل کر راؤ کے داہنے بازو پر لے جائے اور شتر سوار زمبوریں قول کے سامنے لگا دے۔شاہزادہ سلطان محمد کوہدایت کی گئی کہ ہر پانچ اول پر پانچ ہزار سواروں کے ساتھ قائم رہے اورجب حکم پہنچے خان خاناں نجاہت خاں پانچ ہزار فوج کے ساتھ نکلے اور راؤ کے پشت پر کاری وار کرے،اس طرح اورنگ زیب اپنے ایک ایک ڈویژن فوج سے کام لے کر آخری لڑائی کیلئے تیار ہوچکا تھا۔
ادھر رستم خاں فیروز جنگ کی موت پر راؤ چھتر سال ہاڑا پیچ وتاب کھا رہا تھا کہ راجہ رام سنگھ کی فیصلہ کن لڑائی کی خبر لایا اور اطلاع دی کہ راجہ نے شاہزادہ مراد کے خونیں ہاتھوں کو کاٹ کر پھینک دیا ہے اس کے بڑے بڑے سردار مارے جا چکے ہیں اور کوئی دام جاتا ہے کہ شاہزادہ گرفتارہو گا یا مقتول۔
تین سو برس قبل کے قاصد جو میل میں پھیلے ہوئے تھے ،میدان جنگ کے ایک سرے سے دوسرے تک میدان جنگ کی تقدیر بدل ڈالنے والی خبریں لے جانے کو زندگی کی سب سے بڑی عیادت خیال کرتے تھے،برستے ہوئے گولوں تیروں اورنیزوں سے بچنے کیلئے میلوں کا چکر کاٹ کر اتنی دیر میں منزل مقصود تک پہنچتے تھے کہ اکثرلڑائی ان کے علم کے برخلاف دوسری کروٹ لے چکی ہوتی تھی۔یہ غلطی سامو گڑھ میں بھی دہرائی گئی،راؤ نے ایسی ہی ایک خبر کے مطابق میدان جنگ کے نقشے پر غور کیا اور تصور کیا کہ اورنگزیب جیسا بے نظیر سپہ سالار اپنے بائیں بازو کو راجہ رام سنگھ کی تلواروں سے قلم نہ ہونے دے گا اور کسی امیر کو بھیجنے کے بجائے مراد کی مدد کیلئے خود حرکت کرے گا اور اپنے مورچے تہ و بالا کرے گا۔اس حالت میں اگر اورنگ زیب پر حملہ کر دیا جائے تو گھڑی بھر میں لڑائی کا فیصلہ ہو جائے گا اور حرکت اس کی خبر درست ہوتی تو فیصلہ ہو جاتا۔
اس وقت جب آفتاب پر نروال کے سائے پڑنے لگے تھے،لشکر شاہی کے قول سے نقاروں کی آوازیں آنے لگیں،گویا راؤ کو جنبش کا حکم مل گیا۔اس نے ہر اول کو پیش قدمی کا حکم دے دیا۔راؤ کے سامنے پچاس ہاتھیوں کی قطار تھی۔ہاتھی ایک دوسرے بے بھڑے ہوئے تھے،بے پناہ گرامی سے بدحواس توپوں اور زمبوروں کی مسلسل آوازوں سے بے قرار فولاد کی دیوار کے مانند چنگھاڑتے چل رہے تھے۔ان کے سائے میں دو ہزار راجپوت جومعہ اپنے گھوڑوں کے لوہے کے خول میں بند تھے ان کے شانے سے لگے برچھیوں میں زردکام دار ریشم کے پھریرے لہرارہے تھے،ہا تھوں میں علم،ہلاتی تلواریں،کٹاریں اورجمدھر اور سروہی ایک ایک ہتھیار سے شعلے نکل رہے تھے ان کے چار آئینے میں شیشے کے مانند چمک رہے تھے۔ڈرتے ہوئے جانوروں کی پا کھریں اور بجتی ہوئی زنجیروں سے عسکری موسیقی کے چشمے پھوٹ رہے تھے۔راؤ عالم پسند نام کے قد آور ہاتھی پر سوار تھے جو چند سال پہلے دارا شکوہ نے انعام میں عطا کیا تھا او ر جس کا نام راؤ نے عالم پسند رکھا تھا۔راؤ مرصع ہودج میں اکیلا تھااور کھڑ ا تھا ۔ہیروں سے سفید پٹکے میں دہری تلواروں کے مرصع قبضے دور سے چمک رہے تھے۔زعفرانی جالے کے آستینوں پر کنگن تڑپ رہے تھے اور بازوؤں پر جوشن بندھے تھے ۔دارا اسے انعام ملا ہوا ہے بے مثل موتیوں کا سر پیچ گوہر نگار مندیل پر تاج کی مانند چمکے رہے تھے اورسر پر شاہجہانی کا سایہ لہرا رہا تھا۔پیچھے مست ہاتھیوں پر بوند راج کے نشان اڑ رہے تھے۔سانڈنیوں پر سوار نقارے گرج رہے تھے عالم پسند چاروں طرف زرد پوش کے نشان اڑ رہے تھے جو ڈھالوں کی تہمت سے بے نیاز تھے۔ان کے شانے کمانوں اور ترکشوں سے خالی تھے اور دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔جن کیلئے ٹوٹنا مشکل اور جھکنا نا ممکن تھا۔راؤ کے پیچھے داؤ د خاں پانچ ہزار میل مغل اوزیک اوروسط ایشیا کے نام گرامی قبائل کے نام لیوا سواروں کو اپنی رکاب میں لئے چل رہا تھا جن کی خود سے نکلتی ہوئی زلفیں آہن پوش کندھوں پر جھول رہی تھیں اور سیاہ و سفید داڑھیوں سے ہیبت ٹپک رہی تھی۔بعض اپنے بکترو ں میں شیر اور چیتے کی کھالیں لپیٹے ہوئے تھے اور وہ جھنڈے لئے چل رہے تھے جو ان کے بزرگوں کو چنگیز اور تیمور نے عطا کئے تھے ۔
توپیں کانوں کے پردے پھاڑ ڈالنے والی آوازوں میں گرج رہی تھی اور زنبوریں داغ رہی تھی اور راؤ کا لشکر بدبو دار کاے دھوئیں کی وبیز چادر سے گزررہا تھا۔گردوبادکا بادل ہاتھیوں کو مستک تک ڈبوئے ہوئے چل رہا تھا۔گھوڑے گھبرا گھبرا کر بھڑک رہے تھے اور سواروں کو نظر نہ آرہا تھا۔جب ذرا مطلع صاف ہوا تو راؤ نے بائیں ہتھیلی کے پیچھے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ غنیم کے چست و چالاک گھوڑے،پتھریلے بیل،سبک قدم خچراورصبا رفتار سانڈنیاں چھوٹی چھوٹی توپوں کو دھکیل دھکیل کر اس کے داہنے بازو پر پہنچانے میں سر گرم ہیں اور ان کے شانہ سے شانہ ملائے شتر سوار توپ خانہ چل رہا تھا ۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 50 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں