نامنظور، نامنظور، اب نہریں نامنظور!

   نامنظور، نامنظور، اب نہریں نامنظور!
   نامنظور، نامنظور، اب نہریں نامنظور!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چھ نہروں کا مسئلہ نازک شکل اختیار کر گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ سندھ حکومت سمیت تمام طبقات ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور مجھے تویہ محسوس ہونے لگا ہے کہ اس منصوبے کا انجام بھی کالاباغ ڈیم جیسا ہوگا کہ جو بن نہیں پایا، الٹا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا، افسوس تو یہ ہے کہ اس ڈیم کی ابتدائی تعمیر کے دوران جو مشینری وہاں رکھی رہی، وہ بھی کوڑا بن گئی اور یہاں خالص نقصان ہو گیا۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے کوئی دلیل کوئی تجویز نہ مانی گئی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سنی ہی نہیں گئی اور حالات حاضرہ کی طرح نامنظور کا نعرہ بلند کر دیا گیا، مجھے یاد ہے کہ جب یہ بحث چھڑی ہوئی تھی تو پیپلزپارٹی پنجاب میں اپوزیشن میں تھی اور یہ اپوزیشن منحنی تھی جس کے سربراہ پیارے رانا اکرام ربانی تھےّ ہم بھی کوریج کے لئے جاتے تو اپوزیشن لیڈر کے دفتر میں بھی چکر لگاتے تھے انہی دنوں محترم نثار کھوڑو لاہور تشریف لائے اور رانا صاحب کی معیت میں اپوزیشن لیڈر روم میں میڈیا سے بات کی۔ اس پریس کانفرنس میں انہوں نے کوئی دلیل نہ مانی، بلکہ ببانگ دہل کہا کہ کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیں گے۔ ان سے سوال کئے اور پوچھا گیا کہ ڈیم کے نفع و نقصان اور اہمیت کے حوالے سے تکنیکی ماہرین کا پینل تشکیل دیکر تجاویز لی جائیں لیکن انہوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں کہ یہ ڈیم سندھ کے پانی پر ڈاکہ ہے حالانکہ ماہرین اور ڈیم کا ڈیزائن بنانے والوں کا موقف تھا کہ یہ ڈیم پورے ملک کیلئے مفید ہوگا، پانی ذخیرہ ہوگا تو سیلاب سے بھی بچت ہوگی اس سے 4ہزار میگاواٹ سستی بجلی بھی بنے گی۔کوئی دلیل نہ مانی گئی اور مخالفت برائے مخالفت کاسلسلہ جاری رہا اور بالآخر یہ منصوبہ ٹھپ ہوگیا،جس سے سیلابوں کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑا، سندھ کے ساتھ موجودہ کے پی کے سے بھی مخالفت ہوئی اورکہا گیا کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا، ماہرین نے اس اعتراض پر ڈیم کی اونچائی بھی کم کر دی تھی۔ میری یادداشت کے مطابق اس مخالفت کا پس منظر ذاتی انا تھی جس کا آغاز اس وقت کے پی کے کے،گورنر جنرل فضل حق نے کہا تھا، ان کی مخاصمت جنرل ضیاء الحق سے تھی،حتیٰ کہ کسی محفل میں اکٹھے ہوتے تو جنرل فضل حق سگریٹ سلگا لیتے اور کش لگا کر دھواں جنرل ضیاء کی طرف پھینکتے جو تمباکو نوشی ترک کر چکے تھے۔ فضل حق کی بعض باتیں جنرل ضیاء نے نہ مانیں تو انہوں نے چیلنج کیا کہ میں چین نہیں لینے دوں گا اور کالاباغ ڈیم کی مخالفت شروع کر دی۔

اب بھی صورتحال یہ ہے کہ حقائق جانے اور ان پر بات کئے بغیر مخالفت شروع ہے اور سندھ میں تو پوائنٹ سکورننگ کی رسم چل رہی ہے، جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے تو وہ تاخیر سے اس مہم میں شامل ہوئی ہے اور اس کی بنیاد وجہ سیاسی دباؤ ہے، کیونکہ قوم پرست جماعتوں نے نہروں کے مسئلہ کو ایشو بنا کر سیاست شروع کی تو مظاہرے دیکھ کر پیپلزپارٹی کو بھی ہوش آیا اور سندھ میں جماعتی بقاء کی خاطر احتجاج شروع کرنا پڑا اور اب نوبت یہ ہے کہ قوم پرستوں سے بڑھ کر شور مچایا جا رہا ہے کہ ووٹ بینک کا سوال ہے۔ اس مہم میں سندھ دشمنی اور تعصب کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ پنجاب میں تو اس کا ردعمل نہیں ہوا لیکن صوبائی حکومت نہروں کے حوالے سے اپنا موقف رکھتی ہے جس کے مطابق نہروں کا مقصد زمینوں کی ہریالی اور فضلوں کی پیدوار حاصل کرنا ہے تو جدید ایجادات اور سائنسی ترقی کی رو سے گرین پاکستان کی مہم کے تحت ہے اور ان نہروں کے لئے پنجاب حکومت اپنے حصے سے پانی فراہم کرے گی۔ کسی دوسرے صوبے کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالا جائے گا، لیکن یہ بات مانی نہیں جا رہی۔ضد ہے کہ نہریں نہیں بننے دیں گے۔ سیاسی مخاصمت اور خدشات ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گئے اور چولستان کے عوام کی پسماندگی کا خیال نہیں کیا جا رہا اور مخالفت جاری ہے۔

وفاق اور صوبائی حکومتوں کی رضامندی اور تعاون سے ارسا کا قیام عمل میں آیا جو دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے فرائض انجام دیتی ہے، تجویز یہ دی جا رہی ہے کہ احتجاج کی بجائے ارسا اور قومی اقتصادی کونسل کے پلیٹ فارم پر بحث اور مذاکرات کے ساتھ اس کا فیصلہ کیا جائے۔ سندھ حکومت اس تجویز پر بھی شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ صوبے کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا بہتر ہوگا کہ احتجاج چھوڑ کر حقیقی پلیٹ فارم پر بات کی جائے۔ وفاقی حکومت کو مشترکہ مفادات اور قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس بلانے میں تردد نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ملک کا مسئلہ ہے جو انتشار کی زد میں ہے، سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام لازم ہے لیکن کیا غضب ہے کہ کہتے ہوئے بھی عمل نہیں کرتے اور بحران کے ساتھ نیا بحران پیدا کرتے ہیں۔

میں اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود ملکی تحفظ کیلئے کئے جانے والے اقدامات کا حامی ہوں اگرچہ نظریاتی طور پر بہت سے تحفظات ہیں، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ جو حضرات ملک کی ذمہ داری نبھانے اور اٹھانے کے دعویدار ہیں وہ مذاکرات کی میز تک نہیں آتے اور ہر روز ایک ہی قسم کی باتیں دہراتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان حضرات کے پاس کہنے کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہوتی لیکن میڈیا کی چاہت سرچڑھ کر بولتی ہے اور بار بار اپنی بات دہرائے جاتے ہیں، میں اپنے سیاسی رہنماؤں سے متفق ہوں کہ اصل امتحان عوامی رائے ہے جو انتخابات کے ذریعے متعین ہوتی ہے لیکن دکھ یہ ہے کہ یہاں کوئی انتخاب بھی تسلیم نہیں کئے گئے اور دھاندلی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ آج کل بھی یہی الزام ہے اور ہمارے محترم اختلاف کیلئے بھی کوئی جمہوری پیمانہ مقر نہیں کرتے۔ خود تحریک انصاف حکومت کو آئینی نہ سہی عملی تو تسلیم کرتی ہے، سینیٹ اور اسمبلیوں کی نشستیں سنبھال رکھی، مراعات پوری وصول کرتے ہیں لیکن ان ایوانوں میں عوامی مسائل کیلئے آواز نہیں گونجی اور یہ عجیب صورتحال ہے، حالانکہ تحریک انصاف کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ وہ ایوانوں میں عوامی مسائل کے حوالے سے بات کرتے اور حکومت پر دباؤ ڈالتے، لیکن پی ٹی آئی کے پاس تو اب کپتان کی رہائی کے سوا کوئی ایشو نہیں ہے، حالانکہ اگر ایوان کی کارروائی چلنے دی جائے تو بقول اپوزیشن اس ممنوعہ ایشو پر بھی بات ہو سکتی ہے لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا اس سے خود اس جماعت کو نقصان ہو رہا ہے اور اختلافات کی خبریں زبان زد عام ہیں، یہ اس لئے کہ جماعت نے عوامی مسائل ترک کرکے صرف رہائی کو سامنے رکھا ہوا ہے اور باہر اتنی بڑی لیڈرشپ ہونے کے باوجود خان صاحب کا حکم ہی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مفید نہیں حیران کن سیاست ہے جو اسی جماعت کا طرۂ امتیاز ہے۔ یوں بھی جو آس اور امید اس جماعت کے باہر والے رہنمالگاتے ہیں وہ مایوسی میں ڈھل جاتی ہے اور ایسا ہی اب امریکی رویے سے ہو رہا ہے۔ بہتر عمل مذاکرات اور عملی سیاست ہے جو ایوانوں میں بھی ہونا چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -