تبدیل ہو جاؤ

تبدیل ہو جاؤ
تبدیل ہو جاؤ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی جمہوریت بڑی کمال کی ہے، کیونکہ ہماری جمہوریت وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتی ہے۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس آفاقی اصول سے آشنا ہو چکی ہے۔ جس کا ذکر آج سے کئی برس قبل حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنے ایک شعر میں بھی کیا تھا۔ وہ مرد قلندر جب اپنے عہد میں اس قانون قدرت کو جان گیا کہ دنیا بننے کے بعد اتنی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں تو آئندہ بھی یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ علامہ محمد اقبالؔ مفکر پاکستان تھے اور اور بر صغیر کے مسلمان ان کے مداح تھے۔ ان کے انھی خیالات کی بدولت پوری دنیا نے انھیں مسلمانوں کا بڑا رہنما قرار دیا اور اگرنھی خیالات کی حامل ، ہماری جمہوریت ہے تو ہمیں اسے بھی پوری دنیا کی عظیم ترین جمہوریت مان لینا چاہئے۔ بس ہمارے جمہوری نظام کی صرف اتنی سی خامی ہے کہ یہاں اکثر آمریت نے ڈیرے جمائے رکھے ۔ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ، کیو نکہ امریکی جمہوری نظام بھی اتنی ترقی کے باوجود جرائم کی دنیا کا اپنے ملک سے خاتمہ نہیں کر سکا۔ بھارت بھی ایک بڑی جمہوریت کا علمبردار ہے، لیکن ذات پات کے نظام میں وہ آج بھی گرفتار ہے۔
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
متذکرہ مصرعے کی حکمت سے آگہی حاصل کرنے کے بعداب عوامی شعور اس حقیقت کو بھانپ گیا ہے کہ بری سے بری جمہوریت، اچھی سے اچھی آمریت سے بہتر ہے۔ اس لئے تمام پاکستانی جمہوری نظام کی بقا کے لئے مصروف عمل ہیں۔
بات ہو رہی ہے تبدیلی کی۔ یہ تو حقیت ہے وقت کے ساتھ تبدیلی آ جاتی ہے۔ ہمیں اس کے لئے تیار رہنا چاہیئے بلکہ کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں تندہی سے سر انجام دیں تا کہ ہم اپنی امنگوں کے مطابق تبدیلی لا سکیں۔ مجھے وہ وقت یاد آ رہا ہے جب مجھ سے کہا گیا، تبدیل ہو جاؤ ۔ اس کے بعد میری زندگی میں آسانیاں پیدا ہونے لگیں۔ مو جودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر یہ بات عمران خان کوکہہ دینا ضروری ہے۔ خان صاحب تبدیل ہو جاؤ۔ یہ بات کرنے کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے۔ اس سے عمران خان کے سیاسی کردار کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اب سے پہلے یہ الزامات نواز شریف پر لگائے جاتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ نواز شریف جمہوریت کے علمبردار ہیں لیکن وہ پنی سیاسی جماعت پر ایک آمر کی طرح اثر انداز ہیں۔ اس کے بعد یہ الزام آصف علی زرداری پر لگایا گیاکہ وہ بھی اپنی جمہوری سیاسی جماعت پر آمر کی طرح حکم چلاتے ہیں۔ اسی سیاسی روئیے کو اپناتے ہوئے عمران خان نے بھی آمرانہ مطالبے شروع کر دئیے۔ پہلے ان کا کہنا تھا چار حلقوں میں دھاندلی ہوئی۔ ان میں دوبارہ الیکشن کروائیں۔ ان کے نزدیک ان میں وہی کامیاب ہوں گے۔ اندازہ ہوا چار سیٹوں سے وزیر اعظم بننا مشکل ہے۔ اس پر خان صاحب نے کہا الیکشن ہی دوبارہ کروائیں کیونکہ تمام سیٹیں میں جیتوں گا اور بلا مقابلہ وزیر اعظم بن جاؤں گا۔
اس مقام پر تینوں سیاسی جماعتوں کو سبق سیکھنا ہے۔ نواز شریف بھی ہر فیصلے میں عوامی امنگوں کو محفوظ رکھیں۔ اس کے ساتھ پارٹی کے عہدیداران اور ماہرین سے بھی مشورے لئے جا سکتے ہیں۔ یہ سیاسی رویہ آصف علی زرداری اور عمران خان کو بھی اپنانا چاہیے۔ عمران خان کے بقول تبدیلی آگئی ہے۔ اگر تبدیلی واقعی آگئی ہے تو پاکستان اب بھی مسائل میں گھرا کیوں نظر آ رہا ہے۔ جہاں نواز شریف کو اور آصف علی زرداری کو مدبرانہ سیاست کرنی ہے وہاں عمران خان کو بھی مدبرانہ سیاسی کردار ادا کرنا ہو گا۔ جمہوریت میں زیادہ تر فلاحی کاموں پر توجہ دی جاتی ہے، لیکن دھرنوں کی بہار سے جمہوری نظام کو کمزور نہیں کرنا چاہئے۔ سیاسی رہنما اپنا کردار درست طور پر نبھائیں تا کہ آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے اپنے ملک کو محفوظ بنایا جا سکے۔
یہاں مجھے حضرت داتا گنج بخش ؒ کے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ یہ صوفی بزرگ اپنی ذات میں اتنی بڑی تبدیلی لائے۔ پیار اور محبت کے پیغام کو عام کیاتو بر صغیر میں اتنی میں بڑی تبدیلی آگئی۔ وہ لوگ جو ذات پات میں بٹے ہوئے تھے وہ اخوت و مساوات سے رہنے لگے۔ امن پر یقین رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے کام آنے لگے۔ واقعہ یہ ہے کہ محمود غزنوی کے دور میں حضرت داتا گنج بخشؒ ابھی زمانہ طالب علمی میں تھے۔ آپ کی عمر اس وقت تیرہ برس کے لگ بھگ تھی۔ آپ جس مدرسے میں زیر تعلیم تھے وہ محمود غزنوی کا قائم کردہ تھا۔ جب وہ وہاں سے گزرا تو اپنے تعمیر کردہ مدرسے میں بھی گیا۔ وہاں تمام طلبا میں حضور داتا صاحب ؒ بڑے انہماک سے پڑھ رہے تھے۔سلطان محمود غرنوی آپ کی جانب بڑھااور آپؒ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔آپ کے استاد گرامی نے ارشاد فرمایا دیکھو مخدوم علی کون آیا ہے؟ اس پر داتا صاحب ؒ نے محمود غزنوی کو تھوڑی دیر دیکھا۔ جس پر محمود غزنوی بس ایک دو لمحے ہی ٹھہر سکا اور چلا گیا۔ جاتے ہوئے محمود غزنوی نے کہا بخدا یہ بچہ خدا کی طرف راغب ہے۔ ہندوستان کا اتنا بڑا رہنما جس سے بڑے بڑے مہاراجا لرزتے تھے ایک بچے کے سامنے نہ رک سکا۔ ہمارے تمام رہنما اس واقعے سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ انقلابی تبدیلی واقعی آئے اور عوامی مسائل حل ہو جائیں تو انھیں بھی امن و آشتی کا پیغام عام کرنا ہو گا۔ بھر ہی جا کر وہ حقیقی عوامی رہنما بن سکتے ہیں۔
مکرمی! پاکستان کی اس وقت کون سی ایسی آنکھ ہو گی جو پُرنم نہ ہو گی۔ اس قدر وحشیانہ کارروائی کہ انسان تو انسان، جانور بھی اس واقعے سے کانپ اُٹھے۔ بچے تو نبی پاکؐ کے پھول ہوتے ہیں اور ان شرپسندوں نے نبی پاک ؐ کے پھولوں کو کتنی بے دردی سے روند دیا۔ ان ماؤں کے غم کا کیا عالم ہو گا، جنہوں نے اپنے بچوں کو سکول کے لئے رخصت کیا تو وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ عزیز و اقارب اپنے پیاروں کی واپسی کی راہ تکتے رہ گئے، مگر جو ایک بار جنت میں داخل ہو جاتا ہے، وہ واپس نہیںآتا۔ اس قدر شرمناک حرکت سے پہلے زمین کیوں نہ کھا گئی، ان سفاک درندوں کو۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران نے فوری طور پر پشاور پہنچ کر واقعے کی از خود نگرانی شروع کر دی۔ وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لی۔ اہم بات تو یہ ہے کہ اس خونی درندگی کے بعد حکومتی اراکین، سوگواران اور بچوں کے بھی حوصلے پست ہونے کی بجائے مزید بلند ہو گئے ہیں۔ آج ہر پاکستان شدتِ غم سے نڈھال ہے۔ نہ صرف والدین، بلکہ پورے پاکستان کو اللہ تعالیٰ صبر جمیل عطا کرے اور ان درندہ صفت عناصر کا پاکستان سے صفایا کرے اور اس ملکِ عظیم کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے۔ حکومتِ وقت کو چاہئے کہ دہشت گردی سے متعلق ایک مربوط حکمتِ عملی بنائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔(محمد ضیاء آفتاب۔ احمد بلاک، نیو گارڈن ٹاؤن، لاہور)

مزید :

کالم -