تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 50
راؤ نے عماری سے اپنا علم کھنچ لیا اور تین بارتکان دے کر اپنے بائیں ہاتھ پر جھکا دیا اور ترتیب یافتہ لشکر کوہ پیکر مشین کی طرح بائیں ہاتھ کی طرف جھکنے لگا،راؤ نے ابھی اپنا جھنڈا سیدھا نہیں کیا تھا اور ذوالفقار خاں کے توپ خانہ کی زد سے اپنے رسالے نکال لایا تھا اور دور سامنے اورنگ زیب کے سبز علم نظر آنے لگے تھے کہ بائیں ہاتھ کھڑے ہوئے ویران ساموگڑھ کی کچی عمارتوں اور باغوں کے عقب سے جنگلی ہاتھیوں کا غول نکلا اور ان کے پیچھے خان زمان اسلام خان اپنی پوری فوج کے ساتھ طلوع ہوا اور چشم زدن میں راؤ کے بازو پر کمان کی طرح پھیل گیا اور راؤ کے گھتے ہوئے سواروں پر تیروں کی اتنی تیز بارش ہوئی کہ آسمان کا لا ہو گیا،اورنگ زیب کے سیدھے ہوئے ہاتھیوں پر بیٹھے ہوئے بے خطا نشانہ بازوں نے اور تیر اندازوں نے اچانک اتنی باڑھیں ماریں کہ راؤ کے ہا تھیوں نے زخمی ہو کر پسپا ہونا شروع کر دیا ۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پاگل جانوروں کی مجنونا نہ واپسی نے گھوڑے سے گھوڑا ملائے ہوئے راجپوت سواروں اور سواریوں کو کچل کر جب ہاتھی گزر گئے اور اسلام خان کے دستے گتھ گئے۔ تب راؤ کے خاص رسالوں نے سنبھال لیا اور سمٹ کر اسلام خان پر ایسا زبردست حملہ کیا کہ سنبھالے نہ سنبھال سکا۔صف بندی اس طرح غارت ہو گئی جیسے برجھائے ہوئے ہاتھی گنے کے کھیت میں پھاند پڑیں ۔
راؤ چھتر سال جو اکیا ون لڑائیاں لڑچکا تھا۔دیکھ رہا تھا کہ غنیم کا توپ خانہ اس کے داہنے بازو پر بڑھا چلا آرہا ہے اور اسی لمحے یہ بھی محسوس ہوا کہ شاہی توپ خانہ خاموش ہو گیاہے ۔فورا ایک دستہ توپ خانے کی خیریت کیلئے روانہ کیا اور کمر دونوں تلواریں بلند کر کے جنگ مغلوبہ کا حکم دے دیا۔اسی وقت راؤ کا بھتیجا کمار بھرت سنگھ عماری کے پاس آیا اور رکابوں میں کھڑا ہو کر گرجا۔
’’آگیہ ہو تو اپنے سواروں کے ساتھ اڑوں اور ذوالفقار خان کا توپ خانہ تہس نہس کر کے ڈال دوں۔‘‘
راؤ بھتیجے کی اس بے محابہ جلاوت کے اظہار سے محظوظ ہوا۔بے مثل موتیوں کا ہار گلے سے اتار کر کمار کی طرف اچھال دیا اور کڑک کر حکم دیا۔
کمار نے ہار گلے میں پہنا اور گھوڑا موڑ کر تین بار راؤ کے ہاتھی کا طواف کیا جیسے آخری رخصت کی رسم ادا کر رہا ہو۔پھر سوار خاصہ کے ساتھ اٹھا اور اسلام خاں کی فوجوں کے سمندر میں پھاند پڑا۔فیل بان کو ہاتھی بڑھانے کا حکم دے کر راؤ نے بھاری آواز میں برجستہ اشعار پڑھے۔
’’چھتر سال،تیرے جیون پر دھکا رہو
تیری آنکھوں کے سامنے تیرے صاحب عالم پر
دور دراز کا رستم نچھاور ہو گیا
ابھی جیون کا ٹھیکرا ہارکر
وفا اور شجاعت کے چاند تارے جیت لے گیا
چھتر سال تیرے جیون پر دھکار۔‘‘
کمار بھرت سنگھ اپنے پر ستاروں کے ساتھ خان زمان اسلام خان کی صفوں کے سمندر میں شناوری کر رہا تھا۔رسیدہ اورتجربہ کار خان زمان سامو گڑھ میں جان دینے نہیں میدان جیتنے اور انعام لینے آیا تھا اورتجربے نے بتایا تھا کہ غیض وغضب سے بھاری صدمہ توپہنچایا جا سکتاہے،جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔لیکن حملہ آور چاچا جی مہراج کی آگیہ کا پالن کرنے یا جان ہارنے نکلے تھے اور صفوں میں تہلکہ ڈالے تھے۔خان زمان کی آنکھوں کے سائے میں سالہا سال کی لڑائیاں کے رفیق غضب ناک سنگھوں کی تلواروں کا شکار ہو رہے تھے۔اس نے عماری پر جھک کر خواص کو حکم دیا کہ سواروں کو واپس بلاؤ۔ساتھ ہی صولت خان کو میدان میں ہاتھی اتانے کا حکم دیا۔
راؤ نے دشمن کی چال بھانپ لی اور فوجدار کو ہاتھی ریل دینے کا حکم دیا۔آنکس کھا عالم پسند نے ایک چیخ ماری اور سونڈ میں بندھا ہوا ایک من کا وزنی کلہاڑا ہلاتا چلا۔سواروں کی صفیں اور پیادوں کے مورچے جو کچھ سامنے پڑا،غارت کر دیا۔خان زمان کا اہر اول جومنظم واپسی کے حکم کا انتظار کر رہا تھا اور صفیں چھوڑ چکاتھا۔اس نا گہانی حملے کی تا ب نہ لا سکا اور بھاری نقصان کے ساتھ پسپا ہوا۔ٹھنڈے گمبھیر اورنگ زیبی جنرل نے میدان ہاتھ سے نکلتے دیکھا توا ورنگ زیب پر یلغار کے سیدھے راستے کا لالچ دے کر اپنے داہنی بازو پر دینا شروع کیا اور سینکڑوں جانیں راؤ کی تلوارسے بچا لیں۔راؤ تو خان زمان سے اپنا راستہ صاف کرنے کو الجھا تھا۔راہ کو ہموار دیکھ کر سیدھااورنگ زیب کی طرف چلا اورخان زمان کے ہاتھی پر بے جگری سے دھارے کرتے ہوئے بیٹوں بھتیجوں کو نام لے لے کر پکارا اور نگ زیب کے لشکر پر چڑھا دیا۔اورنگ زیب جس کے تمام حواس میدان جنگ میں چمکے اٹھتے تھے،جانتا تھا کہ شاہی لشکرکا (فولادی دستہ) کریک ڈویژن ہے جس کے حملے کو انگیز کر لیتا تخت طاؤس پر جلوس کرنے کے برابر ہے،اس نے فوراً مظفر خان کو حکم دیا کہ دکن کی لڑائیوں کے آزمودہ کا رتمام دو سو ہاتھی راؤ پرچڑھا دے،خان دوراں ناصری خان کو فرمان ملا کہ اپنے سوار ہاتھیوں کے پیچھے رکھ کر تیروں کا مینہ برسا دے۔ساتھ ذوالفقار خاں کو پیغام بھیجا کہ راؤ کے ہاتھی کو جو اپنے لشکر میں پہاڑ کی طرح چمک رہا ہے۔قادر اندازوں کے ذریعے زنبور کا نشانہ بنا دے۔اسی نقشے کے مطابق خان زمان کو فرمان ملا کہ وہ زنبوروں کے زد سے باہر ہٹا چلا جائے اور جب اورنگ زیب کے سبز علم کو حرکت ہو تو بجلی کی طرح دھاوا کرے۔
راؤ نے اپنے سامنے ہاتھیوں کوبادلوں کی طرح امنڈ تے دیکھا تو زعفران پوش سواروں کو بلا کر داؤدخان کو حکم دیا کہ اپنے بکتر پوش مغل،اوزبک اور ایرانی تیر اندازوں کے ساتھ ہر اول کی جگہ سنبھال لے ۔داؤد خان نے آناً فاناً بچے کچھے رام کئے ہاتھیوں پر وسط ایشیا کے بے مثل تیز انداز اور تفنگ بردار چڑھائے اور اعلان کیا کہ فیل بان نشان بنانے والے کو ایک اشرفی اور ہاتھی کو مارنے والے یا قبضہ کرنے والے کو دس اشرفی کا انعام دیا جائے گا۔پھر زد میں آتے ہی تیروں اور گلیوں کا پہلا بادل برسال۔ہاتھیوں کی چنگھاڑوں اور فیل بانوں کی فریادوں سے میدان جنگ کا کلیجہ دہل گیا۔پہاڑ ایسے آہن پوش ہاتھی جب ایک دوسرے سے ٹکراتے تو معلوم ہوتا جیسے آسمان پر ہتھیار نکہت امنڈ کر گرج رہاہواور گرج گرج کر برس رہا ہو،راؤ کے قادر اندازوں اور ہاتھیوں کے درمیان سے اپنے ان خاص رسالوں کو جو خود کشی کے دستوں کے مماثل تھے اور نگ زیب پر لپکا دیا تھا۔جیالے سپاہیوں نے گھوڑوں سے اتر اتر کر فیل بانوں کو قتل کر کے غنیم کے ہاتھیوں پر قبضہ کر کے خود غنیم کی صفوں میں ڈال دیا تھا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 51 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں